لائبریری میں جن بھوت ؟

  تحریر: کامریڈ عرفان علی آج سے بیس سال قبل ہم علی رضا آباد شفٹ ہوے تو وہاں کے پڑھے لکھے جوانوں سے راہ و رسم بنانے کی کوشش کی جو مختلف مذہبی بیک گراؤنڈ رکھتےتھے۔ ایک بی اے پاس دوست جو میرا ہمسایہ تھا جسے میں نے فیکٹری میں اپنے ساتھ کام پہ لگوایا۔اس نے مجھے پرزور دلائل سے ثابت کیا کہ علی رضا آباد میں قزلباش فیملی نے بھلے زمانوں سےبہت بڑی لائبریری بنوا رکھی ہے جو مدتوں سے مقفل پڑی ہے اس میں ،،جن بھوت،،رہتے ہیں۔میں اس شخص کو یہ بات سمجھانے میں ناکام رہا کہ دراصل یہ بات لوگوں کو کتاب و علم سے دور رکھنے کے لیے پھیلائی گیئ ہے۔اور کئی دوستوں سے بات کی کہ اس لائبریری کو کھولا جاے تو یہ ،،جن بھوت،، والا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ہمارے بہت ہی قابلِ احترام دوست ذاہد عباس زیدی جو بڑی علمی و سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی ایسی شخصیت ہیں جن کا احترام پورے علاقے کے تمام دیہات کے لوگ دل و جاں سے کرتے ہیں۔ان سے اور مرحوم سید ذاکر حسین زیدی صاحب سےبھی تذکرہ رہا کہ کیسے اس لائیبریری کو کھولا جاے مگر کامیابی نھیں ہو سکی۔ آج کئی سالوں بعد میں سوچ رہا ہوں کہ کتاب و علم کی طرف ہماری سوسائٹی کاعمومی رویہ دشمنی والا ہے۔جس کا نتیجہ دہشت گردی،فرقہ واریت و غیر سیاسی و غیر منطقی سوچ رکھنے والے وحشی ہجوم کی صورت برآمد ہوا ہے۔اور جس کی قیمت ہم غربت بھوک،لاعلاجی ،افراتفری اور جہالت کی صورت آدا کررہے ہیں۔ یہاں قلم کتاب کو صرف سرکاری سلیبس اور ڈگری سے نتھی کردیا گیا ہے اور باقی عملی و سماجی زندگی سے کتاب کا رشتہ ختم کردیا گیا ہے۔ اگر کچھ مذہبی کتابیں پڑھی بھی جاتی ہیں تو وہ ذہن روشن کرنے،سمجھنے،زندگی و سماج میں تبدیلی کی غرض سے کردار آدا کرنے کے لیےنھیں بلکہ آنکھیں و ذہن بند کیے ثواب کی خاطر پڑھی جاتی ہیں۔یعنی ہم مذہب کو بھی اس کی حقیقت کو سمجھنے جس کی طرف مقدس کتاب قرآن کریم میں بھی سینکڑوں بار حکم آیا ہے کہ ،،تحقیق ،،کرو۔مگر ہمیں اسلاف نے اس طرف جانے ہی نھیں دیا۔ہم تحقیق کی بجائے لآئ لگ قسم کے مسلمان ہیں۔ ہماری مذہبی تاریخ میں جو علماء ،حکما،فلاسفر ہمیں اس طرف لانے کی کوشش کرتے رہے انھیں راندہ درگاہ بناتے ہوے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔اج جن فلسفیوں ،سایسندانوں کے مسلمان ہونے پہ ہم فخر کرتے ہیں ان کی زندگیوں میں ان پہ کس طرح مظالم کے پہاڑ توڑے گیے۔انھیں زندیق،مرتد و گمراہ کہا گیا،جنھیں سزا کے طور پہ قید رکھا،کوڑے مارے گیے،جن پہ تھوکا گیا،جنھیں رسوا کیا گیا،سر پہ انھیں کی بھاری بھرکم کتابیں ماری گیئں ،حتی کہ آنکھوں کی روشنی چھین لی یعنی سماج سے نور چھین لیا گیا ۔ اور آج بھی وہی چلن ہے آج بھی کوئی تحقیقی بات کرے تو وہ کفر کے فتووں کی زد میں رہتا ہے۔اج بھی ہجوم کے ہاتھوں اہل علم بیدردی سے قتل ہوتے ہیں اور جہلا ٹھٹھے لگا رہے ہوتے ہیں۔ماضی میں بھی ان باعمل مسلم اسکالرز پر جب تشدد کیا جاتا تو باآواز بلند نعرے لگائے جاتے آج بھی نعروں کی گونج میں علم و دانش کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔دراصل یہ مین سبب ہے ہماری پسماندگی کا۔اج بھی ہمارے دانشور خوف کے سائے میں جیتے جب کہ جہالت دندناتی پھرتی ہے۔پھر بھی کچھ من چلے،کچھ دیوانے اس جہد میں مصروف ہیں۔ان میں ایک شخصیت مزدور کسان پارٹی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر تیمور رحمان ہیں جن کے خلاف آے روز زہریلا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔اس طرح کے کتنے ہی نام ہیں جو خاموش کروا دیے گیے،مار دیے گیے یا آج بھی جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ خیر بات شروع ہوئی تھی کہ ہمارا مجموعی رویہ یا غالب رحجان کتاب و علم دوستی کی بجائے کتاب دشمنی کا ہے،جہالت پی ناز کرنے کا ہے جب تک یہ روش تبدیل نہیں ہوتی یہاں کوئ مثبت تبدیلی ممکن نھیں ۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

سموگ کے طبقاتی اثرات! 

  تحریر: کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی سرمایہ دارانہ نظامِ میں سرمایہ داروں کے پاس تقریباً سب کچھ اور محنت کشوں کے پاس تقریباً کچھ نھیں ہوتا۔گھر، گاڑی تعلیم علاج معاشرے میں جئے جئے کار یہ سب زرداروں کی رسائی بلکہ اجارہ داری میں ہوتا ہے۔زردار مصیبت زدہ علاقوں کو پل بھر میں چھوڑ سکتے ہیں ،دوسرے ممالک جا سکتے ہیں جب کے محنت کشوں کا مقدر وہیں مصیبت و ابتلا گھرے رہ کرمرنا ہے۔محنت کش کودو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوتے ہیں وہ دیگر حفاظتی لوازمات کہاں سے پورے کرے۔ ابھی آپ اس سموگ کو دیکھیں اس صورت احوال کی بڑی ذمہ داری بہرحال طبقہ اشرافیہ پہ بنتی ہے مگر اس سےمتاثر کروڑوں غریب ہوتے ہیں ۔سموگ و زہریلی ہوا سے بچنے کے لیے امراء اپنے گھروں میں چار چھ ہفتے بند ہو کر گزار سکتے ہیں،بیرون ممالک جا سکتے ہیں جیسے ہماری وزیر اعلیٰ اور سابق وزیر اعظم غیر ملکی دورے پہ ہیں۔بہت سے ریٹائرڈ آفیسرز یورپ میں ہی سیٹل ہو جاتے ہیں کیونکہ اس ملک کو تو اس قابل چھوڑا نھیں کہ یہاں مستقل سکونت اختیار کی جاسکے۔اور جس پیڑھی نے اس ملک کے خزانوں پہ ابھی مزید ہاتھ صاف کرنے ہیں اور یہاں کہ محنت کشوں کی محنت کو لوٹنا ہے حکمرانی و عیش کے مزے لوٹنے ہیں وہ گھروں میں ایئر کلینر ٹائپ ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں جب کہ غریب مر رہے ہیں۔یہ طبقاتی نظام ہے جو کچھ لوگوں کو جدید ترین آسائشیں،سہولیات و ٹیکنالوجی تک رسائی دیتا ہے اور کروڑوں انسانوں کو ان نعمتوں سے محروم رکھتا ہے،وہ کیا ایئر کلینر لے جس کا گھر ہی نھیں گھر ہے تو کھڑکیاں دروازے نھیں ۔کھڑکیاں دروازے ہوں تو جیب اجازت نہیں دیتی کہ روزگار نھیں ہے۔ایک تو تنگدستی ہے اوپر سے کم علمی ۔لہذا اس نظام کی جگہ ایک منصفانہ ،ایک منصوبہ بند معیشت پہ بنیاد رکھنے والا نظام چاہیے جو خلق خدا کو بلا تفریق ڈیلیور کرے۔اور اس اس نظام کو اشتراکیت (سوشلزم) کہتے ہیں۔یعنی تمام وسائل و ذرائع پیداوار ریاست کی ملکیت اور ریاست محنت کش عوام کے کنٹرول میں ہو۔ہر بالغ و صحت مندشخص اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرے اور کام کے مطابق معاوضہ لے جب کہ تعلیم ،ریہائش،علاج،روزگار ریاست کی اولیں ذمہ داری ہو گی ۔

ووٹ ایک امانت

  تحریر:انجینئر ہشام علی اسلام میں منافق انسان کی چار نشانیاں بیان کی گئی ھیں۔ 1 جب وہ بات کرتا ھے تو جھوٹ بولتا ھے۔ 2 جب وعدہ کرتا ھے تو وعدہ خلافی کرتا ھے ۔3 جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جاتی ھے تو اس میں خیانت کرتا ھے۔ 4 علما کرام چوتھی نشانی یہ بتاتے ھیں کہ جب اس کا کسی سے جھگڑا ھوتا ھے تو وہ گالیاں دینے لگتا ھے۔ آج تیسری نشانی امانت میں خیانت پہ کچھ تحریر کرنے کا ارادہ رکھتا ھوں۔ ھم عام طور پہ جس کو خیانت سمجھتے ھیں وہ ھے مال و دولت میں خیانت کرنا لیکن یہ صرف مال و متاع تک محدود نہیں ھے اس کے اور بھی بہت سے پہلو ھیں جس میں سے چند ایک یہ ھیں کہ ایک پہلو جسے ھم سب جانتے پہچانتے ھیں وہ ھے مال و دولت کی امانت اور اس میں خیانت کا مرتکب ھونا۔ اس پہ بات نہیں کروں گا کیونکہ سبھی اس سے اچھی طرح واقف ھیں۔ دوسرا پہلو ھے فرائض منصبی میں خیانت کا مرتکب ھونا۔ یعنی جو کوئی دوسرا آپ کو فرائض تفویض کرتا ھے مطلب یہ کہ آپ کی کسی کام کو انجام دینے کی ڈیوٹی لگاتا ھے جس کے عوض وہ آپ کو معاوضہ یا تنخواہ دیتا ھے۔ ان فرائض کو ادا کرنے کےلیے آپکو کچھ اختیارات بھی ملتے ھیں وہ اختیارات آپ کے پاس اپنے باس یا مالک کی طرف سے امانت ھوتے ھیں جسے وہ کسی بھی وقت واپس بھی لے سکتا ھے۔ اور آپ ان کا ناجائز فائدہ اٹھا کر یا انکا غلط استعمال کر کے امانت میں خیانت کے مرتکب بھی ھو سکتے ھیں۔ مثال کے طور پہ آپ کسی فرم میں کام کرتے ھیں جہاں آپ نے ورکرز سے کچھ کام کروانے ھیں۔ اس کےلیے وہ فرم آپ کو اختیار دیتی ھے کہ اگر کوئی ورکر کام صحیح نہ کرے یا آپ کی بات نہ مانے تو آپ اسے نوکری سے نکال سکتے ھیں یا اسے کوئی جرمانہ کر سکتے ھیں۔ اگر تو آ پ اس اصول کے عین مطابق اس اختیار کا استعمال کرتے ہیں تو آپ نے اس امانت کا حق ادا کیا ھے۔ اور اگر آپ نے کسی ورکر سے کسی ذاتی رنجش یا ناپسندیدگی کی بنیاد پر یا کسی اپنے رشتے دار و دوست کو جاب دلوانے کی غرض سے ورکر کو جاب سے فارغ کردیا تو یہ آپکی اس اختیار کی امانت میں خیانت ھوگی۔ علی ہذالقیاس آپ اس اصول کے تحت خود اپنا احتساب کر سکتے ہیں کہ آپ اختیارات کی امانت میں کہیں خیانت تو نہیں کر رھے؟ تیسرا پہلو ووٹ کی امانت کا ھے ۔ الیکشن کا مطلب ہوتا ھے انتخاب اور انتخاب بذریعہ ووٹ اور ووٹ آپ کے پاس امانت ھے جسے آپ نے اس کے اہل حق دار تک پہنچانا ھے۔ اب یہاں پہلا سوال یہ ھے کہ ووٹ امانت کیسے ھے؟ دوسرا سوال کہ ووٹ کو امانت کیوں کہا جاتا ھے؟ تیسرا سوال یہ ھے کہ جس کو ووٹ دیا جائے وہ آپ کے اس ووٹ کا اہل ھے یا نہیں اسکا کیسے پتہ چلے گا؟ ان تمام سوالوں کے باری باری جواب سے پہلے ایک سوال یہ بھی ھے کہ آخر ھم ووٹ دیتے ہی کیوں ھیں؟ پہلے اس آخری سوال کے جواب کی طرف آتے ھیں۔ اسکا جواب نہایت ہی سادہ اور عام فہم ھے کہ کسی ایک یا زائد سیاسی پارٹیز کو امور مملکت یعنی پورے ملک کا انتظام و انصرام چلانے کا اختیار دینے کےلیے ووٹ دیا جاتا ھے۔ کیونکہ ویسے تو ہر بندہ ہی صدر وزیراعظم اور وزیر مشیر بننا چاہتا ھے اور طاقت و اختیار کا مالک بننا چاہے گا۔ لیکن پاکستان کے آئین میں یہ واضح طور پہ لکھا ھے کہ اصل حاکمیت و بادشاہت اللہ تعالی کی ہی ھے اور اسی کی ہی رھے گئی۔ مگر امور مملکت کو چلانے کےلیے چونکہ اسباب کی ضرورت ھے۔ اور یہ دنیا اسباب کی دنیا ھے۔ لہذا اس لیے اللہ کے بعد اس ملک کے حقیقی وارث و مالک پاکستان کی عوام ھو گی اور پاکستان کی عوام متفقہ طور پہ جس کو امور مملکت چلانے کےلیے قابل اور اہل سمجھے گی اس کو ووٹ کے ذریعے اقتدار سونپا جائے گا اور تمام بادشاہت و حکومت کرنے کے اختیارات اس کو بطور امانت مل جائیں گے اور وہ حکمران ان اختیارات کو ملک و قوم کی بھلائی ترقی و خوشحالی کےلیے ہی استعمال کرنے کا حق رکھتا ھے نہ کہ کسی ذاتی و گروہی مفاد کےلیے۔ لہذا اس لیے کسی بھی جمہوری ملک کی عوام اپنے حکمران منتخب کرنے کےلیے ووٹ ڈالتے ھیں اس کے نتیجے میں منتخب ھونے والے نمائیندے عوامی نمائیندے کہلاتے ھیں کیونکہ ان کو عوام کی تائید حاصل ھوتی ھے۔ پھر ان عوامی نمائندوں پہ مشتمل قومی و صوبائی اسمبلیاں تشکیل پاتی ھیں، صدر و وزیراعظم اور کابینہ کا انتخاب ھوتا ھے اور یوں امور مملکت ایک عوام کی منتخب کردہ حکومت چلانے لگتی ھے ۔ اس سارے عمل کو ایک لفظ میں "جمہوریت” کہتے ھیں۔ اب آتے ھیں ان سوالوں کی طرف کہ ووٹ امانت کیسے ھے؟ اور اسے امانت کیوں کہا گیا ھے؟ جس کو ووٹ دیا ھے کیا وہ میرے ووٹ کا حقدار ھے یا نہیں ؟ تو ان سوالوں کا جواب بھی بہت ہی سادہ اور عام فہم ھے کہ جیسے اوپر ووٹ دینے کا مقصد بیان کیا گیا ھے کہ اہل و قابل اور ایمان دار حکمرانوں کا انتخاب کرنے کےلیے ووٹ دیا جاتا ھے۔ لہذا آپ کا” ووٹ امانت” اس لیے ھے کہ آپ اپنے اس ووٹ کو صرف اور صرف ملک و قوم کے بہترین مفاد میں کام کرنے والے اشخاص یا پارٹی کو ہی دے سکتے ھیں۔ جو اہل بھی ھوں اور قابل بھی، ایمان دار بھی ھوں اور خود دار بھی اور ملک و قوم کا درد و احساس بھی رکھنے والے ھوں ۔ صرف اور صرف یہی لوگ ہی آپ کے ووٹ کی امانت کے صحیح حقدار ھیں ۔ اگر آپ ان خصوصیات کے حامل لوگوں کے مقابلے میں ان لوگوں کو ووٹ دیتے ھیں جو نااہل، نالائق ، کرپٹ، بددیانت اور ملک و قوم کے مفاد پر ذاتی مفاد

پاکستان اور چین کا تعلیمی موازنہ 

  تحریر: قیوم نظامی پاکستان کی 1947 میں آبادی 34 ملین تھی جبکہ تعلیم کی شرح 16 فیصد تھی-پاکستان کی چین کی نسبت معاشی حالت بہتر تھی- پاکستان کی فی کس آمدنی 100 ڈالر تھی جبکہ چین کی فی کس آمدنی 50 ڈالر تھی- 28 ملین افراد کو تعلیم کے زیور سے اراستہ کرنا پاکستان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا-چین 1949 میں آزاد ہوا اس وقت اس کی آبادی 500 ملین تھی جبکہ تعلیم کی شرح 20 فیصد تھی اور اس کے لیے 400 ملین افراد کو تعلیم دینا بہت بڑا چیلنج تھا-چین کے عظیم لیڈر ماؤزے تنگ نے تعلیم کو قومی ترجیحات میں شامل کیا-ہیومن ریسورس پر سرمایہ کاری کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج چین میں فی کس آمدنی 12738 ڈالر ہے جبکہ پاکستان کی فی کس کا آمدنی 1650 ڈالر ہے- چین میں تعلیم کی شرح کم و بیش 100 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں تعلیم کی شرح 60 فیصد ہے- آئین کے آرٹیکل 25 اے میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ 6 سے 16 سال تک کے ہر بچے کو لازمی تعلیم دی جائے گی ـ افسوس اس آرٹیکل پر عمل درامد نہ کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج 26 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں-جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جب قومی ترجیحات کا فیصلہ کرنے کے لیے اعلٰی سطحی اجلاس بلایا تو اس اجلاس میں ایک ڈپٹی سیکرٹری نے کہا کہ ہمیں تعلیم کو اپنی پہلی ترجیح بنانا چاہیے- جنرل ایوب خان نے کہا کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ پڑھ لکھ جائیں اور میرے خلاف اٹھ کھڑے ہوں- 10 سالہ اقتدار کے بعد جب پاکستان کے عوام جنرل ایوب کے اقتدار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو معتبر شہادت کے مطابق جنرل ایوب خان نے کہا کہ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی کہ میں نے لوگوں کو تعلیم نہ دی جس کی وجہ سے ان کا شعور ہی بلند نہ ہو سکا-پاکستان میں 43 ہزار دینی مدارس ہیں جن میں اپنے اپنے مسلک کے مطابق بچوں کو مفت تعلیم بھی دی جاتی ہے اور ان کو قیام و طعام کی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں-دینی مدارس کا اپنا نصاب ہے جو مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے-پاکستان میں ہزاروں پبلک سکول موجود ہیں مگر ان میں معیاری تعلیم نہیں دی جا رہی اور سکولوں میں بچوں کو باتھ روم اور بجلی جیسی بنیادی سہولتیں بھی فراہم نہیں کی جاتیں -ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 85 فیصد سکولوں میں ٹائلٹ اور بجلی کی سہولتیں موجود نہیں ہیں ـ تازہ رپورٹوں کے مطابق پاکستان کے مختلف صوبوں میں پبلک سکول یا تو بند کیے جا رہے ہیں یا ان کی نجکاری کی جا رہی ہے-پاکستان میں ایسے پرائیویٹ سکول بھی ہیں جہاں پر تعلیم کا معیار تو اچھا ہے مگر ان کی فیسیں اس قدر زیادہ ہیں کہ لوئر مڈل کلاس کا کوئی گھرانہ اپنے بچے کو ان سکولوں میں تعلیم دینے کا سوچ نہیں سکتا -ایک مقامی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق پانچویں جماعت کے 45 فیصد بچے دوسری جماعت کی اردو اور انگریزی کی کتاب نہیں پڑھ سکتے-پاکستان میں انگلش میڈیم سکول تجارتی ادارے بن چکے ہیں- پاکستان میں 244 رجسٹرڈ یونیورسٹیاں ہیں جن میں 145 پبلک اور 99 پرائیویٹ ہیں ـ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی یونیورسٹی دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں شامل نہیں ہے-پاکستان کے تعلیمی نظام میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وکیشنل ٹریننگ اور ٹیکنالوجی کی تعلیم پر بہت کم توجہ دی جا رہی ہے-پاکستان میں تعلیم کا بجٹ بہت کم ہے- 2022 – 2023 کی اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق وفاق اور صوبائی بجٹ میں تعلیم پر صرف پانچ بلین ڈالر خرچ کیے گئے جو جی ڈی پی کا 1.5 فیصد بنتے ہیں-اس تعلیمی بجٹ کا قابل ذکر حصہ کرپشن کی نزر ہو جاتا ہے-پاکستان کے مقابلے میں چین نے گزشتہ 70 سالوں کے دوران تعلیم پر منظم طریقے سے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے-چین نے 2020 میں تعلیم پر 657 بلین ڈالر خرچ کیے جو جی ڈی پی کا4.22 فیصد بنتے ہیں-اسی سال چین نے اپنے دفاع پر 178 بلین ڈالر خرچ کیے جو تعلیمی بجٹ کا ایک چوتھائی بنتے ہیں-چین کے تعلیمی نظام کے مطابق ہر بچے کو نو سال مسلسل لازمی تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے جو پرائمری اور سیکنڈری سکول تک ہوتی ہے-ہر بچے کو پہلے نو سال کے دوران اخلاقی تعلیمی ذہنی اور جسمانی تعلیم دی جاتی ہے-ہر بچے کو چینی زبان ریاضی فزکس کیمسٹری اور ایک غیر ملکی زبان سکھائی جاتی ہے جبکہ ریاضی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے تاکہ تمام بچوں کی تعلیمی بنیادیں مستحکم بنائی جا سکیں-سرکاری سکولوں میں 90 فیصد طلبہ و طالبات کو مفت تعلیم دی جاتی ہے جبکہ باقی دس فیصد بچے پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں-تمام سکولوں کا ایک ہی نصاب ہوتا ہے جسے وزارت تعلیم منظور کرتی ہے اور یکساں نصاب کی وجہ سے قومی ہم اہنگی اور یکجیتی پیدا ہوتی ہے-چین میں تین ہزار بارہ یونیورسٹیاں ہیں جن میں 75 فیصد سرکاری ہیں اور 25 فیصد پرائیویٹ ہیں-یونیورسٹیوں میں داخلے سے پہلے بچوں سے ٹیسٹ لیے جاتے ہیں اور ان کا تعلیمی معیار جانچا جاتا ہے-چین کی درجنوں یونیورسٹیوں کا شمار دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں کیا جاتا ہے-پاکستان چین کے کامیاب تعلیمی تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے-چین کے کامیاب تجربے سے سیکھتے ہوئے پاکستان کو ہیومن ریسورس پر بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے اور اس پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ پاکستان کے نوجوان ہنرمند بن سکیں اور مارکیٹ کے تقاضوں کو پورا کر سکیں-خواتین کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے کیونکہ مائیں اگر مثالی ہوں گی تو نسلیں بھی مثالی بن سکتی ہیں-پاکستان کو چین کی طرح ریاضی فزکس کیمسٹری اور ٹیکنالوجی کی تعلیم پر توجہ دینی چاہیے اور ہائر ایجوکیشن میں آئی ٹی کو پہلی ترجیح بنانا چاہیے-پاکستان کو چین کے ساتھ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے بعد پاک چائنہ ایجوکیشن کوریڈور کا معاہدہ بھی کرنا چاہیے-پاکستان میں تعلیم کی پسماندگی کی بنیادی وجہ جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ہے

سود کا خاتمہ

تحریر: کامریڈ عرفان علی سود کے خاتمے کیلئے سرمایہ داری کا خاتمہ لازم ہے! سودی نظام کا خاتمہ نیک شگون متبادل نظام کے لیے حکومت کا ہاتھ بٹانا چاہیے ۔ سودی کاروبار اللہ سے جنگ صوبائی اسمبلیوں نے سود کے خاتمے کیلئے قانون سازی کر لی،سود سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ۔راغب نعیمی 2028تک رعایت دی تاکہ نظام درست کر لیا جائے ،عبالغفور حیدری،مالی معاملات سود سے پاک کرنا مشکل نھیں ہو گا۔ساجد میر۔ 26ویں آئینی ترمیم میں یکم جنوری 2028تک ملکی معیشت سے ٫ربا،یا سود ختم کرنے کی قانون سازی بھی شامل ہے جبکہ وفاقی شرعی عدالت 2022ء میں پاکستانی معیشت سے 2027ء تک اسلامی احکامات کے مطابق سودی نظام ختم کرنے سے متعلق فیصلہ دے چکی ہے،سوال یہ ہے کہ اسلام کے نام پہ بننے والے مملکت خدادا د میں تا حال سودی نظام کا خاتمہ کیوں نہیں ہؤ پایا،نیئ قانون سازی سودی نظام کے خاتمے میں کتنی معاون ثابت ہوگی۔نیز سودی نظام کے خاتمے سے ملکی معیشت پر اس کے کیا اثرات ہوں گے ۔ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کیلئے روزنامہ ایکسپریس نے فورم کا اہتمام کیا۔فورم میں علامہ راغب نعیمی ،مولانا عبدلغفور حیدری ،سینیٹر ساجد میر سمیت دیگر نے اظہار خیال کیا ۔روزنامہ ایکسپریس قارئین اکرام درج بالا تحریر آج مورخہ 26 اکتوبر کے۔اخبار ایکسپریس میں چھپی ہے۔پہلا سوال تو یہ ہے کہ اس پینل ڈسکشن کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کے اس میں ایک بھی ماہر معیشت شامل نھیں.یہ ہمارے حکمران طبقے کی چالاکی ہے کہ وہ لوگوں کو کنفیوژن کا شکار رکھتے ہیں ۔اور سب سے زیادہ کنفیوژن پھیلانے میں مذہبی پیشواؤں کا سہارا لیتے ہیں کیونکہ لوگ ان کی بات کو عقیدت اور تقدس کی وجہ سے معتبر سمجھتے ہیں۔لوگ یہ غور نھیں کرتے کہ ان صاحبان کی متعلقہ شعبے میں مہارت و علمی قابلیت کیا ہے۔لہذا حکمران طبقہ اس کھلی دھوکہ دہی سے بھرپور فایدہ اٹھاتا ہے،سیاست اور بزنس میں اکثر ملا اور سرمایہ دار طبقے کا گٹھ جوڑ ہوتا ہے بلکہ اب تو یہ ملا ،پیرخود حکمران طبقے کا حصہ ہیں۔خود حکمرانی و پروٹوکول کے مزے لوٹتے ہیں،عیش کرتے ہیں۔خود سودی نظام سے بھر پور فایدہ اٹھاتے ہیں۔مگر گاہے بگاہے لوگوں کو سودی نظام کے خلاف کچھ آیات و احادیث بیان کرکے عوام کی نظروں میں نیک نام بھی بن جاتے ہیں۔یہ ٹولا سرمایہ دار طبقے کا سب سے خطرناک حصّہ ہیں جو سرمایہ دار بن چکے ہیں مگر سرمایہ داری کو برا بھلا بھی کہتے رہتے ہیں۔لہذا لوگ ان کی منافقانہ باتوں کا تجزیہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔دراصل یہ مذہب کے نام پہ لوگوں کو بیوقوف بنانے والے ہیں۔یہ مذہب کو بیچ کھانے والے ہیں۔یہ بظاھر دین دار ہیں یعنی قول میں دیندار جب کہ عمل میں پکے دنیا دار (سرمایہ دار)ہیں۔یہ جان بوجھ کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں یہ حقائق توڑ مروڑ کر بیان کرتے ہیں۔یہ لوگوں کو نھیں بتاتے کہ جب تک نجی ملکیت رہے گی،جب تک سرمایہ داری نظام رہے گا ،جب تک طبقاتی تفریق قائم رہے گی،جب تک امیر اور غریب کا فرق موجود رہے گا جب تک یہ نظام رہے گانہ سود کا خاتمہ ممکن ہے نہ ظلم و استحصال ختم ہو سکتا ہے۔جدید دنیا میں سودی نظام کا خاتمہ اس پورے نظام کو انقلابی بنیادوں پر الٹے بغیر ممکن نھیں ہے۔اور اس کے لیے سب سے پہلے لوگوں تک صحیح علم کا پہنچنا لازم ہے۔لوگوں کا طبقاتی بنیادوں پہ منظم ہونا اور انقلابی علومِ سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

یہ ظلمت کدے یا تعلیمی ادارے ؟

 تحریر: کامریڈ عرفان علی کچھ عرصہ قبل بہاولپور یونیورسٹی کاایک شرمناک سکینڈل منظر عام پہ آیا اور کئئ دن سوشل میڈیا پہ چھایا رہا اور پھر حب روایت وہ یاداشتوں سے ظلم کی دیگرخبروں کی طرح محو ہوتاگیا،اور انکوائریاں ،تادیبی کاروائیاں ،ان کے نتائج ،انصاف کا کیا بنا کسی کو کچھ خبر نھیں ۔تعلیمی اداروں سے متعلقہ گزشتہ دن کی تین خبریں جنھوں نے دماغ کو جکڑے رکھا اور دل مغموم رہا۔وہ لاہور کے دو بڑے سرکاری تعلیمی اداروں کی اور ایک نجی بڑے ادارے کی خبر ہے۔سرکاری یونیورسٹیوں کی خبریں اپنی جزیات سمیت ڈنکے کی چوٹ پہ میڈیا کا حصہ رہیں،جیل روڈ پہ طالبات کا سٹاف کی طرف سےجنسی حراسانی کے خلاف زبردست احتجاج بھی ہوا۔جس کے لیے پھر انکوائری کمیٹیاں بنیں گی اور چند دن بعد معاملہ ٹھپ ہو جاے گا اور عین ممکن ہے کہ آج کے احتجاج میں لیڈ کرنے والی طالبات کو الٹاتادیبی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑے!. مگر دوسرا بڑا واقعہ پنجاب گروپ آف کالجز کا ہے جہاں چار دن پہلے ایک طالبہ کا ریپ ہوا وقوعے کو دبانے کی پوری کوشش کی گیئ مگر بات طلباء طالبات میں پھیل گیئ۔جس کے ردعمل میں طلباء طالبات نے پر زؤر احتجاج کیا۔اس احتجاج کو دبانے کیلئے پہلے تو کالج کا سیکیورٹی سٹاف بچوں پہ تشدد کرتا اور دھمکاتا رہا پھر اس کی ناکامی کے بعد پنجاب پولیس کےشیر جوان اپنا فرض نبھانے آن وارد ہوے،بچوں کو دھونس دھاندلی سے خاموش کروانے کی ہر ممکنہ کوشش کی گئی مگر بچوں نے بہرحال اپنا فرض نبھایا اپنی آواز بہادری سے بلند کی۔ان میں سے کچھ گرفتار ہوے کچھ پہ پرچے کٹے کچھ زخمی ہوئے ۔اس دوران الیکٹرانک میڈیا کا رول نہایت بھونڈا اورنہایت منافقانہ رہا وہ اس تعلیمی ادارے کا نام تک لینے سے گریزاں رہے۔یعنی ایک طرف سے ایک نہایت منظم انداز میں ظلم و ستم جاری رہا اور دوسری طرف صرف بچے سامنا کرتے رہے جنھیں مستقل تباہ کردینے کی شدید دھمکیاں بھی دی جارہی تھیں اور بہت ساروں کا اس مزاحمت کے نتیجے میں تعلیمی حرج ہونے ،کالج سے نکال دیے جانے کا اندیشہ موجود ہے۔ سوال یہ ہے ان مسائل کا حل کیا؟ ان مسائل کا پہلا حل ان تعلیمی اداروں میں طلباء یونین کی بحالی ہے۔ نمبر 2۔ ان اداروں میں احتساب کے عمل کیلیے ایسی کمیٹیاں جن میں طلباء ،والدین اور سرکار کی نمائندگی ہو قائم کی جائیں۔ 3۔۔ان تعلیمی اداروں کی فیسوں کا کوئ ایسا میکنزم بنایا جائے کہ جس میں زیادہ سے زیادہ فیس کی ایک حد مقرر کی جائے اور فیسوں کو کم ازکم پچاس فیصد تک کم کیا جائے ۔ 4۔ڈسپلن کے نام پہ بچوں کو ذہنی تشدد سے بچایا جائے ۔ 5۔ہر تعلیمی ادارے کے سیکیورٹی کیمروں کے ریکارڈ کو ڈیلیٹ کرنا جرم قرار دیا جاے۔ 6۔ان تعلیمی اداروں اور جیل کے ماحول میں فرق رکھا جاے ۔ 7۔ہر تعلیمی ادارے میں کم ازکم 25 فیصد کوٹہ محنت کشوں کے بچوں کا رعایتی فیسوں کے ساتھ داخلہ ہو۔ مگر ان مطالبات اور ان جیسے دیگر کئی مطالبات کے لیے سرتوڑ جدوجھد کی ضرورت ہے۔ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جس کا حصہ طلباء مزدور ،کسان اور وسیع تر عوام ہوں۔اگر یہ سب نھیں ہوتا تو یہ تعلیمی ادارے نھیں بلکہ ظلمت کدے ہی رہیں گے۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

نیرو اور بانسری 

تحریر ۔ نادر علی شاہ پاکستان کے موجودہ حالات جو پچھلے پانچ سال سے چل رہے ہیں، جس میں سب سے سنجیدہ اور المناک حالت معیشت کی ہے اور کسی کی نہیں۔ گزشتہ حکومت نے انتخابات سے قبل عوام کو جو حسین خواب دیکھائے ان میں سے کسی کا بھی پورا نہ ہونا گزشتہ حکومت کی ناکامی اور نا اہلی میں شمار ہوتا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بلند وبالا دعوے کیے گئے اور لوگوں میں ایک امید پیدا کی گئی لیکن جب ان دعووں اور وعدوں کو پورا کرنے کا وقت آیا تو مختلف بہانوں سے اپنی کارکردگی پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوششیں کی گئیں۔2018 کے الیکشن کے بعد نئی آنے والی انتظامیہ انتہائی درجے کی لاپرواہ، نااہل، نا تجربہ کار اور ناکارہ ثابت ہوئی ۔ گزشتہ حکومت کی نااہلی اور بروقت فیصلے نہ لینے کی وجہ سے ملکی معاشی معاملات بد سے بدترین ہوتے چلے گئے ساتھ ہی ساتھ آئی ایم ایف سے معاہدے میں بھی دیر کر دی گئی جس سے ملکی معیشت کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی ہوئی اور سرمایہ کاری کو بھی دھچکا لگا۔ پاکستان کی اسٹاک ایکسچینج میں بھی مسلسل مندی کا رجحان شروع ہوگیا اور ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا جس سے مہنگائی میں ہوشربا اضافے کے ریکارڈ قائم ہو گئے۔ اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرنے لگیں ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بہت اضافہ دیکھنے کو ملا اور بجلی کی قیمتوں میں بھی آئے روز اضافہ ہونا شروع ہو گیا ۔ بجٹ خسارہ، بیرونی ادائیگیوں کو پورا کرنے کے لیے بے شمار ٹیکسز لگائے گئے دوسری طرف آئی ایم ایف بھی مہنگائی اور بڑھتے ہوئے ٹیکسوں کی بڑی وجہ تھا۔ ایک طرف مہنگائی نے لوگوں کا جینا مشکل کیا ہوا تھا تو دوسری طرف روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے، بلکہ بہت سی انڈسٹری بند ہونے کی وجہ سے مزید بیروزگاری میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ اس ساری صورتحال کے دوران سیاسی دھینگا مشتی جاری رہی اور سیاسی طور پر ملک میں استحکام نہ آ سکا۔ سیاسی جماعتیں اس اثناء میں اپنی سیاست چمکانے اور کرسی کی لالچ میں پڑیں رہیں۔ ملک ڈوبتا رہا اور ہمارے پیارے ملک کے سیاسی نیرو اپنی بانسری بجا رہے تھے اور انہیں اس بات کی ذرا بھر فکر نہیں تھی کہ ملک جل رہا ہے ۔ یہاں آپ کو میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس صورتحال کا صرف سیاستدانوں کو قصوروار ٹھہرانا بھی درست نہیں۔ اس موجودہ صورت حال میں ہماری اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے آنے والے فیصلے ، اسٹیبلشمنٹ یعنی جنرلز کی بے جا سیاسی معاملات میں مداخلت ، بیوروکریسی کی بدعنوانیاں بھی شامل حال رہی ہیں ۔ ابھی عام آدمی کے زخموں کی مرہم پٹی بھی نہیں ہوئی تھی کہ عمران انتظامیہ کی بساط تحریک عدم اعتماد کے ذریعے لپیٹ دی گئی اور شہباز شریف انتظامیہ تیرہ جماعتوں کی زیر نگرانی میں مسند اقتدار پر براجمان ہوگئی۔ اقتدار سے الگ ہوتے ہی عمران خان نے بھی تہیہ کرلیا کہ شہباز شریف انتظامیہ کو کسی صورت چلنے نہیں دیا جائے گا۔ تو پھر کیا تھا کہیں جلسے ہو رہےہیں تو کہیں دھرنے ہو رہےہیں۔ تیمور جھگڑا اور شوکت ترین نے تو باقاعدہ آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات کو ہی ثبوتاز کرنے کی مذموم کوشش کی۔ لیکن جو بھی ہے حکومت اور اپوزیشن کی اس دھینگا مشتی میں فٹبال تو عوام ہی بنی ہوئی تھی۔ اس فٹبال کو کبھی تو حکومت سے ٹھڈے پڑ رہے تھے اور کبھی اپوزیشن کی جانب سے۔ اس سارے کھیل میں کسی کا فالودہ بنا یا کچومر نکلا ہے وہ عوام ہے ۔ شہباز شریف انتظامیہ کو لے کر آنے کا مقصد یہ تھا کہ بگڑے ہوئے معاملات کو بہتر کیا جائے اور لوگوں کو بھی سہولت دی جائے لیکن جہاں یہ فیصلے ہوتے ہیں ان سے ایک بار پھر حساب کتاب میں گڑبڑ ہو گئی تھی کیونکہ ملکی معاشی معاملات دن بہ دن بد سے بدتر ہوتے چلے گئے اور عوام کے پہلے زخم مندمل بھی نہ ہوئے تھے کہ پھر مہنگائی اور بے روزگاری کے زخم زیادہ شدت سے لگا دیئے گئے ۔ ملک پاکستان کو دنیا کے تیسرے مہنگے ترین ملکوں کی فہرست میں شامل کردیا ۔ 14 فیصد مہنگائی 40 فیصد تک پہنچ گئی ، اور عام لوگ مرتے کیا نہ کرتے، اس مہنگائی میں خاموشی کے ساتھ پس رھے ھیں ۔ آئی ایم ایف سے معاہدے ہونے کے بعد حکومت کی جانب سے مزید ٹیکسز لگائے جا چکے ہیں جس سے مزید مہنگائی ہوگی۔ اللّٰہ اللّٰہ کرکے کُچھ معاشی اشاریے مثبت آنے شروع ہوئے ، جس میں مہنگائی کی شرح میں کمی ، آئی ایم ایف قرضہ کی منظوری ، ڈالر کا استحکام ، پٹرولنگ مصنوعات کی قیمتوں میں استحکام ، اسٹاک ایکسچینج میں تاریخی ریکارڈ اضافے کا رجحان ، کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ شامل ہیں ۔ رواں ہفتے اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کی کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ کا 23واں اجلاس ہو رہا ہے، جس کی سربراہی وزیرِاعظم شہباز شریف کریں گے۔ اس اجلاس میں چین، روس، بیلاروس، قازقستان، کرغزستان، اور تاجکستان کے وزرائے اعظم شرکت کریں گے، جبکہ ایران کے نائب صدر اور انڈیا کے وزیر خارجہ بھی شریک ہوں گے۔ منگولیا کے وزیر اعظم بطور مبصر اور ترکمانستان کے وزیر خارجہ خصوصی مہمان ہوں گے۔ ایک طرف تو شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہے تو دوسری طرف عمران خان صاحب کے حواری نے انہیں تواریخ میں احتجاج کا اعلان کیا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت شہباز شریف کے مہمان ہیں؟ نہیں! بلکہ وہ سب پاکستان کے مہمان ہیں۔ ان کی آمد پر احتجاج حکومت کے خلاف نہیں ہے بلکہ پاکستان کے خلاف ان جیسے عناصر کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ خدارا اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر ایسے ہتھکنڈوں سے اجتناب کریں کیونکہ ملکی ترقی صرف اور صرف سیاسی استحکام کے ساتھ پیوند ہے۔ سیاسی اختلافات کو سڑک کے بجائے افہام وتفہیم کے ساتھ مذاکرات کی میز پر حل کیا جائے۔ کیونکہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا تب تک ملک

دنیا بدل رہی ہے!

تحریر: کامریڈ عرفان علی جماعت اسلامی کے امیرحافظ نعیم کا آج کےاخبار میں بیان چھپا ہے کہ،،ہمارے ہاں چند لوگوں کو بھارت سے دوستی کے مروڑ اٹھ رہے ہیں،، یہ بیان دراصل جماعت اسلامی کا روایتی سیاسی بیانیہ ہے اور یہ بیانیہ ہی ثابت کرتا ہے کہ جماعت اسلامی کن کے اشاروں پہ سیاسی لائینیں اپناتی ہے؟اور کس قدر عوامی و جمہوریت پسند جماعت ہے؟ مگر اب شاید وہ زمانہ نھیں رہا جب نفرت کا چورن تھوک کے حساب پہ ٹھوک بجا کے بکتا تھا۔اب معاشی و عالمی سیاسی حالات کسی اور ڈھب سے،کسی اور انداز میں چلانا مجبوری ہو گی۔اپ کو فرضی دشمنوں کی بجائے ،بارڈر پار کے دشمنوں سے زیادہ اندرونی دشمنوں کے صفاے کی ضرورت ہے۔یعنی رجعت پسندی ،فرقہ ورایت کے خاتمے کی ضرورت ہے۔جنگی اخراجات کی بجائے ،بڑھتی ہوئی مہنگائی و بیروزگاری کے خلاف عملی اقدامات یعنی سماجی ترقی کی ضرورت ہے۔آئی ایم ایف و ورلڈ بنک کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے سوچنے کی ضرورت ہے۔علاقائی امن و تجارت کی پالیسیاں ہی اس مستقل معاشی بحران سے نکال سکتی ہیں۔اب انڈیا سمیت تمام ہمسایوں سے بہتر تعلقات کے ذریعے ہی آپ درپیش مسائل سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔حافظ صاحب جن کی زبان بول رہے ہیں بہت جلد انھیں بھی یہ سوچنا پڑے گا کہ اب جنگی جنون و جہالت پاؤں کی بیڑیاں بن چکی ہیں۔یہ بیڑیاں وہ خود توڑیں گے جنھوں نے ان زنجیروں کی چھنکار سے لطف اٹھاے ہیں۔لہذا حافظ صاحب اب آپ کی سیاست اور آپ کے مربعیوں کی رجعتی سیاست زیادہ دیر نھیں چل سکے گی۔اگرچہ یہ بہت آسانی سے ممکن نھیں ہو گا مگر یہی واحد راستہ ہے جو خوشحالی کی منزل کو جاتا ہےدوسرے سب راستے تباہی ،بربادی اور انارکی کی طرف جایئں گے۔ آپ کب تک ملک کو پاگلوں کے سپرد رکھ سکتے ہیں یہ روش اب نھیں چلے گی۔عالمی حالات کا بھی یہی تقاضا ہے اور مقامی مسائل کا حل بھی یہی ہے۔اپ زیادہ دیر ملک کو بند رکھ کر آگے نھیں بڑھ سکتے۔آپ تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب جیسی رجعتی شہنشاہیت کو دیکھ لیں وہ بھی نئے زمانے کے مطابق ڈھلنے پہ مجبور ہو گی ہے۔اپ کس کھیت کی مولی ہیں؟ جتنی جلدی آنکھیں کھولو گے تباہی سے بچو گے ورنہ تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں ۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

ایسا کب ہوگا؟

 تحریر: نادر علی شاہ اگر ہم کسی بھی چیز کی اہمیت کے حوالے سے مشاہدہ کریں تو ایک بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ اس کائنات میں انسانی زندگی سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں۔ جس کا حوالہ قرآن مجید میں بھی اس مفہوم کے ساتھ ملتا ہے کہ جس نے ایک بے گناہ انسان کا قتل کیاگویا اس نے ساری انسانیت کا قتل کیا اور جس کسی نے ایک انسان کی زندگی بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کی زندگی بچائی ۔ انسانی زندگی کی اہمیت جاننے کے باوجود دنیا کے بہت بڑے بڑے تنازعات بھی کسی نہ کسی انسانی جان کے ضیاع کے بعد شروع ہوئے اور جس نے تاریخ کا مکمل طور پر رخ ہی بدل دیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ جن قوموں ، گروہوں ، قبیلوں اور خاندانوں نے درگزر کیا، انسانی جانوں کو اہم سمجھا انہوں نے انتقام کو دبایا اور اپنے تنازعات کے حل کی بات کی اور تاریخ نے ثابت کیا ایسے قبیلوں اور قوموں نے تعمیر وترقی اور خوشحالی کی دنیا میں مثالیں قائم کیں اور آج بھی ان کا دنیا میں طوطی بولتا ہے ۔ اب میں یہاں اپنے موقف کو تقویت دینے کے لیے کچھ مثالیں پیش کروں گا ۔ ہمارے قریبی گاؤں میں آج سے پچاس سال پہلے دو خاندانوں، جو کہ صاحب حیثیت جاگیر دار بھی تھے میں بچوں کی لڑائی سے شروع ہونے والا تنازع اس قدر شدید ہوا کہ ایک فریق کا ایک فرد لڑائی کے دوران جانبحق ہوگیا۔ مقتول فریق اب کہاں صبر اور برداشت کرنے والا تھا ان میں تو انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ اگلے ہی دن انہوں نے بھی مخالف فریق کا ایک فرد قتل کر دیا اور اس طرح دونوں خاندان پولیس اور عدالتی کارروائی سے بچنے کے لیے مفرور ہوگئے جس سے ان کی خواتین اور بچے رل گئے۔ زمینیں بنجر ہو گئیں اور مال مویشی کوڑی کے بھاؤ بک گئے ۔ تیس سال تک دونوں خاندان ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں ملوث رہے اور ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے۔ ایک خاندان کے آٹھ اور دوسرے کے دس افراد اس انتقامی آگ کا ایندھن بنے۔ اتنا جانی نقصان دیکھ کر ایک خاندان کے دل میں انسانی زندگی کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور انہوں نے دوسرے خاندان کو صلح کی پیشکش کی ۔ دوسرا خاندان بھی اتنی لمبی دشمنی اور جانی نقصان سے تھک چکا تھا لہذا انہوں نے بھی اس پیشکش کو قبول کرلیا ۔ یقین مانیے اب گزشتہ بیس سال سے دونوں خاندان خوشحال بھی ہو گئے ہیں ، ان کے بچے تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں اور ان کی زندگی میں سکون بھی آگیا ہے ۔ اب یہاں میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی مثال دوں گا۔ پہلی جنگ عظیم 1914 سے شروع ہو کر 1918 تک جاری رہی اور دوسری جنگ عظیم ستمبر 1939 سے شروع ہو کر ستمبر 1945 تک جاری رہی ۔ میں یہاں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا بس آپ کو اتنا بتا دوں کہ جنگ عظیم اول آسٹریا ہنگری کے تخت نشین ہونے والے شہزادے آرچ ڈیوک فرانز فرڈیننڈ کے قتل سے شروع ہو کر 2 کروڑ لوگوں کی اموات اور 2 کروڑ دس لاکھ کے شدید زخمی ہونے پر ختم ہوئی۔ اسی طرح جنگ عظیم دوم کے شروع ہونے میں بھی زیادہ تر وجوہات جنگ عظیم اول، ورسلز معاہدہ کی شرائط ، لیگز آف نیشنز کی ناکامی، معاشی معاملات اور ایڈولف ہٹلر تھا۔ جنگ عظیم دوم جرمنی کے پولینڈ پر حملے سے شروع ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا یورپ ، افریقہ ، مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ بھی اس میں شامل ہوگئے ۔ امریکہ پہلے پہل تو اتحادیوں کی بلا واسطہ فوجی امداد کر رہا تھا لیکن جاپانی ہوائی فورس کے امریکی ساحلی علاقے پرل ہاربر پر حملے کے بعد امریکہ بھی جنگ میں عملی طور پر 1941 میں شامل ہو گیا جس سے اتحادیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا ۔ جنگ عظیم دوم میں ایک طرف جرمنی، ترکی، اٹلی اور جاپان تھا تو دوسری طرف اتحادی جس میں انگلینڈ، فرانس، روس اور امریکہ شامل تھے ۔ جنگ عظیم دوم میں 7 کروڑ سے لیکر 8.5 کروڑ لوگوں کی اموات کا اندازہ لگایا جاتا ہے ۔ جنگ عظیم دوم کا خاتمہ ، جاپان کے دو شہروں ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹمی بم گرانے کے بعد ہوتا ہے۔ جرمنی، ترکی، اٹلی پہلے ہی شکست مان چکے تھے صرف جاپان اپنی شکست ماننے کو تیار نہیں تھا ۔ اس ایٹمی حملے کے بعد جاپان نے بھی اپنی شکست تسلیم کر لی ۔ اس قدر وسیع پیمانے پر انسانیت کے قتل، معاشی نقصانات ، انتقام اور نفرت سے بھرے ہوئے، اور ہر طرف پھیلی ہوئی مایوسی کے باوجود جیتنے والے بھی اور ہارنے والے بھی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اکٹھے بیٹھے اور تنازعات کے حل پر بات چیت شروع ہوئی ۔ انسانیت کی بقاء کی خاطر سب کچھ بھلا کر ، انتقام کی آگ کو بجھا کر اور ہاتھ سے ہاتھ ملا کر ، آگے بڑھنے کا اعادہ کیا گیا اور آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سب کچھ برباد ہونے کے باوجود انہوں نے دل صاف کیے اور مل کر کام کرنے کو ترجیح دی تو آج وہ قومیں ہر میدان میں کہاں سے کہاں پہنچ گئیں ۔ یہ مثالیں دے کر میں جس نقطہ پر آپ کو لانا چاہ رہا تھا وہ ہے پاک بھارت تنازعات ۔ ہماری تہذیب، تمدن ، نسل، رہن سہن ، رسم و رواج، سب مشترک ہے۔ صرف 1947 کا ایک واقعہ پیش آیا جس میں دو ملک علیحدہ علیحدہ شناخت کے ساتھ دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے اس کے نتیجے میں فسادات بھی ہوئے، قتل و غارتگری بھی ہوئی لیکن اس سب کے باوجود جانی و معاشی نقصان کی شرح وہ نہیں تھی جو جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم میں تھی۔ سوال یہ ہے کہ یورپ جنگ عظیم اول اور دوم میں کروڑوں انسانی جانوں کے ضیاع اور کھربوں کے معاشی نقصانات اور انفراسٹرکچر کی مکمل تباہی کے باوجود دوبارا سے یہ ممالک ترقی کی منازل طے کر سکتی ہیں اور اپنے

نبی کریم کی تعلیمات اور خوبصورت معاشرہ

کالم:میری بات/روہیل اکبر نبی کریم حضرت محمدﷺ کا یوم ولادت ہم نے پورے دھوم دھام سے منایا بطور مسلمان ہم پر فرض ہے کہ ہم آپ کی بتائی ہوئی باتوں پر مکمل عمل کریں انکی زندگی ہمارے لیے ضابطہ حیات ہے لیکن ہم نے اس پر عمل نہیں کیا آپ ﷺ نے جھوٹ اور چوری سے منع کیا لیکن ہم تو کیا ہمارے حکمران بھی جھوٹے وعدے کرنے سے باز نہیں آتے الیکشن سے پہلے جتنے بھی وعدے کیے جاتے رہے ان میں سے کوئی ایک بھی پورا نہیں ہواور بطور مسلمان ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم جھوٹ پر جھوٹ بول کر دھوکہ دہی سے اقتدار حاصل کرلیں اور پھر اپنے وعدوں سے مکر جائیں یہی وجہ ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب کہیں نہ کہیں سے خودکشی کی خبر نہ آتی ہو لوگ مہنگائی کے ہاتھوں اس قدر پریشان ہیں کہ انہیں سوائے موت کے اور کوئی دوسرا راستہ نظر ہی نہیں آتا خاص کر جب سے ملک میں بجلی کی قیمتیں بے قابوہوئی ہیں تب سے لوگ اپنی جان دینے پر تلے ہوئے شکر ہے کہ وہ کسی اور کی جان نہیں لے رہے وزیرِاعلی پنجاب مریم نواز کی طرف سے بجلی کے بلوں میں 14 روپے فی یونٹ ریلیف کے معاملے پربھی مکمل طور پر عمل درآمد نہ ہو سکا وزیراعلی پنجاب کی جانب سے بجلی کے بلوں میں 14 روپے فی یونٹ ریلیف صرف سنگل فیزمیٹر صارفین تک محدود ہوکر رہ گیا تھری فیزمیٹرصارفین اس ریلیف سے محروم ہیں مہنگائی کا عذاب تو ہمارے گلے پڑا ہی ہوا ہے ساتھ میں ہماری جہالت بھی اپنے عروج پر ہے ہم جتنے مرضی پڑھ لکھ جائیں لیکن جو معاشرہ ہمنے تشکیل دیدیا ہے اس میں رہ کر جاہل ہی رہیں گے ہمارے ان پڑھ اور کم پڑھے لکھے لوگ جب کسی ترقی پذیر ملک میں جاتے ہیں تو وہ بھی انہی کے رنگ میں ڈھل جاتے ہیں پھر جب وہ کچھ عرصہ بعد پاکستان واپس آتے ہیں تو انہیں ہمارا یہ معاشرہ عجیب سا لگتا ہے جبکہ حکومتی خرچ پر باہر سے پی ایچ ڈی کرکے وپاس پاکستان آنے والاڈاکٹر بھی کچھ عرصے بعد ہمارے معاشرے کے رنگ میں ڈھل کر جاہلوں کا ساتھی بن جاتا ہے ہمارے ملک میں رہنے والے تمام کے تمام پی ایچ ڈی اورپروفیسرصاحبان کی کارکردگی اور خدمات کا جائزہ لیا جائے تو نتیجہ صفر نکلتا ہے یہ پڑھے لکھے ذہن بھی یہاں رہ کر بانجھ بن جاتے ہیں جن سے ملک کو کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی قوم کو کچھ ملتا ہے ہاں انکے نام کے ساتھ ڈاکٹر اور پروفیسر کا اضافہ ضرور ہوجاتا ہے ہمارے معاشرے میں تبدیلی اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ہر شخص تعلیم یافتہ اور مہذب نہیں ہوگا کیونکہ تعلیم انسان کو مہذب بناتی ہے حضور پاک ﷺکی تعلیمات ہمیں اخلاقیات، خود احتسابی اور مساوات کا درس دیتی ہیں جبکے انکے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق علم کے بغیر متوازن معاشرے کی تشکیل ناممکن ہے اسلام میں علم حاصل کرنے پر بہت اہمیت دی گئی ہے تعلیم حاصل کرنا ہر فرد کیلئے ضروری ہے اور اس کیلئے اقدامات کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے آج پاکستان میں ہمیں تعلیم کے شعبے میں بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے تعلیمی ادارے موجود ہیں لیکن تربیت کا فقدان ہے ملک میں تعلیمی نظام کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تعلیم کا نظام سیرت النبی کی روشنی میں ترتیب دیا جائے تاکہ ہماری نسلیں نہ صرف علم سے بہرہ مند ہوں بلکہ ان کی تربیت بھی اسلامی اصولوں کے مطابق ہو زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقیات کا نفاذ کسی بھی معاشرے کے علمی لیول اور نظام تعلیم کی کامیابی کا تعین کرتی ہے جس سے ہم ابھی تک بہت دور ہیں سیرت النبی ﷺ ہمارے نصاب اور زندگی کا حصہ ہونی چاہیے یہ تب ہی ممکن ہو سکے گا جب ہمیں آپ ﷺ کی زندگی کا علم ہوگا اورعلم ہی وہ روشنی ہے جو ہدایت کی راہ دکھاتی ہے علم اور تقویٰ کی دولت سے مزین لوگوں کو ہی قرب الہٰی نصیب ہوتا ہے علم کا حصول دینی فرض ہے آپ ﷺ پر نازل پہلی وحی میں تعلیم کی فضیلت اور اہمیت کو واضح کیا گیا علم ہی وہ روشنی ہے جو انسان کو نیکی اور بدی میں تمیز سکھاتی ہے بنیادی دینی تعلیم ہر مسلمان کیلئے لازم ہے تعلیمی نظام کو جدید سائنسی علوم پر مبنی ہونا چاہیے ماضی میں عرب سے چین جانا تو ایک خواب ہی ہوتا ہوگا، نبی پاک ﷺ نے فرمایا تھا علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے اسلام نے ہمیں بہترین نظام زندگی دے رکھا ہے لیکن ہم نے اس پر عمل کرنے کی بجائے دوسروں کے نظام اپنا رکھے ہیں جبکہ غیر اسلامی ممالک میں انصاف پر عمل کیا جاتا ہے جہاں انصاف کی وجہ سے ترقی،خوشحالی اور کامیابیوں کے راستے کھلے ہوئے ہیں ہمیں اسلام کے بنیادی اصولوں پر رہتے ہوئے اس خلا کو پر کرنا ہے اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک ہم اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے سرکار دو عالم ﷺ کی حیات پاک کا مل نمونہ ہے دینی تعلیم کے ساتھ نبی کریم نے دنیاوی تعلیم کو بھی خاص اہمیت دی اسلامی ریاست میں تعلیم صرف ایک نعمت ہی نہیں بلکہ ہر شہری کا بنیادی حق بھی ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، کسی بھی سماجی حیثیت سے رکھتا ہو یہ ریاست کا کام ہے کہ اسلامی اصولوں پر مبنی تعلیمی نظام کو یقینی بنائے کہ ہر فرد کو معیاری تعلیم حاصل ہو اور جو اسے ایک ذمہ دار شہری کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنائے ریاست کا تعلیمی نظام قرآن کی تعلیمات اور حضرت محمد ﷺ کی سیرت سے اخذ کرنا چاہئے علم کے حصول کو بنیادی حق کے طور پر فروغ دینا چاہئے تعلیم کے جامع نظریے کو اپنا نصب العین بنانا چاہئے اخلاق اور ترقی کو ترجیح دینی چاہئے، سماجی مساوات و انصاف کو فروغ دینا چاہئے، نبی کریم ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے ایک اسلامی ریاست ایک ایسی تعلیم یافتہ منصفانہ اور اخلاقی طور پر مضبوط معاشرے پر قائم ہونی چاہئے