تحریر: کامریڈ عرفان علی
کچھ عرصہ قبل بہاولپور یونیورسٹی کاایک شرمناک سکینڈل منظر عام پہ آیا اور کئئ دن سوشل میڈیا پہ چھایا رہا اور پھر حب روایت وہ یاداشتوں سے ظلم کی دیگرخبروں کی طرح محو ہوتاگیا،اور انکوائریاں ،تادیبی کاروائیاں ،ان کے نتائج ،انصاف کا کیا بنا کسی کو کچھ خبر نھیں ۔تعلیمی اداروں سے متعلقہ گزشتہ دن کی تین خبریں جنھوں نے دماغ کو جکڑے رکھا اور دل مغموم رہا۔وہ لاہور کے دو بڑے سرکاری تعلیمی اداروں کی اور ایک نجی بڑے ادارے کی خبر ہے۔سرکاری یونیورسٹیوں کی خبریں اپنی جزیات سمیت ڈنکے کی چوٹ پہ میڈیا کا حصہ رہیں،جیل روڈ پہ طالبات کا سٹاف کی طرف سےجنسی حراسانی کے خلاف زبردست احتجاج بھی ہوا۔جس کے لیے پھر انکوائری کمیٹیاں بنیں گی اور چند دن بعد معاملہ ٹھپ ہو جاے گا اور عین ممکن ہے کہ آج کے احتجاج میں لیڈ کرنے والی طالبات کو الٹاتادیبی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑے!.
مگر دوسرا بڑا واقعہ پنجاب گروپ آف کالجز کا ہے جہاں چار دن پہلے ایک طالبہ کا ریپ ہوا وقوعے کو دبانے کی پوری کوشش کی گیئ مگر بات طلباء طالبات میں پھیل گیئ۔جس کے ردعمل میں طلباء طالبات نے پر زؤر احتجاج کیا۔اس احتجاج کو دبانے کیلئے پہلے تو کالج کا سیکیورٹی سٹاف بچوں پہ تشدد کرتا اور دھمکاتا رہا پھر اس کی ناکامی کے بعد پنجاب پولیس کےشیر جوان اپنا فرض نبھانے آن وارد ہوے،بچوں کو دھونس دھاندلی سے خاموش کروانے کی ہر ممکنہ کوشش کی گئی مگر بچوں نے بہرحال اپنا فرض نبھایا اپنی آواز بہادری سے بلند کی۔ان میں سے کچھ گرفتار ہوے کچھ پہ پرچے کٹے کچھ زخمی ہوئے ۔اس دوران الیکٹرانک میڈیا کا رول نہایت بھونڈا اورنہایت منافقانہ رہا وہ اس تعلیمی ادارے کا نام تک لینے سے گریزاں رہے۔یعنی ایک طرف سے ایک نہایت منظم انداز میں ظلم و ستم جاری رہا اور دوسری طرف صرف بچے سامنا کرتے رہے جنھیں مستقل تباہ کردینے کی شدید دھمکیاں بھی دی جارہی تھیں اور بہت ساروں کا اس مزاحمت کے نتیجے میں تعلیمی حرج ہونے ،کالج سے نکال دیے جانے کا اندیشہ موجود ہے۔
سوال یہ ہے ان مسائل کا حل کیا؟
ان مسائل کا پہلا حل ان تعلیمی اداروں میں طلباء یونین کی بحالی ہے۔
نمبر 2۔ ان اداروں میں احتساب کے عمل کیلیے ایسی کمیٹیاں جن میں طلباء ،والدین اور سرکار کی نمائندگی ہو قائم کی جائیں۔
3۔۔ان تعلیمی اداروں کی فیسوں کا کوئ ایسا میکنزم بنایا جائے کہ جس میں زیادہ سے زیادہ فیس کی ایک حد مقرر کی جائے اور فیسوں کو کم ازکم پچاس فیصد تک کم کیا جائے ۔
4۔ڈسپلن کے نام پہ بچوں کو ذہنی تشدد سے بچایا جائے ۔
5۔ہر تعلیمی ادارے کے سیکیورٹی کیمروں کے ریکارڈ کو ڈیلیٹ کرنا جرم قرار دیا جاے۔
6۔ان تعلیمی اداروں اور جیل کے ماحول میں فرق رکھا جاے ۔
7۔ہر تعلیمی ادارے میں کم ازکم 25 فیصد کوٹہ محنت کشوں کے بچوں کا رعایتی فیسوں کے ساتھ داخلہ ہو۔
مگر ان مطالبات اور ان جیسے دیگر کئی مطالبات کے لیے سرتوڑ جدوجھد کی ضرورت ہے۔ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جس کا حصہ طلباء مزدور ،کسان اور وسیع تر عوام ہوں۔اگر یہ سب نھیں ہوتا تو یہ تعلیمی ادارے نھیں بلکہ ظلمت کدے ہی رہیں گے۔
کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی