تحریر: کامریڈ عرفان علی

ہمارے عوام کا اجتماعی حافظہ کافی کمزورہے۔تبھی تو کوئی ایک بورژوا سیاسی جماعت بشمول کنگ میکر،،ڈسپلنڈ ،،جماعت کے خلاف عوام نفرت ،غم و غصّے کا اظہار کرتے سڑکوں پہ لاٹھیاں ،انسوگیس کھاتے، جیلیں و تادیبی کاروائیاں بھگتتے ہیں مگر پھر تھوڑے ہی عرصے بعد انھیں کو نجات دہندہ سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں ۔یہ زندہ باد مردہ باد تک کا سیاسی شعور ایک جذباتی سی کیفیت لیے ہوے عوام کے غیر سیاسی مزاج کا بئین ثبوت ہے۔

یہ مزاج و ذہن سازی حکمران طبقات کے حاکمانہ خیالات کو قبول کرنے اور ان کے طبقاتی بیانیے کی کامیابی کا اظہار بھی ہے۔

مذہبی پیشوائیت نےاس طرح کا ماحول بنانے میں حکمران اشرافیہ کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔امریکی سامراج اور سعودی عرب جیسی عالمی طاقتوں نے بھی اپنے سامراجی مفادات کی تکمیل کے لیے یہی صورتحال قائم رکھنے میں آسانی سمجھی اور اپنا تعاون و سپورٹ لوکل حکمرانوں(گماشتوں) کو بخشا۔

اس سب کے باوجود جو لوگ مزاحمت اور حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھاتے یامتحد ہونے کی کوشش کرتے انھیں بہیمانہ تشدد سے راستے سے ہٹا دیا گیا یا خاموش کروا دیا گیا۔نتیجہ،،گلیاں ہوجان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے ،،اور پھر یہاں ایک نھیں کیا کئی مرزے یار پھرتے رہے ہیں۔

پس جہاں اس صورتحال کی تبدیلی کا یقین ضروری ہے وہیں عوام کے طبقاتی شعور کو بڑھانا،بہترتنظیم سازی کرنا ،انقلابی خیالات پھیلانا اور بھی نہایت ضروری ہیں تبھی جا کے عوام کا حافظہ ٹھیک سے کام کرے گا۔

کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے