تحریر:انجینئر ہشام علی

اسلام میں منافق انسان کی چار نشانیاں بیان کی گئی ھیں۔

1 جب وہ بات کرتا ھے تو جھوٹ بولتا ھے۔ 2 جب وعدہ کرتا ھے تو وعدہ خلافی کرتا ھے ۔3 جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جاتی ھے تو اس میں خیانت کرتا ھے۔ 4 علما کرام چوتھی نشانی یہ بتاتے ھیں کہ جب اس کا کسی سے جھگڑا ھوتا ھے تو وہ گالیاں دینے لگتا ھے۔

آج تیسری نشانی امانت میں خیانت پہ کچھ تحریر کرنے کا ارادہ رکھتا ھوں۔

ھم عام طور پہ جس کو خیانت سمجھتے ھیں وہ ھے مال و دولت میں خیانت کرنا لیکن یہ صرف مال و متاع تک محدود نہیں ھے اس کے اور بھی بہت سے پہلو ھیں جس میں سے چند ایک یہ ھیں کہ

ایک پہلو جسے ھم سب جانتے پہچانتے ھیں وہ ھے مال و دولت کی امانت اور اس میں خیانت کا مرتکب ھونا۔

اس پہ بات نہیں کروں گا کیونکہ سبھی اس سے اچھی طرح واقف ھیں۔

دوسرا پہلو ھے فرائض منصبی میں خیانت کا مرتکب ھونا۔ یعنی جو کوئی دوسرا آپ کو فرائض تفویض کرتا ھے مطلب یہ کہ آپ کی کسی کام کو انجام دینے کی ڈیوٹی لگاتا ھے جس کے عوض وہ آپ کو معاوضہ یا تنخواہ دیتا ھے۔

ان فرائض کو ادا کرنے کےلیے آپکو کچھ اختیارات بھی ملتے ھیں وہ اختیارات آپ کے پاس اپنے باس یا مالک کی طرف سے امانت ھوتے ھیں جسے وہ کسی بھی وقت واپس بھی لے سکتا ھے۔ اور آپ ان کا ناجائز فائدہ اٹھا کر یا انکا غلط استعمال کر کے امانت میں خیانت کے مرتکب بھی ھو سکتے ھیں۔

مثال کے طور پہ آپ کسی فرم میں کام کرتے ھیں جہاں آپ نے ورکرز سے کچھ کام کروانے ھیں۔ اس کےلیے وہ فرم آپ کو اختیار دیتی ھے کہ اگر کوئی ورکر کام صحیح نہ کرے یا آپ کی بات نہ مانے تو آپ اسے نوکری سے نکال سکتے ھیں یا اسے کوئی جرمانہ کر سکتے ھیں۔ اگر تو آ پ اس اصول کے عین مطابق اس اختیار کا استعمال کرتے ہیں تو آپ نے اس امانت کا حق ادا کیا ھے۔ اور اگر آپ نے کسی ورکر سے کسی ذاتی رنجش یا ناپسندیدگی کی بنیاد پر یا کسی اپنے رشتے دار و دوست کو جاب دلوانے کی غرض سے ورکر کو جاب سے فارغ کردیا تو یہ آپکی اس اختیار کی امانت میں خیانت ھوگی۔

علی ہذالقیاس آپ اس اصول کے تحت خود اپنا احتساب کر سکتے ہیں کہ آپ اختیارات کی امانت میں کہیں خیانت تو نہیں کر رھے؟

تیسرا پہلو ووٹ کی امانت کا ھے ۔

الیکشن کا مطلب ہوتا ھے انتخاب اور انتخاب بذریعہ ووٹ

اور ووٹ آپ کے پاس امانت ھے جسے آپ نے اس کے اہل حق دار تک پہنچانا ھے۔

اب یہاں پہلا سوال یہ ھے کہ

ووٹ امانت کیسے ھے؟ دوسرا سوال کہ

ووٹ کو امانت کیوں کہا جاتا ھے؟

تیسرا سوال یہ ھے کہ

جس کو ووٹ دیا جائے وہ آپ کے اس ووٹ کا اہل ھے یا نہیں اسکا کیسے پتہ چلے گا؟

ان تمام سوالوں کے باری باری جواب سے پہلے ایک سوال یہ بھی ھے کہ

آخر ھم ووٹ دیتے ہی کیوں ھیں؟

پہلے اس آخری سوال کے جواب کی طرف آتے ھیں۔

اسکا جواب نہایت ہی سادہ اور عام فہم ھے کہ کسی ایک یا زائد سیاسی پارٹیز کو امور مملکت یعنی پورے ملک کا انتظام و انصرام چلانے کا اختیار دینے کےلیے ووٹ دیا جاتا ھے۔ کیونکہ ویسے تو ہر بندہ ہی صدر وزیراعظم اور وزیر مشیر بننا چاہتا ھے اور طاقت و اختیار کا مالک بننا چاہے گا۔ لیکن پاکستان کے آئین میں یہ واضح طور پہ لکھا ھے کہ اصل حاکمیت و بادشاہت اللہ تعالی کی ہی ھے اور اسی کی ہی رھے گئی۔ مگر امور مملکت کو چلانے کےلیے چونکہ اسباب کی ضرورت ھے۔ اور یہ دنیا اسباب کی دنیا ھے۔ لہذا اس لیے اللہ کے بعد اس ملک کے حقیقی وارث و مالک پاکستان کی عوام ھو گی اور پاکستان کی عوام متفقہ طور پہ جس کو امور مملکت چلانے کےلیے قابل اور اہل سمجھے گی اس کو ووٹ کے ذریعے اقتدار سونپا جائے گا اور تمام بادشاہت و حکومت کرنے کے اختیارات اس کو بطور امانت مل جائیں گے اور وہ حکمران ان اختیارات کو ملک و قوم کی بھلائی ترقی و خوشحالی کےلیے ہی استعمال کرنے کا حق رکھتا ھے نہ کہ کسی ذاتی و گروہی مفاد کےلیے۔ لہذا اس لیے کسی بھی جمہوری ملک کی عوام اپنے حکمران منتخب کرنے کےلیے ووٹ ڈالتے ھیں اس کے نتیجے میں منتخب ھونے والے نمائیندے عوامی نمائیندے کہلاتے ھیں کیونکہ ان کو عوام کی تائید حاصل ھوتی ھے۔ پھر ان عوامی نمائندوں پہ مشتمل قومی و صوبائی اسمبلیاں تشکیل پاتی ھیں،

صدر و وزیراعظم اور کابینہ کا انتخاب ھوتا ھے اور یوں امور مملکت ایک عوام کی منتخب کردہ حکومت چلانے لگتی ھے ۔ اس سارے عمل کو ایک لفظ میں "جمہوریت” کہتے ھیں۔

اب آتے ھیں ان سوالوں کی طرف کہ

ووٹ امانت کیسے ھے؟ اور اسے امانت کیوں کہا گیا ھے؟ جس کو ووٹ دیا ھے کیا وہ میرے ووٹ کا حقدار ھے یا نہیں ؟

تو ان سوالوں کا جواب بھی بہت ہی سادہ اور عام فہم ھے کہ جیسے اوپر ووٹ دینے کا مقصد بیان کیا گیا ھے کہ اہل و قابل اور ایمان دار حکمرانوں کا انتخاب کرنے کےلیے ووٹ دیا جاتا ھے۔ لہذا آپ کا” ووٹ امانت” اس لیے ھے کہ آپ اپنے اس ووٹ کو صرف اور صرف ملک و قوم کے بہترین مفاد میں کام کرنے والے اشخاص یا پارٹی کو ہی دے سکتے ھیں۔ جو اہل بھی ھوں اور قابل بھی، ایمان دار بھی ھوں اور خود دار بھی اور ملک و قوم کا درد و احساس بھی رکھنے والے ھوں ۔ صرف اور صرف یہی لوگ ہی آپ کے ووٹ کی امانت کے صحیح حقدار ھیں ۔ اگر آپ ان خصوصیات کے حامل لوگوں کے مقابلے میں ان لوگوں کو ووٹ دیتے ھیں جو نااہل، نالائق ، کرپٹ، بددیانت اور ملک و قوم کے مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ھیں تو آپ نے امانت میں خیانت کی ھے کیونکہ آپ نے امانت اس کے سپرد نہیں کی جس کی وہ تھی یا یوں کہہ لیجئے کہ

آپ کا "ووٹ” اہل، قابل، ایماندار اور محب وطن رہنما کا ‘حق” ھے اور آپ نے نالائق و نااہل بد دیانت کو دے کر اس کی حق تلفی بھی کی اور امانت میں خیانت بھی۔

اس کا خمیازہ ووٹ دینے والے کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو بھی بھگتنا پڑتا ھے۔ جیسے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح رحمت اللہ علیہ نے اپنے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران خطاب کرتے ھوئے فرمایا تھا کہ

"یہ ووٹ آپ کے ہاتھ میں امانت ھے اور مجھے امید ھے کہ آپ اس ووٹ کو ایک امانت سمجھ کے ملک کے فائدے اور قوم کے فائدے کےلیے استعمال کرنا۔

نہ کہ کسی اور چیز کےلیے۔ اگر آپ یہ نہیں کریں گے تو نہ صرف قوم کو مصیبت اٹھانا پڑے گی بلکہ آپ لوگوں کو بھی”۔

نشر مکرر

مئی 2023

انجینئر ہشام علی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے