تحریر: کامریڈ عرفان علی
سود کے خاتمے کیلئے سرمایہ داری کا خاتمہ لازم ہے!
سودی نظام کا خاتمہ نیک شگون متبادل نظام کے لیے حکومت کا ہاتھ بٹانا چاہیے ۔
سودی کاروبار اللہ سے جنگ صوبائی اسمبلیوں نے سود کے خاتمے کیلئے قانون سازی کر لی،سود سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ۔راغب نعیمی
2028تک رعایت دی تاکہ نظام درست کر لیا جائے ،عبالغفور حیدری،مالی معاملات سود سے پاک کرنا مشکل نھیں ہو گا۔ساجد میر۔
26ویں آئینی ترمیم میں یکم جنوری 2028تک ملکی معیشت سے ٫ربا،یا سود ختم کرنے کی قانون سازی بھی شامل ہے جبکہ وفاقی شرعی عدالت 2022ء میں پاکستانی معیشت سے 2027ء تک اسلامی احکامات کے مطابق سودی نظام ختم کرنے سے متعلق فیصلہ دے چکی ہے،سوال یہ ہے کہ اسلام کے نام پہ بننے والے مملکت خدادا د میں تا حال سودی نظام کا خاتمہ کیوں نہیں ہؤ پایا،نیئ قانون سازی سودی نظام کے خاتمے میں کتنی معاون ثابت ہوگی۔نیز سودی نظام کے خاتمے سے ملکی معیشت پر اس کے کیا اثرات ہوں گے ۔ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کیلئے روزنامہ ایکسپریس نے فورم کا اہتمام کیا۔فورم میں علامہ راغب نعیمی ،مولانا عبدلغفور حیدری ،سینیٹر ساجد میر سمیت دیگر نے اظہار خیال کیا ۔روزنامہ ایکسپریس
قارئین اکرام درج بالا تحریر آج مورخہ 26 اکتوبر کے۔اخبار ایکسپریس میں چھپی ہے۔پہلا سوال تو یہ ہے کہ اس پینل ڈسکشن کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کے اس میں ایک بھی ماہر معیشت شامل نھیں.یہ ہمارے حکمران طبقے کی چالاکی ہے کہ وہ لوگوں کو کنفیوژن کا شکار رکھتے ہیں ۔اور سب سے زیادہ کنفیوژن پھیلانے میں مذہبی پیشواؤں کا سہارا لیتے ہیں کیونکہ لوگ ان کی بات کو عقیدت اور تقدس کی وجہ سے معتبر سمجھتے ہیں۔لوگ یہ غور نھیں کرتے کہ ان صاحبان کی متعلقہ شعبے میں مہارت و علمی قابلیت کیا ہے۔لہذا حکمران طبقہ اس کھلی دھوکہ دہی سے بھرپور فایدہ اٹھاتا ہے،سیاست اور بزنس میں اکثر ملا اور سرمایہ دار طبقے کا گٹھ جوڑ ہوتا ہے بلکہ اب تو یہ ملا ،پیرخود حکمران طبقے کا حصہ ہیں۔خود حکمرانی و پروٹوکول کے مزے لوٹتے ہیں،عیش کرتے ہیں۔خود سودی نظام سے بھر پور فایدہ اٹھاتے ہیں۔مگر گاہے بگاہے لوگوں کو سودی نظام کے خلاف کچھ آیات و احادیث بیان کرکے عوام کی نظروں میں نیک نام بھی بن جاتے ہیں۔یہ ٹولا سرمایہ دار طبقے کا سب سے خطرناک حصّہ ہیں جو سرمایہ دار بن چکے ہیں مگر سرمایہ داری کو برا بھلا بھی کہتے رہتے ہیں۔لہذا لوگ ان کی منافقانہ باتوں کا تجزیہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔دراصل یہ مذہب کے نام پہ لوگوں کو بیوقوف بنانے والے ہیں۔یہ مذہب کو بیچ کھانے والے ہیں۔یہ بظاھر دین دار ہیں یعنی قول میں دیندار جب کہ عمل میں پکے دنیا دار (سرمایہ دار)ہیں۔یہ جان بوجھ کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں یہ حقائق توڑ مروڑ کر بیان کرتے ہیں۔یہ لوگوں کو نھیں بتاتے کہ جب تک نجی ملکیت رہے گی،جب تک سرمایہ داری نظام رہے گا ،جب تک طبقاتی تفریق قائم رہے گی،جب تک امیر اور غریب کا فرق موجود رہے گا جب تک یہ نظام رہے گانہ سود کا خاتمہ ممکن ہے نہ ظلم و استحصال ختم ہو سکتا ہے۔جدید دنیا میں سودی نظام کا خاتمہ اس پورے نظام کو انقلابی بنیادوں پر الٹے بغیر ممکن نھیں ہے۔اور اس کے لیے سب سے پہلے لوگوں تک صحیح علم کا پہنچنا لازم ہے۔لوگوں کا طبقاتی بنیادوں پہ منظم ہونا اور انقلابی علومِ سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔
کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی