تحریر: کامریڈ عرفان علی
آج سے بیس سال قبل ہم علی رضا آباد شفٹ ہوے تو وہاں کے پڑھے لکھے جوانوں سے راہ و رسم بنانے کی کوشش کی جو مختلف مذہبی بیک گراؤنڈ رکھتےتھے۔
ایک بی اے پاس دوست جو میرا ہمسایہ تھا جسے میں نے فیکٹری میں اپنے ساتھ کام پہ لگوایا۔اس نے مجھے پرزور دلائل سے ثابت کیا کہ علی رضا آباد میں قزلباش فیملی نے بھلے زمانوں سےبہت بڑی لائبریری بنوا رکھی ہے جو مدتوں سے مقفل پڑی ہے اس میں ،،جن بھوت،،رہتے ہیں۔میں اس شخص کو یہ بات سمجھانے میں ناکام رہا کہ دراصل یہ بات لوگوں کو کتاب و علم سے دور رکھنے کے لیے پھیلائی گیئ ہے۔اور کئی دوستوں سے بات کی کہ اس لائبریری کو کھولا جاے تو یہ ،،جن بھوت،، والا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ہمارے بہت ہی قابلِ احترام دوست ذاہد عباس زیدی جو بڑی علمی و سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی ایسی شخصیت ہیں جن کا احترام پورے علاقے کے تمام دیہات کے لوگ دل و جاں سے کرتے ہیں۔ان سے اور مرحوم سید ذاکر حسین زیدی صاحب سےبھی تذکرہ رہا کہ کیسے اس لائیبریری کو کھولا جاے مگر کامیابی نھیں ہو سکی۔
آج کئی سالوں بعد میں سوچ رہا ہوں کہ کتاب و علم کی طرف ہماری سوسائٹی کاعمومی رویہ دشمنی والا ہے۔جس کا نتیجہ دہشت گردی،فرقہ واریت و غیر سیاسی و غیر منطقی سوچ رکھنے والے وحشی ہجوم کی صورت برآمد ہوا ہے۔اور جس کی قیمت ہم غربت بھوک،لاعلاجی ،افراتفری اور جہالت کی صورت آدا کررہے ہیں۔
یہاں قلم کتاب کو صرف سرکاری سلیبس اور ڈگری سے نتھی کردیا گیا ہے اور باقی عملی و سماجی زندگی سے کتاب کا رشتہ ختم کردیا گیا ہے۔
اگر کچھ مذہبی کتابیں پڑھی بھی جاتی ہیں تو وہ ذہن روشن کرنے،سمجھنے،زندگی و سماج میں تبدیلی کی غرض سے کردار آدا کرنے کے لیےنھیں بلکہ آنکھیں و ذہن بند کیے ثواب کی خاطر پڑھی جاتی ہیں۔یعنی ہم مذہب کو بھی اس کی حقیقت کو سمجھنے جس کی طرف مقدس کتاب قرآن کریم میں بھی سینکڑوں بار حکم آیا ہے کہ ،،تحقیق ،،کرو۔مگر ہمیں اسلاف نے اس طرف جانے ہی نھیں دیا۔ہم تحقیق کی بجائے لآئ لگ قسم کے مسلمان ہیں۔
ہماری مذہبی تاریخ میں جو علماء ،حکما،فلاسفر ہمیں اس طرف لانے کی کوشش کرتے رہے انھیں راندہ درگاہ بناتے ہوے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔اج جن فلسفیوں ،سایسندانوں کے مسلمان ہونے پہ ہم فخر کرتے ہیں ان کی زندگیوں میں ان پہ کس طرح مظالم کے پہاڑ توڑے گیے۔انھیں زندیق،مرتد و گمراہ کہا گیا،جنھیں سزا کے طور پہ قید رکھا،کوڑے مارے گیے،جن پہ تھوکا گیا،جنھیں رسوا کیا گیا،سر پہ انھیں کی بھاری بھرکم کتابیں ماری گیئں ،حتی کہ آنکھوں کی روشنی چھین لی یعنی سماج سے نور چھین لیا گیا ۔
اور آج بھی وہی چلن ہے آج بھی کوئی تحقیقی بات کرے تو وہ کفر کے فتووں کی زد میں رہتا ہے۔اج بھی ہجوم کے ہاتھوں اہل علم بیدردی سے قتل ہوتے ہیں اور جہلا ٹھٹھے لگا رہے ہوتے ہیں۔ماضی میں بھی ان باعمل مسلم اسکالرز پر جب تشدد کیا جاتا تو باآواز بلند نعرے لگائے جاتے آج بھی نعروں کی گونج میں علم و دانش کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔دراصل یہ مین سبب ہے ہماری پسماندگی کا۔اج بھی ہمارے دانشور خوف کے سائے میں جیتے جب کہ جہالت دندناتی پھرتی ہے۔پھر بھی کچھ من چلے،کچھ دیوانے اس جہد میں مصروف ہیں۔ان میں ایک شخصیت مزدور کسان پارٹی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر تیمور رحمان ہیں جن کے خلاف آے روز زہریلا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔اس طرح کے کتنے ہی نام ہیں جو خاموش کروا دیے گیے،مار دیے گیے یا آج بھی جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔
خیر بات شروع ہوئی تھی کہ ہمارا مجموعی رویہ یا غالب رحجان کتاب و علم دوستی کی بجائے کتاب دشمنی کا ہے،جہالت پی ناز کرنے کا ہے جب تک یہ روش تبدیل نہیں ہوتی یہاں کوئ مثبت تبدیلی ممکن نھیں ۔
کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی