محنت کش طبقے کیلیے علم اور انقلابی دانشور کے رول کو ماننا اور پہچاننا ضروری ہے!

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مزدور کو سب پتہ ہے ،مزدور سب جانتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے کیوں ہورہا ہے اور اس صورت حال سے نجات کا راستہ کیا ہے،اور ہر حال میں مزدور کا لیڈر مزدور ہی ہوگا تو مسائل حل ہوں گے،انقلابی تبدیلی برپا ہو جاے گی۔ایسے دانشور بظاہر مزدور کی تحسین کرتے ہیں اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں مگر دراصل وہ خود بھی فکری مغالطے کا شکار ہیں اور اس مبالغہ آمیزی سے محنت کشوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔

آیئے دیکھتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے؟کیونکہ اگر ہم حقیقت کا شعور وادراک حاصل نھیں کریں گے تو ہم مسائل کے اسباب کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے اور نتائج بھی ٹھیک برآمد نھیں ہوں گے ۔حقیقت یہ ہے کہ صدیوں سے محنت کشوں کو علم سے دور رکھا گیا ہے،ذرائع پیداوار کی ملکیت کی طرح تعلیم پہ بھی اشرافیہ ہی کی اجارہ داری رہی ہے۔بلکہ اشرافیہ نے دانستا محنت کشوں کو علم سے دور رکھا یا ایسی تعلیم دی گیئ جو تعلیم کم اور حکمران اشرافیہ کے اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے پراپیگنڈہ زیادہ رہا۔وہ تعلیم جو عوام کو باشعور بناۓ ،انسان کے تجزیہ کرنے کی صلاحیت کو پروان چڑھاے ،انھیں منظم ہونے میں مدد دے ایسی تعلیم عوام سے دانستا دور رکھی گیئ۔ایک تو محنت کشوں کے معاشی حالات انھیں اجازت نھیں دیتے کہ وہ تعلیم پہ خرچ کر سکیں کیونکہ ان کی قلیل آمدنی بہ مشکل خوراک پوری کرتی ہے،دوم یہ کہ خود محنت کش طبقے کی اکثریت کو تعلیم کی اہمیت کا اندازہ بھی نھیں ہو پاتا،پھر تعلیمی نظام میں اس قدر درجہ بندی ہے کہ جو تعلیمی معیار محنت کشوں کی دسترس میں ہوتا ہے اس میں اور جہالت میں بس انیس بیس کا ہی فرق ہوتا ہے اور نتیجے میں وہ تعلیم نہ تو انسان کی ذات میں، نہ معاش میں اور نہ ہی سماج میں کوئ تبدیلی برپا کر سکتی ہے۔لہذا محنت کش طبقہ بورژوا جدید علوم سے بھی بہرہ ور نھیں ہو پاتا کجا کہ سماج کے جدید علم مارکسزم سے آشنائی ہو یہاں تک کہ محنت کشوں کی اکثریت لیبر لاز سے واقف نھیں ہے۔

لہذا جو لوگ یہ کہتےہیں کہ مزدور پڑھا پڑھایا ہے اسے پڑھنے کی ضرورت نھیں ،اسے مارکسی علوم سے شناسائی رکھنے کی کیا ضرورت ہے وہ دراصل غلطی پر ہیں وہ مزدوروں کے سچےہمدرد نھیں ہیں۔انقلابی پارٹی اور انقلابی دانشوروں کے کام کی اہمیت کو سمجھنے سے عاری ہیں جسکا نقصان آج ہم سوسائٹی میں پھیلی غربت کے باوجود محنت کشوں کے غیر منظم ہونے کی صورت بھگت رہے ہیں۔اگر ہم مرض کو مرض نھیں سمجھیں گے،اور اپنی کمزوری سے آگاہ نھیں ہوں گے تو علاج کیسے ممکن ہےاور کمزوری کو طاقت میں کیسے بدل پایئں گے۔

ہمیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے محنت کش طبقے کو علم کی ضرورت ہے اور ہمیں اس کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی۔بیشک علم شعور اور تنظیم ہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے محنت کش انقلاب کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔

کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے