تحریر: قیوم نظامی

پاکستان کی 1947 میں آبادی 34 ملین تھی جبکہ تعلیم کی شرح 16 فیصد تھی-پاکستان کی چین کی نسبت معاشی حالت بہتر تھی- پاکستان کی فی کس آمدنی 100 ڈالر تھی جبکہ چین کی فی کس آمدنی 50 ڈالر تھی- 28 ملین افراد کو تعلیم کے زیور سے اراستہ کرنا پاکستان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا-چین 1949 میں آزاد ہوا اس وقت اس کی آبادی 500 ملین تھی جبکہ تعلیم کی شرح 20 فیصد تھی اور اس کے لیے 400 ملین افراد کو تعلیم دینا بہت بڑا چیلنج تھا-چین کے عظیم لیڈر ماؤزے تنگ نے تعلیم کو قومی ترجیحات میں شامل کیا-ہیومن ریسورس پر سرمایہ کاری کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج چین میں فی کس آمدنی 12738 ڈالر ہے جبکہ پاکستان کی فی کس کا آمدنی 1650 ڈالر ہے- چین میں تعلیم کی شرح کم و بیش 100 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں تعلیم کی شرح 60 فیصد ہے- آئین کے آرٹیکل 25 اے میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ 6 سے 16 سال تک کے ہر بچے کو لازمی تعلیم دی جائے گی ـ افسوس اس آرٹیکل پر عمل درامد نہ کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج 26 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں-جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جب قومی ترجیحات کا فیصلہ کرنے کے لیے اعلٰی سطحی اجلاس بلایا تو اس اجلاس میں ایک ڈپٹی سیکرٹری نے کہا کہ ہمیں تعلیم کو اپنی پہلی ترجیح بنانا چاہیے- جنرل ایوب خان نے کہا کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ پڑھ لکھ جائیں اور میرے خلاف اٹھ کھڑے ہوں- 10 سالہ اقتدار کے بعد جب پاکستان کے عوام جنرل ایوب کے اقتدار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو معتبر شہادت کے مطابق جنرل ایوب خان نے کہا کہ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی کہ میں نے لوگوں کو تعلیم نہ دی جس کی وجہ سے ان کا شعور ہی بلند نہ ہو سکا-پاکستان میں 43 ہزار دینی مدارس ہیں جن میں اپنے اپنے مسلک کے مطابق بچوں کو مفت تعلیم بھی دی جاتی ہے اور ان کو قیام و طعام کی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں-دینی مدارس کا اپنا نصاب ہے جو مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے-پاکستان میں ہزاروں پبلک سکول موجود ہیں مگر ان میں معیاری تعلیم نہیں دی جا رہی اور سکولوں میں بچوں کو باتھ روم اور بجلی جیسی بنیادی سہولتیں بھی فراہم نہیں کی جاتیں -ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 85 فیصد سکولوں میں ٹائلٹ اور بجلی کی سہولتیں موجود نہیں ہیں ـ تازہ رپورٹوں کے مطابق پاکستان کے مختلف صوبوں میں پبلک سکول یا تو بند کیے جا رہے ہیں یا ان کی نجکاری کی جا رہی ہے-پاکستان میں ایسے پرائیویٹ سکول بھی ہیں جہاں پر تعلیم کا معیار تو اچھا ہے مگر ان کی فیسیں اس قدر زیادہ ہیں کہ لوئر مڈل کلاس کا کوئی گھرانہ اپنے بچے کو ان سکولوں میں تعلیم دینے کا سوچ نہیں سکتا -ایک مقامی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق پانچویں جماعت کے 45 فیصد بچے دوسری جماعت کی اردو اور انگریزی کی کتاب نہیں پڑھ سکتے-پاکستان میں انگلش میڈیم سکول تجارتی ادارے بن چکے ہیں-

پاکستان میں 244 رجسٹرڈ یونیورسٹیاں ہیں جن میں 145 پبلک اور 99 پرائیویٹ ہیں ـ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی یونیورسٹی دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں شامل نہیں ہے-پاکستان کے تعلیمی نظام میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وکیشنل ٹریننگ اور ٹیکنالوجی کی تعلیم پر بہت کم توجہ دی جا رہی ہے-پاکستان میں تعلیم کا بجٹ بہت کم ہے- 2022 – 2023 کی اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق وفاق اور صوبائی بجٹ میں تعلیم پر صرف پانچ بلین ڈالر خرچ کیے گئے جو جی ڈی پی کا 1.5 فیصد بنتے ہیں-اس تعلیمی بجٹ کا قابل ذکر حصہ کرپشن کی نزر ہو جاتا ہے-پاکستان کے مقابلے میں چین نے گزشتہ 70 سالوں کے دوران تعلیم پر منظم طریقے سے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے-چین نے 2020 میں تعلیم پر 657 بلین ڈالر خرچ کیے جو جی ڈی پی کا4.22 فیصد بنتے ہیں-اسی سال چین نے اپنے دفاع پر 178 بلین ڈالر خرچ کیے جو تعلیمی بجٹ کا ایک چوتھائی بنتے ہیں-چین کے تعلیمی نظام کے مطابق ہر بچے کو نو سال مسلسل لازمی تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے جو پرائمری اور سیکنڈری سکول تک ہوتی ہے-ہر بچے کو پہلے نو سال کے دوران اخلاقی تعلیمی ذہنی اور جسمانی تعلیم دی جاتی ہے-ہر بچے کو چینی زبان ریاضی فزکس کیمسٹری اور ایک غیر ملکی زبان سکھائی جاتی ہے جبکہ ریاضی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے تاکہ تمام بچوں کی تعلیمی بنیادیں مستحکم بنائی جا سکیں-سرکاری سکولوں میں 90 فیصد طلبہ و طالبات کو مفت تعلیم دی جاتی ہے جبکہ باقی دس فیصد بچے پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں-تمام سکولوں کا ایک ہی نصاب ہوتا ہے جسے وزارت تعلیم منظور کرتی ہے اور یکساں نصاب کی وجہ سے قومی ہم اہنگی اور یکجیتی پیدا ہوتی ہے-چین میں تین ہزار بارہ یونیورسٹیاں ہیں جن میں 75 فیصد سرکاری ہیں اور 25 فیصد پرائیویٹ ہیں-یونیورسٹیوں میں داخلے سے پہلے بچوں سے ٹیسٹ لیے جاتے ہیں اور ان کا تعلیمی معیار جانچا جاتا ہے-چین کی درجنوں یونیورسٹیوں کا شمار دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں کیا جاتا ہے-پاکستان چین کے کامیاب تعلیمی تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے-چین کے کامیاب تجربے سے سیکھتے ہوئے پاکستان کو ہیومن ریسورس پر بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے اور اس پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ پاکستان کے نوجوان ہنرمند بن سکیں اور مارکیٹ کے تقاضوں کو پورا کر سکیں-خواتین کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے کیونکہ مائیں اگر مثالی ہوں گی تو نسلیں بھی مثالی بن سکتی ہیں-پاکستان کو چین کی طرح ریاضی فزکس کیمسٹری اور ٹیکنالوجی کی تعلیم پر توجہ دینی چاہیے اور ہائر ایجوکیشن میں آئی ٹی کو پہلی ترجیح بنانا چاہیے-پاکستان کو چین کے ساتھ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے بعد پاک چائنہ ایجوکیشن کوریڈور کا معاہدہ بھی کرنا چاہیے-پاکستان میں تعلیم کی پسماندگی کی بنیادی وجہ جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ہے پاکستان کے جاگیردار اور سرمایہ دار ہرگز نہیں چاہتے کہ غریبوں کے بچے اچھے سکولوں میں تعلیم حاصل کر کے ان کے بچوں کے مقابلے میں کھڑے ہو جائیں اور ان کی پاکستان پر اجارہ داری ہے خطرے میں پڑ جائے-پاکستان کے غریب محروم اور مظلوم عوام متحد اور منظم ہو کر ہی اپنے بنیادی حقوق حاصل کر سکتے ہیں-پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان میں لازمی تعلیم پر زور دیتے تھے مگر ان کی رحلت کے بعد پاکستان پر کلونیل ذہنیت بالادست ہو گئی جس کی وجہ سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تعلیم کو اہمیت نہ دی گئی-تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے آج پاکستان ہر شعبے میں زوال پذیر ہے-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے