تحریر:قیوم نظامی
میں نے آئین بنتے دیکھا
پاکستان کی آئینی اور عدالتی تاریخ نظریہ ضرورت کے اردگرد ہی گھومتی رہی ہے- جب حکمران بند گلی میں پھنس جاتے ہیں تو وہ آئینی ترمیم اور صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیتے ہیں- ماضی قریب میں ہم نے دیکھا کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت میں شامل نیب زدہ حکمرانوں نے نیب کے شکنجے سے بچنے کے لیے نیب کے قوانین ہی تبدیل کر دئیے – دو سال قبل حکمرانوں کی ضرورت تھی کہ آئین کے آرٹیکل نمبر 63 اے کی ایسی تشریح کی جائے کہ منحرف ارکان ووٹ ڈال سکیں مگر ان کے ووٹ گنتی میں شمار نہ کیے جائیں- عدلیہ نے نظریہ ضرورت کے تحت حکومت کی مرضی اور منشاء کے مطابق فیصلہ جاری کر دیا- آج حالات بدل چکے ہیں- موجودہ حکومت کو اقتدار کی مصلحتوں کی خاطر آئینی ترامیم کے لیے پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے ووٹوں کی ضرورت ہے- مبینہ طور پر نئے نظریہ ضرورت کے تحت سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ آئین کے آرٹیکل نمبر 63 اے کے بارے میں نظر ثانی کی اپیل کی سماعت کر رہا ہے- حکومت کو ایسا فیصلہ مطلوب ہے کہ منحرف ارکان کے ووٹ شمار کیے جائیں تاکہ آئینی ترامیم منظور کی جا سکیں- تازہ خبروں کے مطابق سپریم کورٹ نے نظر ثانی کی اپیل منظور کر لی ہے اور فیصلہ دیا ہے کہ وفاداریاں تبدیل کرنے والے اراکین ووٹ ڈال بھی سکیں گے اور ان کے ووٹ شمار بھی کیے جائیں گے- آئینی ترمیم کا اہم ترین ایجنڈا وفاقی آئینی عدالت کی تشکیل ہے- آئینی ترامیم کے شور شرابے میں آئینی تاریخ اور ارتقاء پر مشتمل ایک جامع اور مستند کتاب "میں نے آئین بنتے دیکھا” بک سٹالز کی زینت بنی ہے- جسے پاکستان کے بزرگ ترین صحافی الطاف حسن قریشی اور پروفیسر ڈاکٹر آمان اللہ سابق ڈین فیکلٹی آف لاء پنجاب یونیورسٹی نے شراکت سے تصنیف کیا ہے- آئین اور قانون خشک موضوعات ہیں لہزا کتاب کو قارئین کے لیے دلچسپ بنانے کی خاطر اس میں آئینی اور قانونی ارتقاء کے علاؤہ دلچسپ سیاسی تاریخی واقعات بھی شامل کیے گئے ہیں-اس کتاب کے 25 ابواب ہیں ہر باب منفرد اہمیت کا حامل ہے- گویا قارئین اس کتاب کا مطالعہ کر کے نہ صرف بر صغیر متحدہ ہندوستان کی تاریخ کے نشیب و فراز کو سمجھ سکتے ہیں بلکہ وہ آئین اور قانون کے ارتقا کا بھی ادراک کر سکتے ہیں- آئین اور قوانین کی روشنی میں بر صغیر ہندوستان دو ملکوں میں تقسیم ہوا اور پاکستان وجود میں آیا – یہ کتاب کی پہلی جلد ہے جو 1858 سے لے کر 1947 تک کے دور پر مشتمل ہے-1857 کی آزادی کی تحریک کو کچلنے کے بعد برطانیہ براہ راست ہندوستان پر قابض ہو گیا اس نے حکمرانی کے تمام اختیارات پارلیمنٹ کو سونپ دیے جس نے 1958 میں ایک ایکٹ منظور کیا تاکہ اس کی روشنی میں ہندوستان کے سیاسی اور انتظامی امور کو چلایا جا سکے-اس کتاب میں سر سید کی تعلیمی ادبی اور ائینی جدوجہد پر ایک دلچسپ باب شامل کیا گیا ہے-سر سید احمد خان دو قومی نظریے کے موجد تھے جداگانہ انتخابات کے حامی تھے اور تحریک علی گڑھ کے بانی تھے جس نے بعد میں تحریک پاکستان کو جنم دیا-باب نمبر 4 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کا پس منظر بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے-منٹو مار لے اصلاحات 1909 اور جداگانہ انتخاب کے اجرا کے سلسلے میں ایک جامع باب شامل ہے-
کتاب میں آئینی اصلاحات 1919 کی تفصیل بھی شامل کی گئی ہے-تحریک خلافت کی دلچسپ داستان بھی کتاب کا حصہ ہے-باب نمبر 10 سائمن کمیشن تجاویز دہلی نہرو رپورٹ اور قائدا اعظم کے 14 نکات پر مشتمل ہے-باب نمبر 11 میں علامہ اقبال کا خطبہ الہ اباد 1930 شامل کیا گیا ہے جو مسلم انڈیا کا انقلاب آفرین تصور ثابت ہوا-گول میز کانفرنس کا انعقاد اور 1935 کے آئین کی تدوین کے سلسلے میں دلچسپ معلومات کتاب میں شامل کی گئی ہیں-ازاد وطن کی تڑپ پیدا کرنے والی پیر پور رپورٹ بھی کتاب میں شامل کی گئی ہے- قرارداد لاہور اور علیحدہ وطن کا قومی مطالبہ کہ عنوان سے ایک جامع باب شامل کیا گیا ہے- باب نمبر 21 کابینہ مشن اور جمہوری حکومت کے قیام کی تفصیل بیان کرتا ہے-باب نمبر 24 میں قائد اعظم کے 11 اگست کے تاریخی خطاب کے پس منظر اور سیاسی اثرات کو بیان کیا گیا ہے مصنف اس خطاب کی آئینی اور سیاسی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ” قائد اعظم نے پاکستان دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد 11 اگست کو ایک ایسی تقریر کی جو لبرل حلقوں میں ایک مستقل حوالے کی حیثیت اختیار کر گئی جبکہ تاریخ کے پورے منظر نامے پر گہری نظر رکھنے والے قومی حلقے اسے غیر معمولی حالات کا ایک ناگزیر تقاضا قرار دیتے ہیں- قائد اعظم نے اپنے اس خطاب میں خبردار کیا کہ ہندوستان رشوت اور بدعنوانی کی لعنت کا شکار ہے یہ لعنت زہر قاتل ہے ہمیں ان کا آہنی ہاتھوں سے خاتمہ کرنا ہوگا – اسی طرح چور بازاری بھی ایک لعنت ہے اب آپ کو اس لعنت کا خاتمہ کرنا اور مجرموں کو سخت سزائیں دینا ہوں گی- پچھلے دور کی باقیات کی طرح اقربا پروری اور اختیارات کا ناجائز استعمال بھی ہمیں ورثے میں ملا ہے- میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں اختیارات کے کسی قسم کے ناجائز استعمال اور اقربا پروری کے لیے براہ راست یا بالواسطہ کوئی اثر و رسوخ قبول نہیں کروں گا ” – پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ اس کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں-” ہم اپنے ہم وطنوں کے بارے میں اکثر یہ شکایت کرتے آئے ہیں کہ وہ قانون پر عمل نہیں کرتے اور نہ ہی آئین کی بالادستی کو اہمیت دیتے ہیں میری نظر میں اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ ان میں اکثر آئین اور قانون کی حقیقی منشا سے واقف ہیں نہ ہی اس کی روح تک پہنچ پاتے ہیں کیونکہ وہ انگریزی زبان سے نابلد ہیں- پہلی بار اردو میں ایک ایسی کتاب شائع ہو رہی ہے جس میں آئین اور قانون کے نہایت مشکل اور خشک مضامین اس طرح بیان کیے گئے ہیں کہ وہ اپنے اندر بلا کی دلچسپی کے ساتھ ساتھ معاشرے کی نشوونما کے لیے گہری معنویت اپنے دامن میں لیے ہوئے ہیں-میں نے قانون کے استاد کی حیثیت سے اس امر کا پورا خیال رکھا ہے کہ آئین وقانون کی شقوں کا حوالہ دینے اور ان کی تعبیر و تشریح کرنے میں کوئی سقم نہ رہ جائے- میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ کتاب ہمارے وکیلوں صحافیوں لاء کالج کے طالب علموں سیاسی کارکنوں اور قانون ساز اداروں کے معزز ارکان اور تعلیم یافتہ اردو دان طبقے کے لیے بہت مفید ہوگی جو آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے خواب دیکھتے رہے ہیں اور اس کی تعبیر کے لیے ایک مدت سے کوشاں ہیں- آئین کی روح تک پہنچنے کا عمل جس قدر مستحکم ہوگا اسی قدر آئین کی بالادستی کا منظر نامہ حسین و خوب تر ہوتا جائے گا "- کتاب کے مصنف محترم الطاف حسن قریشی اپنے دیباچے آئین فہمی کے ناقابل فراموش تجربات میں رقم طراز ہیں – ” کتاب کی پہلی جلد میں برطانیہ کے 90 سالہ دور حکومت کی آئینی اصلاحات اور سیاسی تحریکات قلم بند کی گئی ہیں جن سے آئین اور قانون کی روح کو سمجھنا قدرے آسان ہو جائے گا- انشاءاللہ ہم ایک دو اور جلدوں میں ان دستوری تجربات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کریں گے جو پاکستان میں وقتا فوقتاً کیے جاتے رہے "- یہ کتاب پاکستان کے معروف اشاعتی ادارے قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل نے بڑے خوبصورت انداز میں شائع کی ہے-