تحریر: نادر علی شاہ
آج سے تقریباً چودہ سو سال قبل کوہ صفا پر کھڑے ہوکر اہل قریش کی تمام شاخوں کو نام لے لے کر پکارنے والی ہستی حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اہل مکہ کو اکٹھا کر لیا تو فرمایا : اے اہلِ قریش اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کی دوسری جانب ایک بہت بڑا لشکر مکہ پر چڑھائی کرنے والا ہے تو کیا آپ لوگ میری اس بات پر یقین کریں گے؟ اہل قریش نے ہاں میں جواب دیا اور کہا ہم نے آپ پر کبھی تہمت لگتے نہیں سنی، ہم نے آپ کو ہمیشہ سچا پایا ہے اور آپ صادق اور امین ہیں ۔ اس لیے ہمیں یقین ہے جو آپ فرما رہے ہیں درست ہے ۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی کوہ صفا سے اہل قریش کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا یہ پہلا حصہ تھا جس میں اہل قریش سے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر اعتماد کا اظہار دیکھا جا سکتا ہے۔ اب اس خطاب کے دوسرے پہلو کی بات کریں تو جس میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اہل قریش کو اللّٰہ کا رسول ہونے، ایک اللّٰہ کی عبادت کرنے اور شدید عذاب کا پیغام دیتے ہیں جس کے نتیجے میں اہل قریش کا رویہ کیا ہوتا ہے ان سب باتوں کو الگ کر دیجیے ۔ ہم پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے خطاب کے پہلے حصے کی بات کرتے ہیں کہ وہ ایسی کونسی بات تھی کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے اتنے بڑے اعلان پر سب نے یقین کر لیا۔ وہ تھا "عمل” ۔ وہ عمل جو اعلان نبوت سے پہلے آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی گزشتہ چالیس سالہ زندگی میں اہل قریش و مکہ والوں کے سامنے پیش کیا ۔
جب نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت دحیہ کلبی کے ذریعے قیصر روم کے دربار میں اسلام کا پیغام بھیجا تو قیصر روم نے تصدیق کے لیے جناب ابو سفیان کو دربار میں بلایا جو کہ تجارت کے سلسلے میں رومی سلطنت کے مہمان تھے۔ جناب ابو سفیان نے بھی آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے متعلق یہی فرمایا کہ آپ وعدہ خلاف نہیں ، معاہدوں کی پاسداری کرتے ہیں ، صادق اور امین ہیں اور باکردار ہیں۔ ابو سفیان دشمن ہونے کے باوجود آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کیوں فرما رہے ہیں ؟ صرف آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے ” عمل ” کی وجہ سے جو انہوں نے ساری زندگی پیش کیا ۔
مواخات مدینہ کیا ہے، ” عمل ” ہے۔ میثاق مدینہ کیا ہے ، ” عمل” ہے۔ صلح حدیبیہ کیا ہے ، "عمل” ہے۔ خطبہ حجتہ الوداع کیا ہے "عمل” کا مکمل ضابطہ ہے جسے ہم نے اپنی زندگیوں میں لاگو کرنا ہے ۔ فتح مکہ پر عام معافی کیا ہے ، "عمل” ہے۔ وادی طائف کے سفر میں تبلیغ اسلام کے دوران سردارانِ طائف کی طرف سے اوباش نوجوانوں کو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے پیچھے لگا دینا اور پتھر مار مار کر سر سے پاؤں تک لہو لہان کر دینا اور پھر فرشتوں کا وادی طائف کو پلٹنے کے کہنے پر بھی انہیں معاف کر دینا کیا ہے، "عمل” ہے۔ ہم گنتے جائیں گے اور لکھتے جائیں گے لیکن حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے اعمال حسنہ ختم نہیں ہو پائیں گے جو کہ صرف اور صرف ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہی اسلام مغرب اور افریقہ تک کامیابی سے پہنچ چکا تھا ۔ بعد ازاں امیر معاویہ کے دورِ خلافت میں عقبہ بن نافع کی نگرانی میں ایک لشکر شمالی افریقی ملک المغرب اور آج کے مراکش کی طرف بھیجا ۔ اسلامی لشکر نے مراکش شہر کا محاصرہ کر لیا ۔ عقبہ بن نافع کی طرف سے مراکش کے سرداروں کو شہر کے دروازے کھولنے کا مطالبہ کیا اس صورت میں اہل مراکش کو امان دی جائے گی یا پھر لڑنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ سردارانِ مراکش نے شہر کے دروازے کھولنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح اسلامی افواج نے بغیر قتل و جدل کے شہر کو فتح کر لیا اور شہر میں داخل ہوگئی۔ تمام اہل مراکش بت پرست تھے۔ اگلی صبح اہل مراکش کے اکابرین کا ایک وفد سپہ سالار کے سامنے حاضر ہوا اور اس نے سپہ سالار سے شکایت کی کہ گزشتہ رات آپ کے سپاہیوں میں سے کسی نے ہمارے سب سے بڑے بت کی ناک کاٹ دی ہے ہمیں اس بات کا بہت دکھ ہے اور ہمیں انصاف چاہیے ۔ سپہ سالار نے اسی وقت تمام سپاہیوں کو ایک بڑے میدان میں اکٹھا کیا اور بیٹھنے کو بولا ۔ سپہ سالار نے سپاہیوں سے خطاب شروع کیا اور کہا گزشتہ رات مراکش کے سب سے بڑے بت کی ناک آپ میں سے جس نے بھی کاٹی ہے وہ کھڑا ہو جائے اور سامنے آئے ۔ لیکن سارے مجمے میں سے کوئی ایک بھی فرد کھڑا نہیں ہوا ۔ سپہ سالار کے مسلسل استفسار کرنے پر بھی جب کوئی سپاہی نہ کھڑا ہوا تو سپہ سالار نے مراکش کے اکابرین کے سامنے خود کو پیش کر دیا کیونکہ انصاف کا تقاضا بھی یہی بنتا تھا کہ یہ ساری فوج سپہ سالار کے زیرِ نگرانی میں تھی۔ سپہ سالار نے اکابرین مراکش سے کہا میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ آپ کے بت کا ناک کاٹا گیا ہے تو آپ میرا ناک کاٹ لیں اس طرح آپ کا بدلہ بھی پورا ہو جائے گا اور انصاف بھی۔ سپہ سالار کی یہ بات سن کر ایک سپاہی کھڑا ہوا اور اس نے یہ الزام اپنے سر پر لے لیا۔ دوسری طرف سے ایک اور سپاہی کھڑا ہوا اور وہ بھی یہ الزام خود پر لے رہا تھا۔ دیکھتے دیکھتے سب سپاہی کھڑے ہوگئے اور ہر کوئی یہ الزام خود پر لے رہا تھا ۔ مراکش کے اکابرین نے جب ایک فاتح مسلمان سپہ سالار کا یہ عمل دیکھا اور سوچا کہ ہماری بات کی کیا اوقات تھی اگر سپہ سالار چاہتا تو ہماری گردنیں بھی اتار سکتا تھا لیکن اس کا مذہب کتنا خوبصورت ہے جس نے اس کو رد عمل کے بجائے انصاف اور احسن عمل کرنے کی تعلیم دی ہے۔ مسلمانوں کے اس عمل کو دیکھ کر اہلِ مراکش نے اسلام قبول کر لیا ۔
اسلام نے مکہ مدینہ میں آنکھ کھولی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک صدی سے بھی کم عرصے میں پورے عرب، ایران ، ہندوستان ، روس، مغرب، اور افریقہ تک اپنے "عمل” سے پھیل گیا۔ اور آج یقین مانیں ہماری بستی یا گاؤں میں بسنے والے دو چار غیر مسلم گھرانوں کو ہم مسلمان نہیں کر پا رہے ۔ جو دو چار گھر ہمارے درمیان رہ رہے ہیں ان کی ساری زندگی بھی خوف میں گزرتی ہےکہ کب کوئی ہجوم آئے اور مذہبی بے حرمتی کا الزام لگا کر انہیں جلا دیا
جائے ۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی زندگی ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی زندگیاں ان کے بعد آنے والے مسلم فاتحین ، سپہ سالار ، خلیفہ جنہوں نے بھی اسلام کی خدمت کی یا اسلام کو پھیلایا صرف اور صرف عمل اور رواداری سے پھیلایا۔ کیا نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے عتبہ، شیبہ، ابو لہب ، ابو جہل ، ابو سفیان اور ہندہ جیسے دشمنوں اور آپ کا مذاق اڑانے والوں کے لیے ہجوم اور جتھے تیار کیے ہوئے تھے ؟ جو کُچھ ہی لمحوں میں ان گستاخوں کا سر تن سے جدا کر کے لے آتے تھے ۔ بالکل بھی ایسا نہیں تھا وہ تو تھے بھی سچے مسلمان ہمارے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے تربیت یافتہ مسلمان ۔
ہم ایسے مسلمان ہیں دودھ چاہیے تو پورا پاکستان گھوم لو آپ کو کسی دوکان سے خالص دودھ نہیں ملے گا۔ دوکان میں بڑی کر کے حدیث شریف لکھی ہوگی: "ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں”. ناپ تول میں ہم پورے نہیں ۔ سودا بیچتے ہوئے جھوٹ ہم بولتے ہیں ۔ وعدہ خلافی ہم کرتے ہیں ۔ دالوں میں ملاوٹ ہم کرتے ہیں ۔ گوشت کو پانی ہم لگاتے ہیں ۔ مردہ جانور ہم لوگوں کو کھلاتے ہیں ۔ چوری ہم کرتے ہیں ۔ دین کے نام پر ہم کھاتے ہیں ۔ زکوٰۃ ہم کھاتے ہیں ۔ یتیموں کا مال ہم کھاتے ہیں ۔شراب ہم پیتے ہیں اور ہر طرح کے نشے کا کاروبار ہم کرتے ہیں ۔ جوا ہم کھیلتے ہیں ۔ دوسروں کی عزتوں کے ساتھ ہم کھیلتے ہیں ۔ بچوں کے ساتھ زیادتی ہم کرتے ہیں اور پھر انہیں قتل بھی کرتے ہیں ۔غیرت کے نام پر قتل ہم کرتے ہیں ۔ بہنوں کا حصہ ہم کھاتے ہیں ۔ ذخیرہ اندوزی ہم کرتے ہیں ۔ ناحق مال سے حج عمرے ہم کرتے ہیں ۔ زمینوں پر قبضہ ہم کرتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں آپ کو کچھ بھی خالص چاہیے تو کوئی بندہ ہی نہیں ملتا اور کوئی بندہ مارنا ہو تو بندے ہی بندے۔
کسی عربی نے ہمارے بارے میں کیا خوب جملہ فرمایا تھا کہ مسلمان تو ہم بھی ہیں لیکن آپ لوگ تو بھاولے ہی ہو گئے ہو۔
جب سے ہوش سنبھالی ہے پاکستان میں مذہبی رواداری کو دن بہ دن کم ہوتا دیکھ رہا ہوں ۔ کوٹ رادھا کشن میں میاں بیوی کو زندہ جلا دیا گیا ، سیالکوٹ میں سری لنکن مینجر کے ساتھ بھی یہی ہوا، واقعہ ہارون آباد ، واقعہ جڑانوالہ ، مشعال خان کیس، سلمان تاثیر کیس، واقعہ سرگودھا اور واقعہ سوات۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا ان لوگوں کو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم یا اللّٰہ تعالیٰ خواب میں آکر اشارہ کرتے ہیں کہ فلاں بندے کو جلا دو۔ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو ایک دن آئے گا جب کوئی بھی محفوظ نہیں ہوگا ان نام نہاد مسلمانوں اور جتھوں سے۔
کیا حکومت اور حکومتی اداروں کے ساتھ معاشرے میں رہنے والے لوگوں اور مذہبی سکالرز کی زمہ داری نہیں بنتی کہ وہ اپنا کردار ادا کریں اور صحیح اسلام لوگوں تک پہنچائیں کیونکہ یہ لوگ جو بھی کر رہے ہیں اسلام سے محبت اور اسلام کے نام پر کر رہے ہیں ۔ یہ سراسر جاہل اور اسلام سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے اور اسلام سے واقفیت کروانے کی زمہ داری بہرحال علماء اکرام کی ہے۔ ہمیں ایک قومی سطح کی تربیت کی ضرورت ہے جس میں عدم برداشت ، انتہا پسندی ، نفرت کو دور کرنا ہے اور رواداری ، پیار، محبت ، احساس کو پروان چڑھانا ہے۔ ان مذہبی شدت پسندوں کو باور کرایا جائے کہ اسلام احسن عمل سے پھیلا ہے نہ کہ برے ردعمل سے۔ اسلام اور اسلامی تاریخ رواداری کی عملی مثالوں سے بھری پڑی ہے جس سے متاثر ہو کر لوگوں جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ اسلام کے نام پر قتل و غارتگری رکنی چاہیے ۔ اسلام تو انسانیت کا مذہب ہے جو ایک انسان کے نا حق قتل کو ساری انسانیت کے قتل کے برابر سمجھتا ہے۔ اسلام کے نام پر قتل کرنے والے دراصل کینسر ہیں جن کو الگ کرنا ہی درست ہوگا۔ "عمل” ہی واحد حل ہے جس کے ذریعے ہم اسلامی تعلیمات کو فروغ دے سکتے ہیں اور صحیح معنوں میں اسلام کی خدمت کر سکتے ہیں ۔ ہمیشہ تحمل ، بردباری اور برداشت کا مظاہرہ کریں کبھی کسی جتھے کا حصہ نہ بنیں کہیں ایسا نہ ہو کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑے ۔
کسی بھی رد عمل سے پہلے ہمیں اپنے عمل کو بہتر کرنا ہے جو اسلام اور انسانیت کے اصولوں پر پورا اترتا ہو ۔
آخر میں آپ کے خیال میں عمل بہتر ہے یا ردعمل ؟