تحریر: قیوم نظامی
اسلامی جمہوریہ پاکستان کو قیام پاکستان سے بعد سے بیڈ گورننس اور خراب ایڈمنسٹریشن کا سامنا رہا ہے- آج پاکستان کا کوئی ایک بھی حکومتی ادارہ ایسا نہیں ہے جس کی ایڈمنسٹریشن کو تسلی بخش قرار دیا جا سکے- پولیس کا محکمہ اس قدر ناکارہ ہو چکا ہے کہ اس کی وجہ سے حکومت کے دوسرے شعبے بھی متاثر ہو رہے ہیں- پولیس نان پروفیشنل ہے اس کے اندر میرٹ کی کوئی پرواہ ہی نہیں کی جاتی اور پولیس میں سیاسی مداخلت کی انتہا ہو چکی ہے-قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اپنے انتخابی حلقوں میں اپنی پسند کے ایس ایچ او لگواتے ہیں تاکہ ان کے تعاون سے وہ اپنی لوٹ مار کو بلا خوف و خطر جاری رکھ سکیں- ناکارہ پولیس کی وجہ سے انتظامیہ کا ادارہ بھی متاثر ہو چکا ہے اور اس کی کارکردگی بھی شفاف اور معیاری نہیں ہوتی -عدل و انصاف کا انحصار بھی معیاری پولیس پر ہوتا ہے مگر پاکستان میں چونکہ پولیس کا کوئی معیار ہی نہیں ہے اس لیے عدلیہ کی کارکردگی بھی انتہائی افسوس ناک بلکہ شرمناک ہے- یہ عالمی اصول ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک گڈ گورننس اور اچھی ایڈمنسٹریشن کے بغیر ترقی ہی نہیں کر سکتا-عوام کے روزمرہ کے مسائل حل نہیں کیے جا سکتے-ترقیاتی منصوبوں کا معیار انتہائی ناقص ہوتا ہے اور ان کی تعمیر میں غیر معمولی تاخیر کی جاتی ہے جس کی وجہ سے اخراجات کی لاگت ہی بڑھ جاتی ہے – پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح عظیم سیاست دان اور مثالی ایڈمنسٹریٹر تھے کیونکہ وہ اتحاد یقین محکم اور نظم و ضبط کے سنہری اصولوں پر سختی کے ساتھ کاربند رہتے تھے اور پاکستانی قوم سے بھی توقع کرتے تھے کہ وہ بھی ان سنہری اصولوں پر عمل کرے- قائد اعظم تمام صوبوں کے وزرائے اعلی اور گورنروں سے 15 روزہ رپورٹ طلب کیا کرتے تھے تاکہ وہ انتظامی امور سے آگاہ رہیں اور ترقیاتی منصوبے وقت پر مکمل کیے جا سکیں اور تاخیر کی وجہ سے ان کی لاگت میں اضافہ نہ ہو سکے -قائد اعظم نے آزادی کے بعد ایک سال تک گورنر جنرل پاکستان کی حیثیت سے ریاست کا نظم و نسق چلایا جو ان کی صحت کی خرابی کے باوجود ہر حوالے سے مثالی تھا- افسوس کہ ہم اپنے سیاسی رول ماڈل سے کچھ نہ سیکھ سکے- قائد اعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان میں گورننس اور ایڈمنسٹریشن کا نظام ہی درہم اور برہم ہو گیا- قائد اعظم نے 1935 کے ایکٹ اور وفاقی کابینہ کے کنونشن کی روشنی میں پاکستان کی نئی ریاست کو چلانے کے لیے کلی اختیارات حاصل کر لیے تھے ریاست کے تمام پالیسی اور کلیدی فیصلے کابینہ کی منظوری کے بعد حتمی فیصلے کے لیے گورنر جنرل پاکستان کو ارسال کیے جاتے تھے- دستور ساز اسمبلی نے گورنر جنرل پاکستان کو حکومت کی کلیدی آسامیوں پر تعیناتی کے اختیارات بھی سونپ دیے تھے- جو لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ قائد اعظم نے وزیراعظم لیاقت علی خان کے اختیارات سلب کر لیے تھے ان کی یہ رائے درست نہیں ہے قائد اعظم نے اپنی پوری زندگی میں آئین اور قانون اور جمہوری اصولوں کی ثابت قدمی سے پیروی کی جس کو تمام اہم مورخین نے اپنی کتب میں تسلیم کیا ہے- لیڈر کی پہچان اس کے بیانات اور تقریروں سے زیادہ اس کے فیصلوں سے ہونی چاہیے- بر صغیر ہندوستان میں شخصیت پرستی اور لیڈر کی اندھی تقلید کی روایات بڑی مستحکم ہو چکی ہیں اس لیے عوام اپنے لیڈروں کے فیصلوں پر توجہ ہی نہیں دیتے جن کی بنیاد پر ان کی کارکردگی کو جانچا جا سکتا ہے- قائد اعظم نے گورنر جنرل کا منصب سنبھالنے کے بعد جو وفاقی کابینہ بنائی وہ ان کی گڈ گورننس اور معیاری ایڈمنسٹریشن کی بہترین مثال ہے انہوں نے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دونوں کے لیے صرف 10 وفاقی وزراء نامزد کیے جن کا انتخاب میرٹ اور صرف میرٹ پر کیا گیا- قائد اعظم نے اس سلسلے میں ہر قسم کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور مولانا شبیر احمد عثمانی جنہوں نے 1946 کے انتخابات کے دوران بڑی محنت کی تھی ان کو بھی اپنا مذہبی مشیر بنانے سے انکار کر دیا اسی طرح انہوں نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو بھی کابینہ میں شامل نہ کیا کیونکہ وہ اقربا پروری کے بڑے سخت خلاف تھے جبکہ اج کل پاکستان کے اندر اقربا پروری کا کلچر اپنی جڑ پکڑ چکا ہے- قائد اعظم نے 26 مارچ 1948 کو چٹاگانگ میں اپنے آخری عوامی خطاب میں پاکستان کی تعمیر و تشکیل کے بارے میں دو ٹوک غیر مبہم اور واضح الفاظ میں نظریہ پاکستان کی وضاحت کر دی تھی اور فرمایا تھا کہ آپ میرے اور لاکھوں مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں جب آپ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی قطعی اساس یعنی بنیاد سماجی انصاف اور اسلامی سوشلزم پر ہونی چاہیے جو مساوات اور انسانی اخوت پر زور دیتا ہے اسی طرح جب آپ سب کے لیے مساوی مواقع کی تمنا کرتے ہیں تو آپ میرے خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں ترقی کے یہ اہداف پاکستان میں متنازع نہیں ہیں کیونکہ ہم نے اسی لیے تو پاکستان کا مطالبہ کیا تھا اس کے لیے جدوجہد کی تھی اور اسے حاصل کیا تاکہ مادی اور روحانی طور پر آزادی کے ساتھ اپنی روایات اور مزاج کے مطابق اپنے معاملات چلا سکیں انسانی اخوت مساوات اور بھائی چارہ ہمارے مذہب ثقافت اور تہذیب کے بنیادی نکات ہیں ہم نے پاکستان کے لیے جدوجہد اس لیے کی تھی کہ بر صغیر ہندوستان میں ان انسانی حقوق کو خطرہ لاحق تھا- افسوس آج کے پاکستان میں قائد اعظم کے نظریہ پاکستان سے کھلم کھلا انحراف کیا جا رہا ہے- آج کے پاکستان میں قائد اعظم کے تصورات اور علامہ اقبال کی فکر کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے- قائد اعظم نے جن سنہری اصولوں کا زور شور سے ذکر کیا تھا وہ کہیں نظر نہیں اتے آج پاکستان میں نہ ہی اتحاد ہے نہ ہی یقین محکم ہے اور نہ ہی نظم و ضبط نظر اتا ہے- کانگرس کے لیڈروں نے جب قائد اعظم کو کہا کہ آپ پاکستان کے سلسلے میں ایک ناممکن خواب دیکھ رہے ہیں تو قائد اعظم نے یقین محکم کے ساتھ یہ فرمایا تھا کہ میری لغت میں ناممکن کا کوئی لفظ ہی نہیں ہے- قائد اعظم نے سول سروس کے نوجوان آفیسرز کی تربیت کے لیے ایک اکیڈمی قائم کی افسروں کے لیے اردو اور بنگالی سیکھنا لازمی قرار دیا گیا پولیس سروس اکاؤنٹ سروس اور فارن سروس کے الگ الگ شعبے قائم کیے گئے تاکہ حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے اور عوام کو گڈ گورننس فراہم کی جا سکے فروری 1948 میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کا تعین کرنے کے لیے پے کمیشن قائم کیا گیا قائد اعظم نے جولائی 1947 میں ایک سلیکشن بورڈ قائم کر دیا تاکہ میرٹ پر حکومت پاکستان کے سینیئر افسروں کا انتخاب کیا جا سکے ایک دفعہ قائد اعظم کے سامنے ایک فائل پیش کی گئی جس میں کسی مسئلے میں تاخیر کو نظر انداز کرنے کی اجازت طلب کی گئی تھی قائد اعظم نے اس فائل پر نوٹ لکھا میں چاہتا ہوں کہ ایڈمنسٹریشن مستعدی سے کام کرے اور مجھ سے یہ توقع نہ رکھے کہ میں کسی ٹھوس وجہ کے بغیر ان کے فرائض میں تاخیر کو نظر انداز کر دوں گا- قائدا اعظم اپنی زندگی کے آخری لمحے تک سرکاری فائلوں کا مطالعہ کر کے احکامات جاری کرتے رہے-
ایک روز کراچی کے عوام احتجاج کرتے ہوئے گورنر جنرل ہاؤس کے گیٹ کے قریب پہنچ گئے انگریزوں کے تربیت یافتہ سٹاف نے قائد اعظم سے کہا کہ ہمیں عوام کے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کرنا پڑے گی – قائد اعظم نے کہا کہ کیا آپ پاکستان کے مالکوں پر لاٹھی چارج کرنا چاہتے ہیں- انہوں نے گورنر جنرل ہاؤس کی بالکنی پر جا کر احتجاجی عوام سے مختصر خطاب کیا اور ان کو تجویز دی کہ دوسرے روز پانچ افراد دفتر میں آ جائیں تو ان کا مسئلہ مسئلہ حل کر دیا جائے گا قائد اعظم کے اس اعلان کے بعد احتجاجی عوام منتشر ہو گئے اور دوسرے دن قائد اعظم نے ملاقات کر کے ان کا مسئلہ عزت اور آبرو کے ساتھ حل کرا دیا- ایک دن کراچی کے صوبائی اسمبلی کے اراکین نے احتجاجی عوام کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کر دی- کراچی کے فوجی کمانڈر نے قائد اعظم سے شکایت کر دی قائد اعظم نے صوبائی اسمبلی کے اراکین کو بلا لیا اور پوچھا کہ آپ نے قانون کو کیوں توڑا انہوں نے کہا ہم نے تو احتجاجی عوام کو منتشر کرنے کے لیے یہ کام کیا قائد اعظم نے کہا کہ یہ آپ کی ذمہ داری نہیں تھی کہ آپ ہوائی فائرنگ کرتے آپ معافی نامہ تحریر کریں جب انہوں نے معافی نامہ تحریر کر دیا تو قائد اعظم نے کراچی کے فوجی کمانڈر کو کہا کہ یہ عوام کے نمائندے ہیں ان کی عزت کرو آپ کا فرض ہے اور ان کو ان کی گاڑیوں تک چھوڑ کر آؤ- قیام پاکستان کے بعد پاکستان معاشی بدحالی کا شکار تھا ہندوستان نے پاکستان کے اثاثے روک رکھے تھے چھ ماہ بعد خزانہ خالی ہو گیا تو انگریز کے تربیت یافتہ سٹاف نے قائد اعظم کو مشورہ دیا کہ عوام کو نہ بتایا جائے کہ خزانہ خالی ہو گیا ہے تو قائد اعظم نے کہا کہ اپ پاکستان کے مالکوں سے سچ کیوں چھپانا چاہتے ہیں جب بھی آپ عوام سے سچ کو چھپائیں گے آپ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا لہذا پاکستان فنڈ کا اعلان کیا گیا تو عوام نے اس میں کروڑوں روپے جمع کرا دیے اس طرح پاکستان کا پہلا پہلا معاشی بحران ٹل گیا-پاکستان کے نوجوان اگر اج بھی قائد اعظم کے رول ماڈل سے سیکھ سکیں تو وہ نہ صرف اپنے بارے میں بلکہ پاکستان کے بارے میں بہترین فیصلے کر سکتے ہیں- قائد اعظم کے تصورات اور سنہری اصولوں پر عمل کر کے ہی ہم سیاسی معاشی انتظامی عدالتی اور اخلاقی بحران سے باہر نکل سکتے ہیں ہمارے پاس اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے یہ بات پاکستان کے نوجوان جتنی جلد سمجھ لیں اتنا ہی خود ان کے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے بہتر ثابت ہوگا-