تحریر: کامریڈ عرفان علی
کم از کم پچیس چھبیس سال تک ماں باپ اپنی بیٹی کو تعلیم کی غرض سے گھر بٹھاتے ہیں اس پہ پیسے خرچ کرتے ہیں اس کی گزرتی عمر سمیت ہزاروں قسم کے خدشات ،ٹینشنوں کی اذیت برداشت کرتے ہیں۔اس لڑکی کے بچپن اور جوانی کے ہزاروں حسیں دن ،ہزاروں سپنے قربان ہوتے ہیں۔ تب جا کر والدین کے خوابوں کو تعبیر ملتی ہے اور وہ لڑکی ڈاکٹر بن کرتمہاری بہو رانی کا ڈیلیوری (زچگی)کا آپریشن کرنے کے قابل بنتی ہے شاید تمہاری بہو رانی تب تک پانچواں بچہ پیدا کر چکی ہو۔تمہاری بہو رانی کے بیٹی بیٹے کو پڑھانے کے قابل یعنی معاشرے کا ایک مفید شہری بنتی ہے،اپنی امنگوں کو جلا کر اندھیروں میں روشنی کرتی ہے تاکہ نسل انسانی کو جینے کا ڈھنگ ،منزل کا پتہ اورفلاح کا راستہ ملے۔اور انھیں حالات میں تم جھوم جھوم کے کہتے(گاتے )ہو،،توں دھی نوں سکولوں ہٹا لئے گھر پردے وچ بٹھا لئے ،گھر پردے وچ بٹھا لئےاوتھے ڈانس کر دی پئی آے،،
ذرا سوچو اگر بیٹیوں کو نہ پڑھایا جائے تو کون تمہاری بہو رانی کا آپریشن کرے گا۔جو بچے وہ ہر سال پیدا کررہی ہےان بچوں خاص کر بچیوں کو کون پڑھائے گا،کون حفاظتی ٹیکے لگائے گا؟
مگر سوچنے کے لیے بہرحال ایک عدد نارمل دماغ کی ضرورت ہوتی ہے جو بدقسمتی سے تمہارے بچپن میں ہی تم سے کہیں چھین لیا گیا تھا اور اس کی جگہ ایک ،،پروگرامنڈ روبوٹ ،،بھیجے میں فٹ کردیا گیا۔اس لیے کہ مقتدرہ کی ضرورت روبوٹس تھے جو آرڈرز کی تعمیل کریں دماغ تو سؤال اٹھاتے ہیں ایسے سوالات کے جن کا جواب حاکموں کی نیندیں اڑا دے ان کی عیاشیوں کے تاج محل ہلا کر رکھ دے لہذا سوالات سے بچنا ضروری ہے اگر اپنی لوٹ مار کو ،اپنی اجارہ داری کو ،استحصالی نظام کو قائم دائم رکھنا ہے۔تو پھر روبوٹس پیدا کرو ،روبوٹس پیدا نھیں ہوتے بنانا پڑتے ہیں لہذا روبوٹس بناؤ ،لاکھوں کروڑوں روبوٹس بناو۔
ہاں ان روبوٹس کے درمیان اگر کوئی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والا دماغ بدقسمتی سے پیدا ہو جاے،تمہارے روبوٹک سسٹم سے آؤٹ ہو جاے،تمہارے سگنل قبول کرنے کی بجائے قدرت کا عطیہ دماغ استعمال کرےتو باقی روبوٹس مل کر اسے قتل کردیں۔اور تمہارے نظام پہ ،تمہاری ریپوٹیشن پہ بھی کوئی حرف نھیں اے گا۔
لہذا روبوٹس پہ انویسٹمنٹ کرو یہ فائدے کی چیز ہیں۔پھراس طرح کے پچھڑے ہوے نمونوں کو سوسائٹی میں قبول عام پانے میں مدد دو تاکہ وہ ہزاروں سکول بموں سے اڑا دیں تب بھی لوگ کہتے رہیں کہ نھیں جی یہ تو کسی دشمن کی سازش ہے یعنی ان روبوٹس پہ کوئ انگلی نھیں اٹھنی چاہیے!کیونکہ روبوٹس آخر اس نظام کہنہ کی بقا کے ضامن ہیں۔خوں کے وہ دھبے جو حاکموں کے دامن پہ لگے تھے وہ روبوٹس کس صفائی سے واش کرتے ہیں۔جیسے پورے حکمران طبقے کو ڈرائی کلین کردیا ہو۔اور خون ناحق پہ یا توکوئی بولنے والا نہ ہو یا پھر اس کے پاس کوئی ثبوت ہی نہ بچے۔سماج کی تشکیل ایسے ہو یعنی سوسائٹی ایسا روپ دھار چکی ہو کہ جہاں روبوٹس ہی قتل کریں،روبوٹس ہی گواہ بنیں،روبوٹس ہی عدل کریں۔
تو لگے رہو منےبھیا، شاباش لگے رہو ان کے پیچھے اگلی کئی پشتوں کے جاہل رکھنے کا بندوبست کیا جا چکا ہے۔علم اور خاص کر وہ جس کی بابت بلھے شاہ نے کہا تھا ،،اساں پڑھیا علم تحقیقی اے،،اگر کوئی ایسی غلطی کرے تو اسے مارنے کا پورا پورا بندوبست ہو چکا ہےتم بس جھوموں گاؤ ،،توں دھی نوں سکولوں ہٹا لیے، گھر پردے وچ بٹھا لئے،گھر پردے وچ بٹھا لئے اوتھے ڈانس کردی پئی اے،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی