عوامی اتحاد پارٹی بنیادی طور پر پاکستان کی اشرافیہ کی سیاسی و معاشی جبر کے خلاف ایک قدرتی سماجی ابھارہے، سماجی بیداری ہے، قومی شعور ہے اور لا تعداد قابل توجہ سوالات کا ایک طبقاتی سلس

ہم بطور ایک خود مختار اور ازاد پاکستانی 90 فیصد محنت کش عوام سمجھتے ہیں کہ جب ہم براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسز کا جو تقریبا ہماری ہوسٹ امدنی کا 70 فیصد زیادہ بنتا ہے تو ہمیں بطور شہری وہ تمام حقوق ملنی چاہیے جو ریاست نے اپنے 1973 کے ائین میں بڑے واضح انداز میں ضمانت کے طور پر درج کئے ہیں۔

جیسے کہ مفت اور معیاری تعلیم اور صحت ارٹیکل 25 میں، بلدیاتی اداروں کا مالیاتی انتظامی اور قانونی تحفظ ارٹیکل 140 اے میں، تمام سماجی اور اقتصادی تحفظ کو قائم رکھنے کے لیے ارٹیکل 38۔

اب جب ہم بطور ایک عام شہری اپنے گرد و نما میں دیکھتے ہیں تو ان درج شدہ کسی بھی ریاستی ضمانت پر اپنی روح کے ساتھ ریاستی ادارے عمل نہیں کر رہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ جو کچھ ہلکا پھلکا عوامی کام ہو رہا تھا اس کا بھی جڑ سے خاتمہ کیا جا رہا ہے اور تمام ریاستی اداروں کو نجی تحویل میں یا تو دیا جا چکا ہے یا عنقریب ان کا مکمل جنازہ نکال دیا جائے گا۔

ہم ایک سیاسی سوچ اور تحریک کے طور پر چونکہ ائین میں درج انتخابی سیاسی طریقے کار کے ہی قائل ہیں لہذا ہم اپنے انہی ائینی حقوق کے ساتھ پاکستانی عوام کے اندر بنیادی سوالات اٹھانے کے لیے طبقاتی شناخت جڑت اور جدوجہد کے ذریعے اپنی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اج 90 فیصد محنت کش پاکستانیوں سے یہ سوالات کر رہے ہیں کہ کیوں اج 77 سالوں بعد بھی پاکستان میں 60 فیصد سے زیادہ پاکستانی بے گھر ہیں ؟ کیوں اج تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں؟ کیوں اج 100 مریضوں میں سے صرف دس مریض ہسپتالوں میں اور باقی 90 مریض عطائیوں اور پیروں کے ہاتھوں اپنی جانیں گنوا رہے ہیں ؟

ان حالات میں یہ ایک بنیادی سماجی سوال تو ابھر کر دماغوں میں اتا ہے کہ اخر ہمارے جو حکمران طبقہ ہے ان کا کوئی بچہ سکولوں سے باہر ہے؟ ان کا کوئی پیارا لاعلاج موت کے منہ میں جا رہا ہے ؟ کیا ان کے پاس ملک کے اندر اور باہر بے شمار بنگلوں، زرعی و صنعتی سلطنتوں کے مالک نہیں ؟

ان حالات میں یہ سوال تو بنتا ہے کہ سو فیصد قومی دولت پیدا کرنے والا 90 فیصد محنت کش طبقہ جو خود غربت، جہالت اور غلاظت میں رہتے ہوئے بھی کسی معمولی سی ٹیکس چوری میں ملوث نہیں جبکہ یہی ہمارا حکمران طبقہ جو قومی دولت میں ایک روپیہ کا اضافہ تو نہیں کرتا الٹا وائٹ کالر جرائم کا بے تاج بادشاہ روزانہ اربوں کی وارداتیں کرتا ہے اور ہمارے تمام قومی اداروں کی پہلے مرحلے میں تباہی کرتا ہے اور پھر غیر محسوس طریقوں سے اپنے خفیہ شراکت داروں کے ہاتھوں کوڑیوں کے بھاؤ بیچ کر اپنے غیر ملکی اثاثوں میں لامحدود اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے۔


کیا وطن عزیز پاکستان اسی طبقاتی جبر و استحصال کے لیے بنایا گیا تھا ؟
کیا وطن عزیز پاکستان اسی طرح آہستہ آہستہ اپنے اداروں کی تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ کر زمین دوز ہونے کے لیے آخری مراحل میں نہیں آ گیا ؟
کیا ان مقامی معاشی ضرب کاروں کو ان کے بین الاقوامی معاشی ضرب کاروں کے ساتھ کھلم کھلا کھیل جاری رکھنے کی مزید آزادی دی جا سکتی ہے ؟
کیا ان اشرافیائی خانوادوں کی موجودگی میں عام لوگوں کو بھی کبھی زندگی کی بنیادی سہولیات اور سماجی تحفظ حاصل ہو پائے گا ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے