تحریر: نادر علی شاہ
پاکستان میں ہر محفل اور جہاں دو فرد بیٹھے ہوں وہاں دو موضوعات پر ضرور بحث و مباحثہ دیکھنے کو ملے گا ایک ہے” سیاست” اور دوسری ہے ” معیشت” ۔ تو آج ہم بھی معیشت کے بارے میں کچھ اہم اور ضروری باتیں کریں گے۔
سب سے پہلے ہمارے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ آیا معیشت ہے کیا اور اس کی تاریخی حیثیت کیا ہے؟ اگر سادہ الفاظ میں بات کی جائے تو معیشت اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ انسان خود ۔ جب سے انسان نے اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے اپنے پاس موجود ذرائع کا انتظام و انصرام کرنا شروع کیا ہے تب سے معیشت بھی موجود ہے ۔ اگر تاریخ میں جھانک کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ معیشت ایک مضمون کی حیثیت سے ایڈم سمتھ کی معیشت کی تعریف کے بعد پڑھائی جانے لگی۔ جبکہ اس سے پہلے معیشت کو مختلف سماجی مضامین میں شمار کیا جاتا تھا اور پڑھایا جاتا تھا ۔ لیکن 1776 عیسوی میں جب ایڈم سمتھ نے اپنی کتاب” اقوام کی دولت ” میں معیشت کی تعریف ان الفاظ میں کی ” معیشت ایک ایسا علم ہے جس میں دولت کے بارے میں پڑھا جاتا ہے” تو پھر یہاں سے معیشت کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جانا شروع کیا گیا ۔ ایڈم سمتھ کو بابائے معیشت بھی کہا جاتا ہے ، ایڈم سمتھ کے مطابق معیشت کا تعلق پیدائش دولت، تقسیم دولت ، تبادلہ دولت اور صرف دولت سے یے۔ ان سب باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں پتہ چلا کے معیشت کا تعلق دولت کے ساتھ ہے۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہی ایڈم سمتھ کے ایک شاگرد الفریڈ مارشل نے 1890 عیسوی میں اپنے استاد کی معیشت کی تعریف پر اعتراض اٹھاتے ہوئے اپنی کتاب "اصول معیشت” میں معیشت کی تعریف یوں کی: "معیشت ایک ایسا علم ہے جس میں دولت کے ساتھ لوگوں کی فلاح و بہبود کو بھی پڑھا جاتا ہے”۔ مارشل کی تعریف سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ دولت کا مقصد دولت برائے دولت نہیں ہے بلکہ دولت برائے فلاح و بہبود ہے۔
ایڈم سمتھ اور مارشل کے بعد آنے والے معیشت دان لیونل رابنز نے 1933عیسوی میں معیشت کی ایک انتہائی سائینٹفک تعریف پیش کی جو کہ حقیقت کے بہت قریب ترین ہے، "معیشت ایک ایسا علم ہے جس میں لامحدود خواہشات اور محدود ذرائع کے بارے میں پڑھا جاتا ہے جبکہ ذرائع متبادل استعمال رکھتے ہیں”۔ لیونل رابنز کی معیشت کی تعریف سے جدید معیشت کی بنیاد رکھی گئی اور یوں دنیا نے اس بات کو سمجھا اور معاشی معاملات کو اس تھیوری کی مدد سے سلجھانا شروع کیا اور ترقی کی منازل طے کیں۔ شائد سب نے ایک کہاوت بھی سن رکھی ہوگی کہ” اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ” دراصل یہ کہاوت بھی معیشت کی ایک چھوٹی سی تعریف ہے جس میں ساری معیشت چھپی ہوئی ہے۔
اب رابنز کے مطابق بات کرتے ہیں کہ کیا واقعی ہی انسانی خواہشات لامحدود اور ذرائع محدود ہوتے ہیں اور وہ بھی متبادل استعمال رکھتے ہیں اور دوسرا یہ تعریف سائنٹیفک کیسے ہے؟ پہلی بات یہ ہے کہ لامحدود خواہشات اور محدود ذرائع والی صورتحال کا شکار صرف آج کا ہی انسان نہیں ہے بلکہ پہلا انسان حضرت آدم علیہ السلام بھی اسی صورت حال سے گزرے، آپ علیہ السلام کو اللّٰہ تعالیٰ نے جنت میں ہر چیز مہیا فرمائی لیکن ساتھ ہی ایک چیز سے منع فرمایا وہ گندم کا دانہ تھا یا انار ، جب اللّٰہ تعالیٰ نے ایک چیز کھانے سے منع فرمایا یا پاس جانے سے روکا تو وہاں پر حضرت آدم علیہ السلام کے ذرائع بھی محدود ہو گئے ، یہاں یہ مثال دینے کا مقصد صرف یہی تھا کہ رابنز کی تعریف کے مطابق دنیا کا پہلا انسان بھی محدود ذرائع اور لامحدود خواہشات سے نبردآزما تھا اور آخری انسان بھی اسی صورت حال کا سامنا کرے گا۔ آج آپ کسی بھی فرد کو دیکھ لیں وہ معاشی تناظر میں اسی مسئلے کا شکار ہے ۔ آپ کے پاس سائیکل ہے تو آپ موٹر سائیکل لینے کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے پر تول رہے ہوں گے اور اگر موٹر سائیکل ہے تو کار کی جستجو میں لگے ہوں گے اور اسی طرح یہ ایک لا متناہی خواہشات کی زنجیر بنتی جائے گی جبکہ ہر کسی کہ پاس ان خواہشات کو پورا کرنے کے ذرائع ہمیشہ سے محدود ہیں اور محدود ہی رہیں گئے ۔ اب بات کرتے ہیں کہ رابنز کی معیشت کی تعریف سائنٹیفک کیسے ہے؟ ہر وہ علم جس پر بار بار مشاہدات اور تجربات کے نتائج ایک جیسے ہی رہیں وہ سائنس ہے، جب ہم رابنز کی تعریف کو کسی بھی فرد پر لاگو کرتے ہیں تو ہمیشہ ایک جیسے نتائج ہی مرتب ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ رابنز کی تعریف سائنٹیفک ہے اور حقیقت کے بھی قریب ترین ہے۔ بنیادی طور پر اگر دیکھا جائے تو رابنز کی معیشت کی تعریف ایک معاشی مسئلہ بیان کر رہی ہے جس کا سامنا ہر انسان کر رہا ہے ، ہمیشہ سے کر رہا ہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا۔ دنیا نے رابنز کی معیشت کی تعریف کو مشعلِ راہ بنا کر اپنے محدود ذرائع سے لامحدود خواہشات کو پورا کرنے کے اصولوں کو سمجھ لیا ہے اور معاشی خوشحالی کے زینے کو پالیا ہے۔
اب بات کرتے ہیں کہ پاکستان اور پاکستانی دن بدن معاشی ابتری کا شکار کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ تو اس سوال کا ایک ہی جواب ہے کہ ہم اپنی چادر سے باہر پاؤں رکھنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔ حکومت کے پاس انتہائی محدود ذرائع ہیں لیکن ان کی لامحدود خواہشات اور شہہ خرچیاں دیکھ لیں ، محدود ذرائع جو کہ متبادل استعمال رکھتے ہیں انہیں بدعنوانیوں اور غیر ترقیاتی منصوبوں میں جھونک دیا جاتا ہے حکومت کا کوئی ادارہ دیکھ لیں جو اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلا رہا ہو، نجی زندگی میں بھی آپ لوگوں کو ان کے محدود ذرائع سے نکل کر لامحدود خواہشات کے پیچھے دوڑتا پائیں گے چاہے اس کے لیے انہیں قرض ہی لینا پڑے۔
جس معاشی مسئلے کا پاکستان اور ہر پاکستانی شکار ہے اس کا صرف ایک یہی حل ہے کہ محدود ذرائع سے ہی لامحدود خواہشات کی تکمیل کی جائے ، خواہشات کی درجہ بندی کی جائے اور محدود ذرائع سے سب سے پہلے اہم خواہشات کی تکمیل کو یقینی بنایا جائے ۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر معیشت کو سمجھنا ہوگا تب ہی معاشی مسائل کا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے ۔جب تک چادر سے باہر پاؤں رکھنے والی عادت سے چھٹکارا حاصل نہیں کریں گے تب تک معاشی خوشحالی بھی ممکن نہیں ۔