تحریر: کامریڈ عرفان علی
سرمایہ دارانہ و جاگیر دارانہ معیشت رکھنے والی ریاستیں پونجی داروں کے مفادات کے تحفظ اور اپنے کمشنوں وغیرہ کے حساب سے پالیسیاں بناتی ہیں۔عوامی مفادات کو دیکھ کر نھیں۔ایسی ریاستیں بین القوامی معاہدوں میں بھی اسی اصول پہ کاربند رہتی ہیں کہ ان کے طبقاتی مفادات کا تحفظ کیسے ہو،ان کے کمیشن و منافع کیسےبڑھیں۔ہم دیکھ سکتے ہیں ریکوڈک معاہدہ،غیر ملکیوں کو زمینیں لیز پہ دینا ہوں،پی ٹی سی ایل بیچنا ہو،بنکوں کی نجکاری کرناہو،پاکستان اسٹیل مل کی پرائیویٹائزیشن ہو جسے بعد میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کینسل کیا،یہ حکمران ٹولہ ہر معاہدے ہر سودے میں ذاتی مفادات کو قومی مفادات پہ ترجیح دیتا ہے۔یہ اس حکمران طبقے کی نااہلی یا مفاد پرستی ہے جو امتیازی معاہدے کرتے ہیں۔
اب ہمارے کچھ دانشور ہاتھ دھو کر چین کے ساتھ کیے گیے معاہدوں کے پیچھے تو پڑے ہیں مگر انھیں امریکی سامراج و یورپین،عرب ممالک و ملٹی نیشنل کمپنیوں سے کیے گیے معاہدے نظر نھیں آتے ،ٹھیک ہے بعض پاک چین معاہدے بھی ایسے ہیں جنھیں منصفانہ ہونا چاہیے تھا،بہتر ہونا چاہیے مگر کیا جس سسٹم میں آپ رہتے ہیں جس طرح آپ عالمی سرمایہ داری نظام سے استفادہ کررہے ہیں اسی حوالے سے ہی پالیسیاں تشکیل نھیں پایئں گی ۔بلاشبہ اسی چلن ،انھیں تقاضوں کو پورا کیا جائے گا۔بین القوامی تعلقات و تجارت میں ہر ملک اپنا مفاد دیکھتا ہے جو طبقہ اقتدار میں ہو وہ اپنی سہولت دیکھتا ہے ۔ اور کیوں نہ دیکھے؟
تم کہتے ہو تمھیں چین ایسے سخیوں کی طرح بھیک دے، خیرات دے ،قرض،مگرتم امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے جان کی بازی لگا دینا چاہو،تم ایران سے گیس پائپ لائن معاہدہ پہ عملدرآمد نہ کرو کہ جب ایران اپنی طرف سے پائپ لاین بارڈر تک مکمل کر کے بیٹھا ہے اور تمھیں تمہارےمربعی کی طرف سے اجازت نہ ہو کہ تم معاہدے کی پاسداری کر سکو۔ایسے حالات میں چین تم لوگوں کو ایسے ٹریٹ کرے کہ جیسے تم کوئی سوںشلسٹ یعنی مزدور ریاست ہو۔،،اگلا منہ ویکھ کے چنڈ مارے گا،،جیسے تم ہو ویسا تمہارے ساتھ سلوک ہو گا۔
تم لگے ہو امریکی اداروں کی رپورٹس لے کر سامراجی خدمت گزاری میں۔کہ ہآااااااہ چین یہ کر گیا چین وہ کر گیا۔
سامراج بننے کے لیے صرف مالیاتی پالیسیوں کا تجزیہ ہی کافی نھیں ہوتا،دوسرے ممالک کی خود مختاری ،ان ممالک کی معاشی پالیسیوں کو اپنے ہاتھ میں لیے کر اپنی منشاء کے فیصلے لینا،جنگوں ،دھونس دھمکیوں ،پابندیوں کے ذریعے اپنی منشاء کے فیصلے ،زیادہ سے زیادہ سیاسی فیصلوں کا کنٹرول اپنے قبضے میں لینا ،حکومتیں بنانا اور گراناسامراجیت کی خاص پہچان ہے۔ایک حاکمانہ تسلط حاصل کرنا ۔ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ ان حربوں میں دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔مگر یہ آمریکی جبر ہمارے ان دانشوروں کو نظر نھیں اے گا۔کیونکہ عصبیت کے مارے اذہان کہاں حقائق پہ بات کرنا چاہتے ہیں۔
انھیں سیٹو،سننٹو،گیٹ معاہدے ،ایئ ایم ایف،ورلڈ بنک اور نیٹو جیسے ادارے نظر نھیں آتے جنھوں نے ساری دنیا میں ،،ات مچا ،،رکھی ہے۔ہاں انھیں چین نظر آۓ گا سی پیک نظر اے گا۔چونکہ ان کی عینک امریکی ہے۔بھیا عینک بدلو اگر دنیا کو صحیح حالت میں دیکھنا چاہتے ہو ورنہ لگے رہو جیسے اندھے ہاتھی دیکھنے گیے تھے۔
کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی