تحریر: کامریڈ عرفان علی
جماعت اسلامی کے امیرحافظ نعیم کا آج کےاخبار میں بیان چھپا ہے کہ،،ہمارے ہاں چند لوگوں کو بھارت سے دوستی کے مروڑ اٹھ رہے ہیں،،
یہ بیان دراصل جماعت اسلامی کا روایتی سیاسی بیانیہ ہے اور یہ بیانیہ ہی ثابت کرتا ہے کہ جماعت اسلامی کن کے اشاروں پہ سیاسی لائینیں اپناتی ہے؟اور کس قدر عوامی و جمہوریت پسند جماعت ہے؟
مگر اب شاید وہ زمانہ نھیں رہا جب نفرت کا چورن تھوک کے حساب پہ ٹھوک بجا کے بکتا تھا۔اب معاشی و عالمی سیاسی حالات کسی اور ڈھب سے،کسی اور انداز میں چلانا مجبوری ہو گی۔اپ کو فرضی دشمنوں کی بجائے ،بارڈر پار کے دشمنوں سے زیادہ اندرونی دشمنوں کے صفاے کی ضرورت ہے۔یعنی رجعت پسندی ،فرقہ ورایت کے خاتمے کی ضرورت ہے۔جنگی اخراجات کی بجائے ،بڑھتی ہوئی مہنگائی و بیروزگاری کے خلاف عملی اقدامات یعنی سماجی ترقی کی ضرورت ہے۔آئی ایم ایف و ورلڈ بنک کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے سوچنے کی ضرورت ہے۔علاقائی امن و تجارت کی پالیسیاں ہی اس مستقل معاشی بحران سے نکال سکتی ہیں۔اب انڈیا سمیت تمام ہمسایوں سے بہتر تعلقات کے ذریعے ہی آپ درپیش مسائل سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔حافظ صاحب جن کی زبان بول رہے ہیں بہت جلد انھیں بھی یہ سوچنا پڑے گا کہ اب جنگی جنون و جہالت پاؤں کی بیڑیاں بن چکی ہیں۔یہ بیڑیاں وہ خود توڑیں گے جنھوں نے ان زنجیروں کی چھنکار سے لطف اٹھاے ہیں۔لہذا حافظ صاحب اب آپ کی سیاست اور آپ کے مربعیوں کی رجعتی سیاست زیادہ دیر نھیں چل سکے گی۔اگرچہ یہ بہت آسانی سے ممکن نھیں ہو گا مگر یہی واحد راستہ ہے جو خوشحالی کی منزل کو جاتا ہےدوسرے سب راستے تباہی ،بربادی اور انارکی کی طرف جایئں گے۔
آپ کب تک ملک کو پاگلوں کے سپرد رکھ سکتے ہیں یہ روش اب نھیں چلے گی۔عالمی حالات کا بھی یہی تقاضا ہے اور مقامی مسائل کا حل بھی یہی ہے۔اپ زیادہ دیر ملک کو بند رکھ کر آگے نھیں بڑھ سکتے۔آپ تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب جیسی رجعتی شہنشاہیت کو دیکھ لیں وہ بھی نئے زمانے کے مطابق ڈھلنے پہ مجبور ہو گی ہے۔اپ کس کھیت کی مولی ہیں؟
جتنی جلدی آنکھیں کھولو گے تباہی سے بچو گے ورنہ تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں ۔
کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی