تحریر: نادر علی شاہ
آج اگر ہم اپنے چار اطراف میں نظر دوڑائیں تو ہمیں ان گنت ایجادات دیکھنے کو ملتی ہیں جس میں ایک سوئی سے لیکر موبائل ، ٹی وی، جہاز تک سب شامل ہیں جو کہ ازل سے موجود نہیں تھے بلکہ انسان نے اپنی خدادادی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پیدا کیں۔ انسان خود بھی مختلف ارتقائی مراحل سے گزر کر آج اس جدید دور کا بانی کہلائے جانے کا مستحق ٹھہرتا ہے جو اس نے اپنی عقل و شعور سے پیدا کیا یا ایجاد کیا ۔ اگر ایجاد کی عام الفاظ میں تعریف کی جائے تو ہر وہ چیز یا بات جو پہلے سے موجود نہیں تھی اس پیدا کرنا، بنانا یا سامنے لے آنا ہے۔ اگر دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی ایجادات کی بات کی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ سب سے پہلی اور اہم ایجاد” زبان” ہے جس میں انسان نے سب سے پہلے ایک دوسرے سے بات چیت کرنا شروع کی۔ اس کے بعد اگر ہم بات کریں تو انسان نے "آگ” جلانے کا عمل سیکھا اور "لکھنا ، پڑھنا” جانا یہ بھی بہت اہم ایجادات میں سے ایک تھیں ۔ چلیں یہاں کچھ اور اہم ایجادات کی بات بھی کر لیتے ہیں جن کی وجہ سے دنیا یکسر طور پر ایک معمولی عرصہ میں تبدیل ہو گئی ، ان ایجادات میں پہیہ کی ایجاد ، پرنٹنگ پریس کی ایجاد جس کے بعد کئی مہینوں میں تیار ہونے والی کتب کچھ گھنٹوں میں تیار ہونا شروع ہو گئی اور دنیا میں علم کی ترسیل و رسائی میں بے پنا اِضافہ ہوا ، پنسلین کی ایجاد سے طب کی دنیا میں انقلاب برپا ہوا ، ریڈیو، موبائل ، کمپیوٹر ، انٹرنیٹ اور ہوائی جہاز نے دنیا کا نقشہ یکسر بدل دیا ۔ ان کے علاؤہ بھی بے شمار ایجادات ہیں جن سب کا یہاں احاطہ ممکن نہیں ۔
درج بالا ایجادات کی اہمیت سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن میری نظر میں ان تمام ایجادات سے بھی ایک اہم ایجاد ہے جس کی اہمیت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا اور وہ ہے لفظ "کیوں”۔ جب یہ دنیا قائم ہوئی انسان کو اس پر بسایا گیا اور نسل انسانی بڑھنا شروع ہوگئی تو کسی معاملے پر کسی انسان نے پہلی دفہ جب یہ لفظ "”کیوں ” بولا ہوگا تو وہاں سے اس عام سے لفظ کی ایجاد ہوئی ہوگی ۔ کسی نے پہلی بار کہا ہوگا کہ سورج مشرق سے”کیوں ” نکلتا ہے۔ ہو سکتا ہے کسی نے بولا ہو تارے "کیوں ” چمکتے ہیں یا کسی نے یہ کہا ہو پودوں پر پھول، پتے اور پھل کیوں لگتے ہیں ۔ چاہے جو بھی ہو فقط ایک "کیوں ” ہی ہے جو ہر بڑی چھوٹی ایجاد کا سبب بنا اور اسی "کیوں” کی وجہ سے تبدیلی کا عمل جاری رہے گا ۔ یہاں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ” کیوں ” صرف ایجادات تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اس کے نشان موجود ہیں ۔
سائیکالوجی کے مطابق ہر انسان 95 فیصد وہ ہوتا ہے جو وہ نہیں ہوتا، بلکہ ماحول سے متاثر ہوتا ہے جو اس کے اردگرد موجود ہو، جیسے کہ لوگوں کو کھاتے، پہنتے، مذہب، رسم و رواج، پسند نا پسند اور عادات رکھتے ہیں کو دیکھتا ہے ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ "کیوں” نہیں کہتا۔اور 5 فیصد وہ ہوتا ہے جو وہ ہوتا ہے۔ "کیوں” کو ویژن کے طور پر بھی لیا جاتا ہے ۔
ہر انفرادی شخص ، قوم ، کاروبار اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا اپنا اپنا "کیوں یا ویژن” ہوتا ہے ۔ دنیا میں وہی اشخاص ، قومیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں کامیاب ہیں جن کا "کیوں” واضح ہے۔ جن انفرادی اشخاص کا "کیوں” ترقی ، والدین کی عزت اور وطن کے جھنڈے کی عزت ہو، وہ جاوید میانداد ، ٹنڈولکر ، رونالڈو بنتے ہیں اور جن کا "کیوں” پیسہ ہو وہ پھر عامر، سلمان اور آصف بنتے ہیں ۔
ایسے ہی اب دیکھ لیں ایپل، ہنڈا، پیپسی ،کوک، کےایف سی نے اپنا "کیوں” نہیں بدلا تو آج وہ دنیا پر اپنا راج قائم کیے ہوئے ہیں ۔
قوموں کی ترقی ، فلاح و بہبود اور وجود کے لیے "کیوں” بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام نے نمرود کے سامنے "کیوں” کہا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے سامنے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے رومیوں یہودیوں کے سامنے ، حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مکہ کے بت پرستوں کے سامنے ، حضرت امام حسین علیہ السلام نے یزید کے سامنے ” کیوں” کہا ۔
دنیا کا بڑے سے بڑا انقلاب بھی اس وقت آیا جب قوموں نے بادشاہت کے سامنے "کیوں” کہا ۔ جب 1779 عیسوی میں فرانس کے لوگوں نے یہ دیکھا کے بادشاہ اور اس کے وزیر مشیر تو وارسائی کے محلات میں رہ رہے ہیں اور ہمیں نا کھانے کو کچھ ہے نا پہننے کو اور سر پر چھت بھی نہیں تو پھر انہوں نے کہا ایسا "کیوں” ہے۔ اس "کیوں” کے بعد دنیا نے دیکھا ہر اس شخص کی گردن اتار دی یا چوراہوں میں لٹکا دیا گیا جن کے کالر سفید اور ہاتھ نرم تھے۔
ایسا ہی نظارہ روس میں دیکھنے کو ملتا ہے جب پہلی جنگ عظیم کے بعد زار خاندان ماسکو میں 15 سو کمروں والے پیلس میں عیاشیاں مار رہے تھے تو عام روسی جنہوں نے جنگ میں اپنوں کو کھویا تھا اور مشکل حالات سے گزر رہے تھے تو انہوں نے بھی یہی ” کیوں” ہی کہا کہ ایسا کیوں ہے کہ ہم اتنی ابتر زندگی گزار رہے ہیں اور آپ اتنی شاہانہ ۔پھر وہی سب ہوا جو اس پہلے فرانس میں ہو چکا تھا ۔ محلات اور درباروں سے بادشاہوں اور امراء کو نکال کر ایک ایک کرکے قتل کر دیا گیا ۔
انقلاب ایران کی بات بھی کر لیتے ہیں 1979عیسوی میں جب ایرانی لوگوں نے دیکھا کہ بادشاہ تو اتنے عیش پرست ہیں کہ انہیں تو عام لوگوں کی پریشانی اور تکلیف کا احساس ہی نہیں۔ بادشاہ کے محل کےایک ایک کمرے میں اتنا شیشہ لگایا ہوا تھا جتنا شائد پورے شیش محل میں بھی نہ لگتا ہو تو پھر لوگوں نے پوچھا ایسا "کیوں” ہے۔ یہی "کیوں” ایک بار پھر ایک اور انقلاب کا موجب بنا اور پھر ایران میں بھی وہی کچھ ہوا جو اس سے پہلے فرانس اور روس میں ہو چکا تھا ۔
اس "کیوں” کے اوپر اتنی سیر شکم گفتگو کرنے کا ایک مقصد ہے ، اس کی ایجاد ، تاریخ ، کردار اور اہمیت کے اوپر اتنی تفصیل سے اس لیے بات کی کیونکہ آج بحثیت انفرادی فرد اور قوم ہمیں اس "کیوں” کی بہت ضرورت ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ "کیوں” ہمیں خود سے کرنا ہے کہ میں ایسا کیوں ہوں اور اگر میں پٹڑی پر نہیں ہوں تو مجھے خود کو کیسے پٹڑی پر لانا ہے۔ جب ہم انفرادی طور پر یہ پریکٹس شروع کریں گے تو اس طرح اجتماعی طور پر بھی یہ عمل شروع ہو جائے گا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اب ہمیں بھی مندرجہ بالا قوموں کی طرح حکومتی اور مقتدر حلقوں کے سامنے یہ "کیوں” رکھنا ہوگا اگر ایسا نہیں کرتے تو آباؤ اجداد سے لے کر اب تک اور آنے والی نسلیں بھی اسی استحصال کو برداشت کرتے کرتے گزر جائیں گی ۔ ہمیں پوچھنا ہوگا کہ پاکستان کے بائیس خاندان نوے فیصد کے مالک "کیوں” ہیں ۔ ہمیں پوچھنا ہوگا پچھلے پچھتر سال سے عام لوگ خسارے میں اور یہ فائدے میں "کیوں” ہیں ۔ ان کے اثاثوں میں ہر سال اِضافہ "کیوں” ہوتا ہے ۔ آدھے لاہور پر اور ہر بڑے شہر میں کنٹونمنٹ کے نام پر قبضہ "کیوں” ہے۔ ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی، دبئی میں پراپرٹی ، سوئٹزرلینڈ میں اکاؤنٹس، لگژری گاڑیاں اور بڑے شہر میں بلاول ہاؤس "کیوں” ہیں ۔ بڑی سوسائٹیز میں شراکت داری, جاتی عمرہ میں محلات ، دبئی ، سعودی عرب اور لندن میں پراپرٹی اور فلیٹس "کیوں” ہیں ۔
بنی گالا میں تین سو کنال کا گھر ، زمان پارک میں عالی شان محل ، شاہانہ انداز زندگی ، اپنے بچے ملک سے باہر اور دوسروں کے بچے سڑک پر، ایسا "”کیوں ” ہے۔ ایک”کیوں ” یہ بھی بنتا ہے کہ یہ سب کچھ ان سب کے پاس ہے تو ہمارے پاس””کیوں” نہیں ہے ۔
سب سے بڑی غلامی ذہنی غلامی ہوتی ہے نہ کہ جسمانی ۔ میں جانتا ہوں کہ یہ سب کسی نہ کسی کے پسندیدہ اور کسی کے ناپسندیدہ بھی ہونگے ، میرا مقصد صرف اس ایک لفظ”کیوں ” کو اجاگر کرنا ہے میں صرف اسی کو آزاد سمجھتا ہوں جو "کیوں ” کہنا جانتا ہے ۔
ہماری اور وطن عزیز کی ترقی بھی اس "کیوں "میں مضمر ہے ۔ اپنے لیے اپنی نسلوں کے لیے اور وطن عزیز کے لیے درج بالا تمام بہروپیوں کے سامنے اپنا "کیوں ” رکھیں۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے وطن عزیز کو خوشحالی و کامرانی عطا فرمائے آمین ۔

One Response

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے