تحریر: کامریڈ عرفان علی

ان حالات میں کہ جب امریکہ چین مخالفت بڑھتی جارہی ہے۔کچھ لوگوں بلکہ دانشوروں کی طرف سےچین کے خلاف پراپیگنڈہ مہم میں تیزی آ رہی ہے۔جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ امریکی منشاء کی تکمیل کے لیے وہ دانشور دانستا یا غیر دانستہ طور پہ استعمال ہو رہے ہیں۔لیکن انھیں سمجھایا نھیں جا سکتا کیونکہ آخر دانشور ہیں۔

ورنہ امریکہ کا تقریباً 567ملین ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرنا کیا کوئ نا سمجھ آنیوالی بات ہے۔کل کو اگر یہ تنازع شدت اختیار کرتا ہے اور چین مجبوراً امریکی سازشوں کے خلاف تائیوان میں قوت استعمال کرتا ہے تو ہمارے ان دانشوروں کو مروڑ اٹھیں گے کہ ہآااااااہ چین جبر کررہا ہے،ڈکٹیٹ کرہا ہے آمرانہ حرکتیں کررہا ہے۔

ان دانشوروں کو کون سمجھائے کہ انقلاب برپا کرنے سے انقلاب بچانا زیادہ مشکل اور پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔کیونکہ ایک طرف لوگوں کے معیار زندگی کو بڑھاوا دینا دوسری طرف رجعتی قوتوں کو شکست دینا ضروری ہوتا ہے جن سے آپ نے اقتدار چھینا ہوتا ہے۔پھر سامراجی قوتیں جو ہر حال میں ہر انقلابی قدم روکنے کی شدید خواہش اور کوشش کرتی ہیں ۔

مگر ہاااااۓ ہمارے یہ بھولے دانشور کیا دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ جو ظاہر میں نظر آتا ہے اسے تو سامراج کہنے سے گھبراتے ہیں اس کے خلاف مزاحمت کی ہمت نھیں مگر کسی روحانی پیشوا کی طرح باطن کی صفائی کا ورد کرتے رہتے ہیں۔کہ جی چین پہ تنقید ضروری ہے کیونکہ ہم ،،کمیونسٹ،،ہیں۔

کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے