ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت!
تحریر: کامریڈ عرفان علی ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت میں خوشیاں منانے والے پاکستانیوں کو اندازہ نھیں دنیا کیسے،کیوں معاشی بحرانوں کی زد میں ہے اور یہ کہ ٹرمپ کے سلوگن امریکی عوام کو بیوقوف بنانے کے سوا کچھ نھیں ہیں۔(بیشک سرمایہ دارانہ نظام لوگوں کو بیوقوف بنا کر ہی قایم رہتا ہے). حقیقت حال یہ ہے کہ دنیا کو بہرحال خوفناک جنگوں اور بحرانوں کا سامنا رہے گا کیونکہ سرمایہ داری نظام میں نراج و استحصال لازمی عوامل ہیں،ٹرمپ امریکی عوام کو معاشی بہتری نھیں دے سکتے باقی دنیا تو بہرحال مزید خوفناک پابندیوں ،سرد گرم جنگوں اور عصبیتوں کا شکار رہے گی۔ امریکہ چین روس تنازعات میں شدت پیدا ہو گی۔ٹرمپ انتظامیہ دنیا میں آپنی اجارہ داری و سامراجیت کے خونی پنجے مزید قوت سے گاڑے گی۔یعنی یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی کی مانِند اب کی بار بھی انتخابی نعروں کو جیت کے ساتھ ہی بھلا کر روایتی تسلط و طبقاتی مفادات کے لیے ہی گھناؤنی سامراجی پالیسیاں بنیں گی اور جاری رہیں گی۔جن سے نہ تو امریکی محنت کش عوام کو اور نہ ہی دنیا کے دیگر ممالک خصوصاً ترقی پذیر ممالک کو ریلیف ملے گا۔ لہٰذا جو پاکستانی ٹرمپ کی جیت کو اپنی جیت سمجھ رہے ہیں وہ نہایت خوش فہمی کا شکار ہیں۔ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ کو چین روس اور دیگر ہمسایوں کے خلاف استعمال کرنے پہ مجبور کیا جاے اور ہماری حکمران اشرافیہ کافی کچھ کرنے کو تیار بھی ہو جائے گی۔مگر یہ ضروری نھیں کہ امریکی اجارہ داری مزید بڑھے۔امریکہ کا عالمی سیاست و معیشت میں اپنا کردار و حصہ بڑھانے کی کوشش پاگل پن کی انتہا ہو گی مگر آگے بڑھنا نہایت مشکل جب کہ پیچھے ہٹنا اسے گوارا نھیں ہوگا اسی کشمکش سے دنیا میں نئی انقلابی لہریں اٹھیں گی ۔ دنیا انقلابوں کی دہلیز پہ کھڑی ہے بے شک،، ایک چنگاری پورے گیاہستان کو جلا کر راکھ کر سکتی ہے،،۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی
،،توں دھی نوں سکولوں ہٹا لئے،،
تحریر: کامریڈ عرفان علی کم از کم پچیس چھبیس سال تک ماں باپ اپنی بیٹی کو تعلیم کی غرض سے گھر بٹھاتے ہیں اس پہ پیسے خرچ کرتے ہیں اس کی گزرتی عمر سمیت ہزاروں قسم کے خدشات ،ٹینشنوں کی اذیت برداشت کرتے ہیں۔اس لڑکی کے بچپن اور جوانی کے ہزاروں حسیں دن ،ہزاروں سپنے قربان ہوتے ہیں۔ تب جا کر والدین کے خوابوں کو تعبیر ملتی ہے اور وہ لڑکی ڈاکٹر بن کرتمہاری بہو رانی کا ڈیلیوری (زچگی)کا آپریشن کرنے کے قابل بنتی ہے شاید تمہاری بہو رانی تب تک پانچواں بچہ پیدا کر چکی ہو۔تمہاری بہو رانی کے بیٹی بیٹے کو پڑھانے کے قابل یعنی معاشرے کا ایک مفید شہری بنتی ہے،اپنی امنگوں کو جلا کر اندھیروں میں روشنی کرتی ہے تاکہ نسل انسانی کو جینے کا ڈھنگ ،منزل کا پتہ اورفلاح کا راستہ ملے۔اور انھیں حالات میں تم جھوم جھوم کے کہتے(گاتے )ہو،،توں دھی نوں سکولوں ہٹا لئے گھر پردے وچ بٹھا لئے ،گھر پردے وچ بٹھا لئےاوتھے ڈانس کر دی پئی آے،، ذرا سوچو اگر بیٹیوں کو نہ پڑھایا جائے تو کون تمہاری بہو رانی کا آپریشن کرے گا۔جو بچے وہ ہر سال پیدا کررہی ہےان بچوں خاص کر بچیوں کو کون پڑھائے گا،کون حفاظتی ٹیکے لگائے گا؟ مگر سوچنے کے لیے بہرحال ایک عدد نارمل دماغ کی ضرورت ہوتی ہے جو بدقسمتی سے تمہارے بچپن میں ہی تم سے کہیں چھین لیا گیا تھا اور اس کی جگہ ایک ،،پروگرامنڈ روبوٹ ،،بھیجے میں فٹ کردیا گیا۔اس لیے کہ مقتدرہ کی ضرورت روبوٹس تھے جو آرڈرز کی تعمیل کریں دماغ تو سؤال اٹھاتے ہیں ایسے سوالات کے جن کا جواب حاکموں کی نیندیں اڑا دے ان کی عیاشیوں کے تاج محل ہلا کر رکھ دے لہذا سوالات سے بچنا ضروری ہے اگر اپنی لوٹ مار کو ،اپنی اجارہ داری کو ،استحصالی نظام کو قائم دائم رکھنا ہے۔تو پھر روبوٹس پیدا کرو ،روبوٹس پیدا نھیں ہوتے بنانا پڑتے ہیں لہذا روبوٹس بناؤ ،لاکھوں کروڑوں روبوٹس بناو۔ ہاں ان روبوٹس کے درمیان اگر کوئی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والا دماغ بدقسمتی سے پیدا ہو جاے،تمہارے روبوٹک سسٹم سے آؤٹ ہو جاے،تمہارے سگنل قبول کرنے کی بجائے قدرت کا عطیہ دماغ استعمال کرےتو باقی روبوٹس مل کر اسے قتل کردیں۔اور تمہارے نظام پہ ،تمہاری ریپوٹیشن پہ بھی کوئی حرف نھیں اے گا۔ لہذا روبوٹس پہ انویسٹمنٹ کرو یہ فائدے کی چیز ہیں۔پھراس طرح کے پچھڑے ہوے نمونوں کو سوسائٹی میں قبول عام پانے میں مدد دو تاکہ وہ ہزاروں سکول بموں سے اڑا دیں تب بھی لوگ کہتے رہیں کہ نھیں جی یہ تو کسی دشمن کی سازش ہے یعنی ان روبوٹس پہ کوئ انگلی نھیں اٹھنی چاہیے!کیونکہ روبوٹس آخر اس نظام کہنہ کی بقا کے ضامن ہیں۔خوں کے وہ دھبے جو حاکموں کے دامن پہ لگے تھے وہ روبوٹس کس صفائی سے واش کرتے ہیں۔جیسے پورے حکمران طبقے کو ڈرائی کلین کردیا ہو۔اور خون ناحق پہ یا توکوئی بولنے والا نہ ہو یا پھر اس کے پاس کوئی ثبوت ہی نہ بچے۔سماج کی تشکیل ایسے ہو یعنی سوسائٹی ایسا روپ دھار چکی ہو کہ جہاں روبوٹس ہی قتل کریں،روبوٹس ہی گواہ بنیں،روبوٹس ہی عدل کریں۔ تو لگے رہو منےبھیا، شاباش لگے رہو ان کے پیچھے اگلی کئی پشتوں کے جاہل رکھنے کا بندوبست کیا جا چکا ہے۔علم اور خاص کر وہ جس کی بابت بلھے شاہ نے کہا تھا ،،اساں پڑھیا علم تحقیقی اے،،اگر کوئی ایسی غلطی کرے تو اسے مارنے کا پورا پورا بندوبست ہو چکا ہےتم بس جھوموں گاؤ ،،توں دھی نوں سکولوں ہٹا لیے، گھر پردے وچ بٹھا لئے،گھر پردے وچ بٹھا لئے اوتھے ڈانس کردی پئی اے،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔! کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی
چین کو دیکھنا ہے تو عینک بدلو!
تحریر: کامریڈ عرفان علی سرمایہ دارانہ و جاگیر دارانہ معیشت رکھنے والی ریاستیں پونجی داروں کے مفادات کے تحفظ اور اپنے کمشنوں وغیرہ کے حساب سے پالیسیاں بناتی ہیں۔عوامی مفادات کو دیکھ کر نھیں۔ایسی ریاستیں بین القوامی معاہدوں میں بھی اسی اصول پہ کاربند رہتی ہیں کہ ان کے طبقاتی مفادات کا تحفظ کیسے ہو،ان کے کمیشن و منافع کیسےبڑھیں۔ہم دیکھ سکتے ہیں ریکوڈک معاہدہ،غیر ملکیوں کو زمینیں لیز پہ دینا ہوں،پی ٹی سی ایل بیچنا ہو،بنکوں کی نجکاری کرناہو،پاکستان اسٹیل مل کی پرائیویٹائزیشن ہو جسے بعد میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کینسل کیا،یہ حکمران ٹولہ ہر معاہدے ہر سودے میں ذاتی مفادات کو قومی مفادات پہ ترجیح دیتا ہے۔یہ اس حکمران طبقے کی نااہلی یا مفاد پرستی ہے جو امتیازی معاہدے کرتے ہیں۔ اب ہمارے کچھ دانشور ہاتھ دھو کر چین کے ساتھ کیے گیے معاہدوں کے پیچھے تو پڑے ہیں مگر انھیں امریکی سامراج و یورپین،عرب ممالک و ملٹی نیشنل کمپنیوں سے کیے گیے معاہدے نظر نھیں آتے ،ٹھیک ہے بعض پاک چین معاہدے بھی ایسے ہیں جنھیں منصفانہ ہونا چاہیے تھا،بہتر ہونا چاہیے مگر کیا جس سسٹم میں آپ رہتے ہیں جس طرح آپ عالمی سرمایہ داری نظام سے استفادہ کررہے ہیں اسی حوالے سے ہی پالیسیاں تشکیل نھیں پایئں گی ۔بلاشبہ اسی چلن ،انھیں تقاضوں کو پورا کیا جائے گا۔بین القوامی تعلقات و تجارت میں ہر ملک اپنا مفاد دیکھتا ہے جو طبقہ اقتدار میں ہو وہ اپنی سہولت دیکھتا ہے ۔ اور کیوں نہ دیکھے؟ تم کہتے ہو تمھیں چین ایسے سخیوں کی طرح بھیک دے، خیرات دے ،قرض،مگرتم امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے جان کی بازی لگا دینا چاہو،تم ایران سے گیس پائپ لائن معاہدہ پہ عملدرآمد نہ کرو کہ جب ایران اپنی طرف سے پائپ لاین بارڈر تک مکمل کر کے بیٹھا ہے اور تمھیں تمہارےمربعی کی طرف سے اجازت نہ ہو کہ تم معاہدے کی پاسداری کر سکو۔ایسے حالات میں چین تم لوگوں کو ایسے ٹریٹ کرے کہ جیسے تم کوئی سوںشلسٹ یعنی مزدور ریاست ہو۔،،اگلا منہ ویکھ کے چنڈ مارے گا،،جیسے تم ہو ویسا تمہارے ساتھ سلوک ہو گا۔ تم لگے ہو امریکی اداروں کی رپورٹس لے کر سامراجی خدمت گزاری میں۔کہ ہآااااااہ چین یہ کر گیا چین وہ کر گیا۔ سامراج بننے کے لیے صرف مالیاتی پالیسیوں کا تجزیہ ہی کافی نھیں ہوتا،دوسرے ممالک کی خود مختاری ،ان ممالک کی معاشی پالیسیوں کو اپنے ہاتھ میں لیے کر اپنی منشاء کے فیصلے لینا،جنگوں ،دھونس دھمکیوں ،پابندیوں کے ذریعے اپنی منشاء کے فیصلے ،زیادہ سے زیادہ سیاسی فیصلوں کا کنٹرول اپنے قبضے میں لینا ،حکومتیں بنانا اور گراناسامراجیت کی خاص پہچان ہے۔ایک حاکمانہ تسلط حاصل کرنا ۔ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ ان حربوں میں دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔مگر یہ آمریکی جبر ہمارے ان دانشوروں کو نظر نھیں اے گا۔کیونکہ عصبیت کے مارے اذہان کہاں حقائق پہ بات کرنا چاہتے ہیں۔ انھیں سیٹو،سننٹو،گیٹ معاہدے ،ایئ ایم ایف،ورلڈ بنک اور نیٹو جیسے ادارے نظر نھیں آتے جنھوں نے ساری دنیا میں ،،ات مچا ،،رکھی ہے۔ہاں انھیں چین نظر آۓ گا سی پیک نظر اے گا۔چونکہ ان کی عینک امریکی ہے۔بھیا عینک بدلو اگر دنیا کو صحیح حالت میں دیکھنا چاہتے ہو ورنہ لگے رہو جیسے اندھے ہاتھی دیکھنے گیے تھے۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی
پراپیگنڈہ کی قوت اور عوام!
تحریر: کامریڈ عرفان علی سرمایہ دارانہ نظام میں اشرافیہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی کس قدر مہارت رکھتی ہے اس کو سمجھنے کے لیے پنجاب کالج میں طالبہ ریپ کیس کافی ہے۔کہ کیسے اس واقعے کو چھپانے ،دھندلانے،حقائق کو جھٹلانے کی کوشش کی گیئ۔چند دن مکمل خاموشی کے بعد جب کالج فیلوز کا پیمانہ صبر لبریز ہوا تو انھوں نے احتجاج کی راہ اپنائی جس پہ کالج انتظامیہ اور پولیس ٹوٹ پڑی اور حیران کن ردعمل دیا۔اس وحشیانہ ردعمل نے بچوں کے غصے کو مزید بڑھایا اور اس ریپ کیس کو زمانے پہ آشکار کردیا۔،،یعنی مٹی پاؤ پروگرام کا ستیاناس کردیا،،۔ اب پنجاب گورنمنٹ سمیت ،پنجاب پولیس اور کن ٹٹے خم ٹھونک کر میدان میں مجرموں کو بچانے میدان میں ایسے اترے کہ تمام اخلاقی ،قانوںی حدیں پار کرگئے ۔سب طبقاتی جذبے سے ایک دوسرے کی ڈھال بننا شروع ہوے۔ پولیس کی معیت میں لڑکی کے والدین کو پبلک بیان کے لیے دو دن پہلے سوشل میڈیا پہ لا کر یہ بیان دلوایا کہ یہ تو واقعہ جھوٹ کا پلندہ ہے بچی تو گھر میں سیڑھیوں سے گر کر زخمی ہوئی ہے۔پھر کل یہ بیان آیا کہ بچی بیڈ سے گر کر زخمی ہوئی ہے یہ بیان آج کے اخبار میں بھی چھپا ہے۔ایک پولس بیان احتجاج سے ایک دن پہلے لاہور گلبرگ میں ملزم چوکیدار کی گرفتاری کا بھی آیا ،تیسرا پولیس بیان سرگودھا تھانے میں ایک ملزم کی گرفتاری کا آیا ۔سوال یہ کہ یہ سارے مختلف بیانات سرکاری ہرکاروں اور کالج انتظامیہ کی بوکھلاہٹ کا ثبوت،اور اعتراف جرم نھیں ہے کیا؟کیونکہ ملزم بااثر ہیں اس لیے ان کی عزت بچانا ضروری ہے۔ آج مورخہ 16 اکتوبر 2024کے اخبار کے مطابق پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں جب رانا شہباز نے کہا کہ پنجاب کالج واقعے کی رپورٹ پیش کی جائے تو نون لیگ کی عظمیٰ بخآری نے کہا کہ والدین نے کہا ہے کہ کوئی واقعہ نھیں ہوا جس پہ تلخ کلامی بھی ہوئی ۔ اس کیس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس جرم کو ایک چوکیدار پہ ڈالنے کی کوشش کی گیئ تا کہ بڑے مگر مچھ کو بچایا جا سکے۔اگر یہ جرم کسی چوکیدار یا چھوٹے ملازم سے سرزد ہوا ہوتا تو کالج انتظامیہ نے اس کی ایسی کی تیسی کر کے نمبر بنانے اور اسے عبرت کا نشان بنا کر نیک نامی حاصل کرنے کی کوشش کرناتھی۔اور کسی صورت ایک معمولی ملازم کے لیے اس طرح کا رسک نھیں لینا تھا ۔یہ کاروائی کسی بڑے مگر مچھ کی ہے ۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز صاحبہ بچی کے والدین سے کیوں نھیں ملیں؟ساری نون لیگ اور سرکاری کرتا دھرتا پنجاب کالج کی حمایت میں سینہ ٹھوک کے کیوں اترے ہیں۔طلبا و طالبات کے ساتھ کیوں کھڑے نھیں ہوے؟قانونی تقاضے پورے کیوں نھیں کیے گیے؟ازادانہ انکوائری کیوں نھیں ہونے دی گیئ؟ میڈیا میں اپنی مرضی سے کیس کو توڑا مروڑا جا رہا ہے۔الٹا عدالت کا سہارا لینے جارہے ہیں ۔اگر تم سچے ہو تو متاثرہ خاندان کو اغوا کی صورت عوام سے چھپایا کیوں جارہا ہے؟میڈیا کو کیوں رسائی نھیں دی جارہی ؟کیا پولیس کا کام میڈیا رپورٹنگ رہ گیا ہے؟ کیا پولیس کا کام ملزمان کو بیگناہ ثابت کرنے کے لیے ویڈیوز پیغامات جاری کرنا رہ گیا ہے۔جو پولیس کی افسر اچھرہ واقعے سے شہرت پانے والی افسر کے ذریعے بھی کروایا گیا تاکہ عوام میں اشتعال نہ پھیلے۔ جس برے طریقے سے احتجاجی طلبہ و طالبات کو مارا گیا ہے یہ بھی ایک ثبوت ہے اندھیر نگری کا۔کہ بچوں کو تشدد اور تادیبی کارروائیوں سے نشان عبرت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک اچھا اشارہ یہ ہے کہ جب سماج خصوصاً پنجاب بزدلی کا سمبل بنتا جارہا تھا،جب موقع پرستی حق گوئی پہ غالب تھی،جب بڑے بزرگوں کو آواز اٹھانے کی توفیق نہ ہورہی تھی ایسے میں نوجوان اٹھے ہیں جنھوں نے انسانیت کا بھرم رکھا ہے۔پنجاب کے مختلف اداروں میں اس ظلم کے خلاف آواز بلند ہوئ ہے اور وہ دبنگ آواز طلباء کی ہے۔جسے جھوٹ کی یلغار اور عہدے ،اقتدار اور دولت و طبقاتی قوت کے زور پہ دبانے کی ناپاک کوششیں جاری ہیں۔مگر پنجاب کالج کے طلباء جس بہادری کا مظاہرہ کر چکے ہیں وہ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔اب بڑوں کا بھی فرض ہے کہ وہ طلباء کا ساتھ دیں انھیں تادیبی کاروائیوں اور جبر سے ٹوٹنے نہ دیا جائے انھیں تنہا نہ چھوڑا جائے۔یہ ڈیمانڈ بھی کی جاے کہ اس وقوعے کی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پہ مشتمل کمیشن سے انکوائری کروائی جائے ۔ویسے تو یہاں حمودالرحمن کمیشن سے لیکر،فنانس کارپوریشن اور پتہ نھیں کیا کیا ان انکوائریوں کے دامن میں پڑا ہے مگر چلو ایک کیس اور سہی۔ اس وقوعے کے ذمہ دار بیشک قانون سے بچ جایئں گے مگر عوام کی عدالت میں وہ مجرم ثابت ہو چکے ہیں۔جب بھی عوام کے پاس قوت ہوگی اختیار ہوگا تو وہ ضرور انصاف کریں گے اور وہی انصاف انصاف ہوگا جس میں فیصلہ عوام کے ہاتھوں ہوگا۔اس کیس نے اس نظام کے سبھی کل پرزوں کو ننگا کرکے رکھ دیا ہے۔اور یہ ہر پل ہر روز ننگے اور کمزور ہوتے جایئں گے جب عوام مضبوط سے مضبوط ہونگے ،،گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نھیں،،(فیض) کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی
اونچ نیچ ہو گی تو ظلم بھی ہو گا
تحریر: کامریڈ عرفان علی ابھی کل روا داری مارچ پہ سندھ پولیس کا بہیمانہ تشدد فیس بُک پہ رپورٹ ہورہا تھا جو الیکٹرانک میڈیا پہ ندارد رہا اور آج پنجاب کالج میں طلباء و طالبات جو ایک طالبہ کے ریپ کے خلاف احتجاج کررہے تھے ان پر جو شرمناک تشدد کیا گیا اسے بھی کسی چینل نے کوئی خاص اہمیت نھیں دی۔ آج پنجاب کالج کے سیکیورٹی سٹاف(پرائیویٹ غنڈوں ) نےجس بری طرح بچوں کو مارا اور پھر پولیس کا خوفناک رویہ جس کی مہذب دنیا میں کوئی مثال نھیں ملتی وہ دیکھنے کو ملا۔بچوں کو دھمکایا جارہاہے ،پرچے کیے جارہے ہیں۔ یہ ایک ایسا خود رو احتجاج ہے جو بچوں نے اجتماعی رد عمل کی صورت دیا ہے وہ سماج و سسٹم کے ٹھیکے داروں سے برداشت نھیں ہورہا۔اس ام الجرائم سسٹم کے سبھی رکھوالے اپنی خونخوار و وحشیانہ قوت ان بچوں کو چپ کرانے ،ڈرانے لگی ہوئی ہے۔جب کہ ابھی تک کسی بڑی سیاسی جماعت یا سوسائٹی کے کسی بڑے حصے کی طرف سے ردعمل نھیں آیا ۔ابھی تک وزیر اعلیٰ کے نوٹس لینے یا کسی اور بااختیار ادارے کی طرف سے کوئ توجہ ظاہر نھیں ہوئ۔ابھی تک چادر اور چار دیواری کے تقدس اور حیا ڈے منانے والے بھی خاموش ہیں۔ بلاشبہ ہمارا معاشرہ ایک جنگل کا روپ دھار چکا ہے جہاں ہر لمحہ ہر جگہ طاقتور کمزوروں کو درندگی کا نشانہ بناتے ہیں۔ پہلے عوام کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غیر سیاسی بنایا گیاہے،بےشعور بنایا ہے ،انھیں ایک بھیڑ کی صورت دی،پھر خوفناک تشدد کہ جو زبان بولے گی کاٹ دی جاے گی جو ہاتھ علم بغاوت بلند کرے کاٹ دیا جاے گا۔ اس تمام جبر و تشدد کے باوجود ظلم کے خلاف آواز اٹھنا ایک فطری عمل ہے جسے روکا نھیں جا سکتا ۔ ہم پنجاب کالج میں ہونے والے واقعات کی مذمّت کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نظام ہی ظالمانہ ہے۔اس نظام کی موجودگی میں ظلم و استحصال ختم نھیں ہو سکتا ۔اس نظام کے کسی ایک شاخ کسی ایک واقعہ کو الگ تھلگ کر کے نھیں دیکھا جا سکتا ۔اس نظام کو مکمل طور پہ ختم کرنا پڑے گا۔تعلیم و صحت کا پرائیویٹ ہاتھوں میں منافع کی صورت رہنا ،پرایویٹ بنکوں ،ملوں،جاگیروں کے خاتمے کی ضرورت ہے۔جب تک طاقت کا توازن نھیں ہو گا سوسائٹی میں اون نیچ رہے گی تو ظلم اور استحصال بھی رہے گا۔ لہذا ایک ایسی انقلابی سیاسی جدوجھد کی ضرورت ہے جو اس استحصالی نظام کا خاتمہ کرتے ہوے ایک منصفانہ سماجی و سیاسی نظام قائم کرے جسے سوشلزم بولتے ہیں جہاں تمام وسائل و ادارے ریاستی ملکیت میں ہوں اور ریاست محنت کشوں کے اجتماعی کنٹرول میں ہو۔جہاں تعلیم ،علاج،روزگار،ریہائش و تفریح مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہو۔جہاں طبقاتی جبر،نسلی،صوبائ،لسانی،و صنفی بنیاد پہ تعصبات وامتیازات کا خاتمہ ہو۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی
آئ پی پیز کا کنٹریکٹ !
تحریر: کامریڈ عرفان علی سوشل میڈیا کیمپیئن اور عوامی احتجاج کے نتیجے میں کیپسٹی چارجز کی وصولی اور لوٹ کھسوٹ پہ مبنی معاہدوں پہ نظر ثانی شروع ۔پانچ آئی پی پیز نے کنٹریکٹ ختم کرنے کی دستاویزات پر دستخط کردیے۔اب کیپسٹی پیمنٹ نھیں کی جائے گی ۔ تین سے دس سال کی مدت میں 300 ارب کی بچت ہوگی ۔40 ارب سود بھی معاف۔ 4 آئی پی پیز 1994 اور ایک دو ہزار دو کے معاہدے کے تحت وجود میں آۓ۔ آیندہ ہفتے 18 مزید آئ پی پیز سے بات چیت شروع کی جائے گی۔ان پلانٹس کو بھی کیپسٹی پئے منٹ نھیں کی جاے گی۔ جنگ اور دی نیوز میں خالد مصطفیٰ کی رپورٹ ۔ 1994 سے دو ہزار چوبیس تک عوام کی جیبوں سے نکلوائی گیئ رقوم ہڑپ ہو جایئں گی یا کوئ اس پہ بھی آواز اٹھے گی۔کیا یہ عوام و ملک دشمن معاہدےکرنے والوں کا احتساب ہو گا۔کیا یہ نعرے اپوزیشن کی سیاست کا حصہ بنیں گے۔جن معاہدوں نے چند کمپنیوں کو بےتحاشہ دولت کا مالک بنایا اور کروڑوں لوگوں کی جمع پونجی بجلی بلوں میں اضافے اور کیپسٹی چارجز کے نام پہ چھین لی۔بےشمار لوگوں کی جانیں بجلی کے بلز لے گیے،مہنگی بجلی نےانڈسٹری کو بند کردیا، لاکھوں لوگوں سے روز گار چھین لیا۔ملکی معیشت کو تباہ و برباد کردیا۔ملک کو غیر ملکی اشیا کی منڈی بنا دیا۔برامدات و درآمدات میں عدم توازن پیدا کیا۔اس سب کا کوئ جواب مانگے گا ؟ ایک بات تو طے ہے کہ اپوزیشن پہ ہونے والے تمام جبر(جس کی بلاشبہ مذمت ومخالفت کی جانی چاہیے)کے باوجود یہ طے ہے کہ حکمران اشرافیہ اور اپوزیشن دونوں پونجی داروں کے نمائندے ہیں،دونوں گروہ ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اورطبقاتی مفادات پہ ایک ہیں صرف مفادات کی لڑائی ہے ،اقتدار کی لڑائی ہے اپنی اپنی لوٹ مار کو تحفظ دینے کی لڑائی ہےاور اس لڑائ میں عام لوگ بھی پس جاتے ہیں جیسے ہاتھیوں کی لڑائ میں گھاس۔ ضرورت ہے کہ عوام کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف عوام خود جدوجھد کریں ،اپنے نظریات پہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی طبقاتی تنظیم کے ذریعے ۔یعنی ایک انقلابی جدوجھد جو طبقے کی بنیاد پہ ہو جو ملک میں اونچ نیچ پہ مبنی نظام کا خاتمہ کرے اور وہ لڑائی باشعورمحنت کش طبقے کے بغیر نہ لڑی جا سکتی ہے نہ جیتی جا سکتی ہے۔جس کا منشور تمام ذرائع پیداوار کو تمام لوگوں کے اجتماعی کنٹرول یعنی ریاست کے کنٹرول میں اور ریاست محنت کشوں کے کنٹرول میں دینا ہو۔سیاسی اقتدار محنت کشوں کے کنٹرول میں ہوگا تو معیشت وسیع تر عوام کی فلاح والی نوعیت اختیار کرے گی اس پہ خرچ ہو سکے گی۔ جس نظام کوسوشلزم (اشتراکیت) بولتے ہیں۔جس کا نعرہ ہے ،،جیہڑا واہوے اوہو کھاوے،،! کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی
پاک چین تعلقات پر تنقید
پاک چین تعلقات پہ تنقید ؟ عالمی تعلقات خاندانی رشتے نھیں ہوتے،یہ تعلقات عقیدے،درد، احساس اور قربانی کے جذبےکی بجائے قومی مفادات کی بنیاد پہ قائم ہوتے ہیں۔آپ سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ تعلقات و معاہدے دیکھ لیں،اپ ایران کے ساتھ ہونے والا گیس پائپ لائن معاہدہ دیکھ لیں جس کی عدم تکمیل کی بنیاد پہ ایران 18 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کررہا ہے جو بیشک حق بجانب ہے۔یعنی مذہبی قربت کے باوجود آپ اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں۔ویسے بھی قرض دینے والے اور قرض لینے والے کبھی برابر نھیں ہوتے نہ ہی سودے بازی برابری کی بنیاد پہ ہوتی ہے۔ آپ کو چین کے ساتھ ہونے والے معاہدوں میں چینی استحصال ستا رہا ہے تو آپنے حاکموں کے خلاف جدوجھد کریں کہ وہ نہ صرف چین کے ساتھ بلکہ ہر ملک کے ساتھ معاہدے کرتے وقت قومی مفادات میں بہتر حکمت عملی نھیں بناتے بلکہ اکثر اپنے ذاتی کمشنوں اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ بھئی ،،اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرو،،دیکھو کہیں چور تمہارے اپنے گھر میں ہی چھپا ہے اور تم دوسروں کو طعنے دیتے پھرتے ہو۔ پھر تمہاری ریاست کونسی سوشلسٹ (مزدور)ریاست ہے جو چین تمھیں خصوصی سہولیات،عنایات و رعیایات ،بخشے،تم عالمی سامراج کی دلالی میں ہر حد کراس کر جاتے ہو،تم سامراج کو اڈے دیتے ہو، سامراج کی پراکسی وار میں فرنٹ لائن سٹیٹ بنتے ہو،تم ورلڈ بنک اور آئ ایم ایف سے قرض ملنے پہ بغلیں بجاتے ہو،تم ملٹی نیشنل کمپنیوں کے وارے نیارے جاتے ہو،تم ہمیشہ امریکہ کی خوشنودی چاہتے ہو،اور چین سے یہ امید رکھتے ہو کہ وہ اپنے خسارے برداشت کرتے ہوے،اپنے بندے مرواتے ہوے تمھیں فایدے دے،ترقی کی منازل طے کرنے میں فی سبیل اللہ مدد دے۔یعنی ،،کھان پین نوں اللہ رکھی دھون بھناؤن جما،،۔ وہ جان توڑ جدوجھد کے بعد ،خونی انقلاب کے بعد اس منزل پہ پہنچے ہیں تم بھی جدوجھد کرو اور یہ مقام حاصل کرو۔ پاکستانی ٹرکوں ،ٹرالیںوں کے پچھے لکھا ہوتا ہے ،،جلنے والے کا منہ کالا،،اور یہ کہ محنت کر حسد نہ کر تم بھی محنت کرو اور ثمر پاؤ! چین کی ترقی و خوشحالی سے جلنے کا کچھ فایدہ نہیں ہو گا،ویسے بھی پنجابی میں کہتے ہیں کہ ،،ہانڈی ابلے گی تے اپنے ای کنڈھے ساڑے گی،،۔ چین نے یہ منزل خونی انقلاب کے بعد پائی ہے تم بھی انقلابی جدوجھد کرو اور اس مقام کو پا لو جہاں مزدور دوست ،وطن دوست پالیساں بنا سکو۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی
عوامی غصہ اور ووٹ کی حرمت
تحریر: طیب احمد پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں عدل و انصاف کی کوئی شاندار مثالیں موجود نہیں بلکہ مقامی شاعری اور مزاحمتی صوفیوں میں قاضی اور منصف کی چیرہ دستیوں کی کہانیاں ملتی ہیں۔ پنجاب کی ثقافت اور روح کی ترجمان ’’ہیر‘‘ میں وارث شاہ نے کہا ھے قلوب المومنین عرش اللہ تعالیٰ قاضی عرش خدا دا ڈھا ناہیں یعنی مومنین کا قلب عرشِ خدا ھے اور اے قاضی،خدا کے عرش کو مت گراو۔ بلھے شاہ انقلابی ہیں اور سچ کہنے کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں ! ملاں، قاضی راہ بتاون، دین دھرم دے پھیرے ایہہ تاں ٹھگ نیں جگ دے جھیور، لاون جال چوفیرے۔ یعنی ملا اور قاضی دین کی راہ تو بتاتے ہیں مگر یہ اصل میں ٹھگ ہیں ہر طرف جال لگا کر آپ کو پھنسا لیتے ہیں۔ کئی دہائیاں گزر گئیں ، عدل و انصاف کے پیمانے بدل گئے، قانون کے انسائیکلوپیڈیاز بن گئے بڑے بڑے قانون دان اور فاضل جج صاحبان ریٹائرمنٹ کے بعد موٹی موٹی کتابیں اور کالم لکھتے، علم و قانون اور اخلاقیات کے موتی بکھیرتے نظر آتے ہیں مگر اس خطے میں تاثر آج تک یہی ھے کہ یہاں طاقتور کو چھٹی کے دن بھی انصاف ملتا ھے اور کمزور انصاف انصاف پکارتا اور دہائیاں دیتا داغ مفارقت دے جاتا ھے ۔ بھلے وقتوں میں انصاف کرنے والے قاضی کہلاتے تھے آج انہیں جج کے جدید ترین نام سے پکارا جاتا ھے۔ انصاف اور تکبر دونوں خدا کی صفات ہیں جو کسی انسان کے شایان شان نہیں۔ تاہم معاشروں نے انصاف کا فریضہ قاضیوں اور ججوں کو سونپ رکھا ھے مگر بدقسمتی یہ ھے کہ وارث شاہ کا زمانہ ہو یا آج کا زمانہ ، قاضیوں نے تکبر کا خدائی وصف بھی اپنے اوپر طاری کر لیا ھے جس سے ان کے انصاف اور ان کے رویوں پر سوال اٹھتے رہتے ہیں۔ اگر ایک عام آدمی کو اجازت ہو تو کیا وہ پوچھ سکتا ھے کہ قابلِ احترام چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عدالتی تحرک کا معاشرے کو کتنا فائدہ ہوا؟ جس طرح وہ مدعیوں افسروں اور وکیلوں کی بےعزتی کرتے رہتے ہیں اس کا انہیں کوئی آئینی اخلاقی یا قانونی حق تھا؟ یہی سوال قابلِ احترام اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں پوچھا جانا چاہئے کہ انہوں نے رجیم چینج کے بعد آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو جو سپورٹ مہیا کی اس کا کوئی قانونی یا آئینی جواز تھا؟ جان کی امان دی جائے تو فاضل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے قریبی جج صاحبان سے یہ پوچھا جائے کہ جب آئین میں چیف جسٹس بنانے اور اس کی ریٹائرمنٹ کا خاص طریقہ موجود ھے تو پھر آپ آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو سپورٹ کر کے ان کے اقتدار کو تحفظ دینے اور اپنی نوکری میں ایکسٹینشن کیلئے کیوں غلط اقدامات کو تحفظ دے رہے ہیں؟ آج ٹرائل کے بغیر نوجوان قید میں ہیں ، ڈاکٹر یاسمین راشد جنہوں نے کووڈ میں شاندار خدمات انجام دیں، وہ ناحق سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ 9 مئی کی شفاف تحقیقات کیلئے آج تک کوئی کمیشن نہیں بنایا گیا ۔ آٹھ فروری کے کیس کو قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے آج تک نہیں سنا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ حکمرانوں ، اعلیٰ عدلیہ کے ججز ، سابق آرمی چیف ، سیاستدانوں اور دیگر اعلیٰ حکام کو عوامی سطح پر اتنی مخالفت اور بےعزتی کا سامنا کرنا پڑ رہا ھے۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ عوام سڑکوں ، عوامی مقامات یا بیرون ملک کھلے عام ان شخصیات کو برا بھلا کہیں ، لعن طعن کریں یا ان کے سامنے برملا اپنی نفرت کا اظہار کریں۔ لیکن جب تقریباً تین سال پہلے عمران خان کی حکومت کو غیر آئینی طور پر گرایا گیا اور رجیم چینج کے ذریعے کرپٹ ترین سیاستدانوں کو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا ۔ جن کے خلاف کرپشن کے کھلے ثبوت موجود تھے تو اس کے بعد عوام کی آنکھیں مکمل کھل گئیں۔ عوام نے اس ناانصافی کے بعد اپنے غصے کا شدید اظہار کیا ۔ احتجاج شروع کئے اور یوں حکومتی شخصیات کی سرعام تذلیل شروع ہو گئی۔ لندن میں مریم اورنگزیب اور عطا تارڑ کو سڑکوں پر بے عزت کیا گیا، پاکستان میں احسن اقبال کو لوگوں نے فوڈ چین پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا، حنیف عباسی کو اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں کھانا کھاتے ہوئے عوام کی جانب سے شدید برا بھلا کہا گیا، موجودہ حکمرانوں کو سعودی عرب میں عمرے کے دوران شدید نفرت اور نعرہ بازی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کو ان کی اہلیہ کی موجودگی میں یورپ میں عوامی غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اب حال ہی میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی اسلام آباد کی ایک بیکری پر ان کی فیملی کے سامنے لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تمام واقعات بہت سنگین سوال اٹھاتے ہیں کہ ہم بطور قوم کس طرف جا رہے ہیں؟ یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی اور عوام کا غصہ اتنی شدت تک کیوں پہنچا؟ جب اس رجیم نے اقتدار سنبھالا تو بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کے راستے پر چلتے ہوئے انہوں نے ملک میں فسطائیت کا راج قائم کیا۔ خوف و حراص پیدا کیا لوگوں کے گھروں میں غیر قانونی چھاپے مارے گئے، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ بڑی تعداد میں بیگناہوں کو گرفتار کر کے شرمناک پرچے کاٹے گئے انہی چھاپوں کے دوران گھروں میں لوٹ مار کی گئی، بیگناہ بچوں اور نوجوانوں کو قید کیا گیا ۔ خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور ظلّے شاہ جیسے کئی بے گناہوں کو تشدد کر کے قتل کر دیا گیا۔ ان حالات میں لوگ کیسے ریاست ، سرکاری محکموں اور ان کے سربراہان پر اعتماد کریں گے؟ ان ناانصافیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والا عوامی غصہ اب ایک نقطۂ عروج پر پہنچ چکا ھے اور اس کا اثر ہر سطح پر محسوس کیا جا رہا ھے۔ ملک کی موجودہ خراب معاشی صورتحال بھی عوامی غصے میں اضافہ کر رہی ھے۔ روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں، مہنگائی بڑھ رہی ھے اور عام آدمی کی
چیخیں للکار بنیں گی!
چیخیں للکار بنیں گی ! جدید دنیا میں ریاست اور مذہبی معاملات کو الگ الگ رکھ کر ہی ترقی کی جا سکتی ہے۔جدید ریاست سیکولر بنیادوں پہ مناسب طور پہ اپنے عوام کو تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔جبکہ یہ تیھوکریسی پہ مبنی ریاستیں حکمران اشرافیہ و سامراجی ممالک کی منشاء و مفادات کے تحفظ اور عوام سے جمہوری و انسانی حقوق چھیننے کی پالیسی سماج کو ننگے جبر نراج اور تباہی و بربادی کی طرف لے جاتی ہیں۔ اس تیھوکریسی نے ہمارے ملک کو ،،اکھاڑہ ،،بنا کر رکھ دیا ہےیہاں سوچنے سمجھنے والے حساس ذہن موت کے سائے میں ،خوف کی فضا یعنی کربناک حالات میں جیتے ہیں۔ ہماری شعوری/تعلیمی پسماندگی ،نفاق،فرقہ واریت ،انتہا پسندی و شدت پسندی ریاست کی اس تیھوکریسی پہ مبنی پالیسی کا خاص نتیجہ ہے۔ ہماری حکمران اشرافیہ اور سامراجی پالیسی ساز نھیں چاہتے کہ یہاں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی ہو،یہاں سوال کرنے کی آزادی ہو،یہاں جمہوری سوچیں اور ادارے مضبوط ہوں،یہاں سیکولر ازم فروغ پائے۔جی ہاں مقتدرہ نھیں چاہتی کہ امن مساوات و بھائی چارہ ہو،کہ تمام شہری برابر ہوں۔ بیشک ہمارے عوام تہذیبی و فطری طور پہ رجعتی نھیں ہیں مگر یہاں رجعت کا ،،تڑکا،، لگایا جاتا ہے،یہاں جہادی پلانٹ کیے جاتے رہے ہیں،یہاں ڈالروں کی برسات ہوتی رہی ہے اس تہذیب میں رجعتی فصلوں کی آبیاری کے لیے،یہاں تعلیمی نظام اور الیکٹرانک و پیپر میڈیا پہ رجعت پسندوں کو خاص مواقع و مراعات دی جاتی ہیں۔انھیں ریاستی آشیر باد حاصل ہوتی ہے۔یہاں سیکیولر ازم کو کفر بنا کے پیش کیا جاتا ہے ،یہاں سوشلزم کو دہریت کا ٹیگ لگا کر زہریلا پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے،یہاں ریاست کو ایک جدید ریاست نھیں بلکہ محمد بن قاسم کی مہربانی سے قائم ایک سلطنت سمجھا جاتا ہے جہاں مذہبی پیشوا و مذہبی سیاسی جماعتوں کو کھل کر جمہوریت دشمن کھیل کھیلنے کی آزادی دی جاتی ہے۔یہاں جہل کے ہاتھوں علم و شعور کو بیدردی سے بار بار قتل کیا جاتا ہے اور پھر قاتلوں کو پھولوں کے ہاروں سمیت ان پہ دولت نچھاور کی جاتی ہے اور بعض اوقات ریاستی اہل کار جنہوں نے اس آیئں پاکستان کی وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہوتا ہے وہ اس حلف کی صرئیحاخلاف ورزی کرتے ہوے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال بلکہ مجرمانہ قبیح فعل کے مرتکب ہوتے ہیں۔وقتی طور پہ قانون ایک کمزور سا ہاتھ بھی ڈالتا ہے مگر وہ ہاتھی کے دانتوں کی طرح ہوتا ہے۔ایک مجرم کی پھانسی سے پہلے لاکھوں ترغیب پا چکے ہوتے ہیں کہ اس جرم کے بدلے میں عزت بھی دولت بھی اور جنت بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو کیوں یہ چلن رکے گا۔یہ تو بڑھے گا بھائ اور بڑھتا ہی جائے گا۔اس لیے کہ عالمی سامراج سے لے کہ ہمارے گماشتہ حکمرانوں تک یہی چاہتے ہیں کہ یہاں یہ کشت و خوں جاری رہے۔ورنہ تو لوگ سوال کریں گے بڑھتی ہوئ مہنگائی ،امارت و غربت کے درمیان فرق پہ لوگ چیئخیں گے پھر وہ چیخیں للکار بنیں گے اور غاصبوں کی حکمرانی کے پرخچے اڑادیں گے ۔لہذا جو دوست یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا حکمران طبقہ حوش کے ناخن لے گا اور اس اندازِ حکمرانی میں کوئی بنیادی تبدیلی اور سیکولر ازم و شہری آزادیوں کا تحفظ کرے گا تو یہ خام خیالی ہے۔ یہ معرکہ بھی باشعور عوام کو ہی سر کرنا پڑے گا۔انقلابی دانشوروں/تنظیموں کو جدوجھد کرنا پڑے گی۔جیسے سندھی عوام ڈاکٹر شاہنواز کی شہادت کے خلاف نکلے ہیں اسی قسم کا عملا ردعمل دینا اور اس روایت کو مضبوط کرنا پڑے گا ۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی
سامراجی غلبے کا موثر ہتھیار جھوٹا پروپیگنڈا
سامراجی غلبے کے لیے سب سے پہلا اور موثر ہتھیار جھوٹا پراپیگنڈہ ہے۔ امریکن اداروں کی نام نہاد تحقیق جس میں کرپشن و استحصال کے قصے کہانیاں بیان کیے جایئں اور ان قصوں میں روس چین یا سوشلسٹ ممالک کو گراف میں ٹاپ پہ نہ دیکھایا جاے یوں سمجھیں کہ امریکن فلمیں ہوں اور ان میں سوویت کی بجائے امریکن ہیروز کو مولا جٹ بنتے نہ دیکھایا جاے یہ کیسے ممکن ہے؟ ہاں مگر متعصب ذہنوں پہ،بچوں جیسے کچے ذہنوں کو تو امریکن پراپیگنڈے کو،امریکن اداروں کی تحقیق کو آنکھوں کے ساتھ ساتھ کان بھی بند کرکے سمجھنے کی کوشش میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کا کردار آدا کرنا ہوتا ہے۔اعداد و شمار کے ہیر پھیر یا لچھے دار گفتگو کے ذریعے سےیعنی نہایت سمجھ داری سے اپنی کج فہمی کو عوام میں دانش کے روپ میں پھیلا کر کہیں سے داد عیش وصول کرنا ہوتی ہے۔جبکہ امریکہ کہ اس منفی و رجعتی کردار کو دنیا میں عالمی سیاست کی معمولی سی شد بد رکھنے والے افراد بھی جانتے ہیں۔اگر نھیں جانتے تو ہمارے ،،غلابی،،دانشور نھیں جانتے ۔کسی کو شک؟ اگر آپ کو شک ہے تو آپ عراق کے اوپر حملے کے وقت کے امریکن اداروں کی رپورٹس و وائس آف امریکہ کے پراپیگنڈے کو دیکھ لیں،اپ معمر قذافی کے لیبیا کی تباہی کے لیے امریکی اداروں کی رپورٹس دیکھ لیں،اپ افغانستان کے حوالے سے سوویت حکومت کے خلاف نام نہاد امریکی تحقیقاتی اداروں کی رپورٹس پڑھ لیں،تمام سوشلسٹ ممالک کے حوالے سے امریکی رپورٹس و پراپیگنڈہ دیکھ لیں،فلسطین کےخلاف حالیہ اسرائیلی بربریت دیکھ لیں آپ دیکھیں گے کہ کس طرح آج جدید انفرمیشن ٹیکنالوجی کے باوجود امریکہ اسرائیل کو معصوم و مظلوم بنا کر پیش کرنے کی بارہا کوششیں کر چکا ہے۔اگرچہ ناکام رہا ہے۔چونکہ زمانہ بدل رہا ہے۔ آپ کس دنیا میں رہتے ہیں،سامراجی غلبے کیلیے سب سے پہلا اور سب سے موثر ہتھیار ہے ہی جھوٹا پراپیگنڈہ اور نام نہاد تحقیق ۔وہ رپورٹس جو ماضی میں بھی سوشلسٹ حکومتوں اور دیگر عوام وملک دوست حکومتوں کے خلاف تھیں اور آج بھی وہی کردار جاری و ساری ہے۔مگر بقول شاعر ،،جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے،، کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی