آج ہم 2024 کے دور میں بھی دنیا سے کئی ہزار سال پیچھے جا چکے ہیں۔ دنیا جدید ٹیکنالوجیز متعارف کروانے میں مصروف عمل ہے اور ہم آج بھی دال ، گھی ، آٹا اور چینی کے ریٹس پر بحث و مبالغہ میں مصروف ہیں ۔ دنیا جدید سہولیات پر اپنی عوام کو آراستہ کرنے کی دوڑ میں ہے اور ہم اپنی عوام کو بجلی ٹیرف بدل بدل کر الجھا رہے ہیں ۔ دنیا کے عام لوگ بھی تحقیقی اور تخلیقی عمل میں مصروف ہیں اور ہم اعلیٰ سطح پر بھی تخریبی اور تنقیدی سوچ سے آراستہ ہیں ۔
آج کے تیز اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی ہم اتنا شعور نہیں رکھ پا رہے کہ ہم یہ فیصلہ کر سکیں کہ ہمارے لیے کیا درست ہے اور کیا غلط۔
اس سب کا زمہ دار کون ؟
اگر ہم اس کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیں تو میرے خیال سے غلط ہو گا۔ کیونکہ 77 سالہ تاریخ میں ہمیں یہی سمجھ نہ آ سکی کہ ہمارا اور ہماری نسلوں کا مستقبل کیا ہونا چاہیے تھا اور کیا ہے؟
ہم اس شعور تک نہیں پہنچ سکے ہمارے ساتھ اور ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک ہم سے کتنا دور نکل گئے۔
آج بھی ہم برادری ، قومیت کے نام پر دست و گریباں ہیں ۔اج بھی انہیں کے نعرے لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں جو ہمیں اس حالت زار تک لائے
ہم یہ شعور نہیں پیدا کر سکے ہماری پہچان ہماری برادری یا مخصوص علاقہ نہیں بلکہ پاکستان ہے۔
آج 77 سال بعد بھی ہم آٹا ، چینی کے حصول کے لیے لائنوں میں کھڑے ہو کر اپنا استحصال کر رہے ہوتے ہیں ۔
قومیں ہمیشہ غیرت اور خودداری سے بنتی ہیں
جو قومیں خوددار نہیں ہوتی وہ ہمیشہ رسوا ہوتی ہیں جیسا کہ آج ہم پوری دنیا میں ہو رہے ہیں اور اگر ایسے ہی چلتا رہا تو ایک دن خدا نا خواستہ ناپید ہو جائیں گے
اب سوچنا یہ ہے کہ ہم خود دار کیسے بنے گے؟
خودار بنے کے لیے ہمیں کسی کا نہیں اپنا احتساب کرنا ہو گا۔
1۔ کیا ہم اپنے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں ؟
2۔ کیا ہمارے بچوں تعلیم کے ساتھ ساتھ کسی بھی ہنر میں مہارت حاصل کر رہے ہیں ؟
3۔ کیا ہم میں معاشرتی برداشت ہے؟
4۔ کیا ہم اپنے دوست احباب اپنے ہمسایہ کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہیں ؟
5۔ کیا ہماری معاشرتی ہم آہنگی ہے؟
6۔ کیا ہم سیاسی سرگرمیوں کو اپنی عزت ، انا کا مسئلہ تو نہیں بنا رہے؟
اگر ایسا سب ہے تو پھر ہم قوم نہیں بن سکتے اور نہ ہی کبھی ہم پر مسلط جبر اور اجاڑا داریوں سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں ۔
آج میرے ملک کے 80 فیصد لوگ پریشان کن حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
ہم زاتی انا کی وجہ سے پریشانیوں کا مقابلہ تو کرنے کی کوشش کرتے کرتے زندگی ہار جاتے ہیں مگر اپنی انا کے خول کو توڑ کر اپنے آس پاس کے لوگوں سے اتفاق نہیں کرتے اتحاد نہیں کرتے۔
آج ضرورت ہے اس امر کی کہ اب ہم اتحاد کریں اور پنجابی ، سندھی ، بلوچ اور پٹھان جیسی قومیت میں تقسیم کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دے کر صرف پاکستانی بنیں۔
آج ضرورت ہے عوامی اتحاد کی ۔
ہم 80 فیصد کا اتحاد 20 فیصد کے خوف کو جھٹک دے گا اور پھر ہمیں اور ہماری نسلوں کو تیزی سے کامیابیوں کی منزلیں طے کرنے سے کوئی نہ روک پائے گا۔
آئیں اس عوامی اتحاد کا پہلا قطرہ ہم بن چکے ہمارے ساتھ مل کر اس کو مکمل بارش بنائیں اور اپنے بچوں کے مستقبل کو سیراب اور زرخیز بنائیں ۔
ایم واجد سلیم
چیرمین تفکر پاکستان
جناب واجد صاحب کو میں مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے عوامی اتحاد پر اپنا فکری کام شروع کر دیا ۔۔۔ اس عمل سے ہم سب دوستوں کو بھی بات کرنے کی ترغیب ملے گی ۔۔۔