سموگ اور ماحولیاتی آلودگی

  تحریر: قیوم نظامی سموگ ایک گہرا دھواں نما ماحول ہے جو فضا میں موجود دھواں دھول گاڑیوں اور صنعتوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں کے ملاپ سے بنتا ہےـ یہ عام طور پر سردیوں کے موسم میں زیادہ نمایاں ہوتا ہے جب درجہ حرارت کم ہونے سے فضائی آلودگی زمین کے قریب جمع ہو جاتی ہےـ ماحولیاتی آلودگی کی مختلف اقسام ہیں جن میں فضائی آلودگی جو گاڑیوں صنعتوں اور بجلی کے پلانٹ سے خارج ہونے والے دھوئیں اور زہریلی گیسیں جیسے کاربن مونو اکسائیڈ سلفر ڈائی اکسائیڈ اور نائٹروجن اکسائیڈ سے پیدا ہوتی ہے ـ دوسری قسم آبی آلودگی ہے جو فیکٹریوں کا فضلہ اور گندا پانی دریا اور سمندروں میں پھینکنے سے بنتی ہےـ پلاسٹک اور دیگر غیر حیاتیاتی مواد کی موجودگی سے بھی آبی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہےـ زمینی آلودگی کیمیکل فرٹیلائزرز اور پلاسٹک کا بے دریغ استعمال فضلے کو زمین میں دفن کرنا غیر معیاری ایندھن کے استعمال جنگلات کی کٹائی شہری علاقوں میں بڑھتی ہوئی صنعتی اور ٹریفک کی سرگرمیاں ماحولیاتی قوانین کا نفاذ نہ ہونا فضائی آلودگی کے بڑے اسباب ہیں ـ ماحولیاتی آلودگی کا مقابلہ کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر بیداری اور شعور کی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے سب لوگ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈال سکیں ـ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں رواں برس بھی موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی سموگ نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گزشتہ ہفتوں میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے سموک کی مقدار انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گئی ہے ـ حالیہ ڈیٹا کے مطابق لاہور شہر متعدد بار دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا ـ ماہرین کے مطابق سموگ کی صورتحال موسم سرما میں شدت اختیار کر جاتی ہے مگر درحقیقت یہ وہ آلودگی ہے جو سارا سال فضا میں موجود رہتی ہےـ یونیورسٹی آف شکاگو میں دنیا بھر کے ممالک میں فضائی آلودگی کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں رہنے والے افراد کی متوقع عمر ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے باعث چار سال تک بڑھ سکتی ہےـ جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہو رہی ہےـ نزلہ کھانسی گلا خراب سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو سموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں جبکہ سموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں جیسا کہ پھیپھڑوں کا خراب ہونا یا کینسر شامل ہیں ـ ڈاکٹروں کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس لیے جب سموگ بڑھ جائے تو انہیں گھروں میں ہی رہنا چاہیے ـ سموگ کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے پنجاب حکومت نے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں ـ سکولوں کو ایک ہفتے کے لیے بند کر دیا گیا ہے تاکہ سکولوں کے بچے سموک سے متاثر نہ ہو سکیں ـ مارکیٹوں کو رات آٹھ بجے بند کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ لوگ اپنے گھروں میں رہیں اور سموگ سے بچ سکیں ـ فصلوں کو جلا کر ماحول کو آلودہ کرنے والے افراد کے خلاف سخت کاروائیاں کی جا رہی ہیں ـ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے چالان کیے جا رہے ہیں ایسی فیکٹریوں کے مالکان جن کے صنعتی یونٹ سے نکلنے والا دھواں فضا کو آلودہ کر رہا ہے ان کے خلاف بھی قانونی کاروائی کی جا رہی ہے ـ محکمہ صحت پنجاب نے ہسپتالوں کو ہنگامی صورتحال کے سلسلے میں الرٹ کر دیا ہے تاکہ جو افراد سموگ سے متاثر ہوں ان کا بر وقت علاج کیا جا سکےـ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے باکو میں پاکستان کی میزبانی میں ہونے والی کلائمیٹ فنانس گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق وعدوں پر عمل درامد یقینی بنانا ہوگاـ ہمیں ماحولیاتی تبدیلی جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک شدید مشکلات کا شکار ہیں ـ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کو آگے آنا ہوگا اور یو این کے فریم ورک پر عمل درامد کرنا ہوگاـ انہوں نے زور دیا کہ ترقی پذیر ملکوں کو 68 کھرب ڈالر درکار ہیں ترقی یافتہ ملک ترقی پذیر ملکوں کی مدد کریں ـ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں گلیشیئرز سے 90 فیصد پانی حاصل ہوتا ہے درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیئرز کی تیزی سے پگنے پر تشویش ہےـ تیزی سے پگلتے گلیشیئرز کا تحفظ سنجیدہ اقدامات کا متقاضی ہےـ درخت زمین پر زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہیں کیونکہ یہ جانوروں کو خوراک فراہم کرتے ہیں پرندوں کو رہائش فراہم کرتے ہیں اور انسانوں کو پھل فراہم کرتے ہیں درخت زمین پر آکسیجن کا تناسب بگڑنے نہیں دیتےـ درخت سیلاب سے بچاؤ بھی کرتے ہیں ـ درختوں اور جڑی بوٹیوں سے انسانوں کو لاحق مختلف بیماریوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے ـ پاکستان کی بدقسمت تاریخ میں درخت کاٹے زیادہ گئے ہیں جبکہ لگائے بہت کم گئے ہیں ـ درختوں کی قلت کی وجہ سے آج پاکستان کے بڑے شہر سموگ اور آلودگی جیسے خطرات سے دوچار ہو چکے ہیں ـ درختوں کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے اپنی تو وہ مثال ہے جیسے کوئی درخت اوروں کو چھاؤں بخش کر خود دھوپ میں جلے ایک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے جس کا ہمسائے کے آنگن میں سایہ جائے وزارت ماحولیات 2017 میں قائم کی گئی جس کی بنیادی ذمے داری یہ تھی کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں ٹھوس اور جامع پالیسی بنائے تاکہ پاکستان کے مختلف علاقوں کو سموگ اور ماحولیاتی آلودگی جیسی آفتوں سے محفوظ بنایا جا سکے ـ پاکستان میں چونکہ احتساب کا شفاف نظام ہی موجود نہیں ہے اس لیے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وزارت ماحولیات نے گزشتہ سات سالوں کے دوران کیا فیصلے کیے اور ٹھوس

سموگ کے طبقاتی اثرات! 

  تحریر: کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی سرمایہ دارانہ نظامِ میں سرمایہ داروں کے پاس تقریباً سب کچھ اور محنت کشوں کے پاس تقریباً کچھ نھیں ہوتا۔گھر، گاڑی تعلیم علاج معاشرے میں جئے جئے کار یہ سب زرداروں کی رسائی بلکہ اجارہ داری میں ہوتا ہے۔زردار مصیبت زدہ علاقوں کو پل بھر میں چھوڑ سکتے ہیں ،دوسرے ممالک جا سکتے ہیں جب کے محنت کشوں کا مقدر وہیں مصیبت و ابتلا گھرے رہ کرمرنا ہے۔محنت کش کودو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوتے ہیں وہ دیگر حفاظتی لوازمات کہاں سے پورے کرے۔ ابھی آپ اس سموگ کو دیکھیں اس صورت احوال کی بڑی ذمہ داری بہرحال طبقہ اشرافیہ پہ بنتی ہے مگر اس سےمتاثر کروڑوں غریب ہوتے ہیں ۔سموگ و زہریلی ہوا سے بچنے کے لیے امراء اپنے گھروں میں چار چھ ہفتے بند ہو کر گزار سکتے ہیں،بیرون ممالک جا سکتے ہیں جیسے ہماری وزیر اعلیٰ اور سابق وزیر اعظم غیر ملکی دورے پہ ہیں۔بہت سے ریٹائرڈ آفیسرز یورپ میں ہی سیٹل ہو جاتے ہیں کیونکہ اس ملک کو تو اس قابل چھوڑا نھیں کہ یہاں مستقل سکونت اختیار کی جاسکے۔اور جس پیڑھی نے اس ملک کے خزانوں پہ ابھی مزید ہاتھ صاف کرنے ہیں اور یہاں کہ محنت کشوں کی محنت کو لوٹنا ہے حکمرانی و عیش کے مزے لوٹنے ہیں وہ گھروں میں ایئر کلینر ٹائپ ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں جب کہ غریب مر رہے ہیں۔یہ طبقاتی نظام ہے جو کچھ لوگوں کو جدید ترین آسائشیں،سہولیات و ٹیکنالوجی تک رسائی دیتا ہے اور کروڑوں انسانوں کو ان نعمتوں سے محروم رکھتا ہے،وہ کیا ایئر کلینر لے جس کا گھر ہی نھیں گھر ہے تو کھڑکیاں دروازے نھیں ۔کھڑکیاں دروازے ہوں تو جیب اجازت نہیں دیتی کہ روزگار نھیں ہے۔ایک تو تنگدستی ہے اوپر سے کم علمی ۔لہذا اس نظام کی جگہ ایک منصفانہ ،ایک منصوبہ بند معیشت پہ بنیاد رکھنے والا نظام چاہیے جو خلق خدا کو بلا تفریق ڈیلیور کرے۔اور اس اس نظام کو اشتراکیت (سوشلزم) کہتے ہیں۔یعنی تمام وسائل و ذرائع پیداوار ریاست کی ملکیت اور ریاست محنت کش عوام کے کنٹرول میں ہو۔ہر بالغ و صحت مندشخص اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرے اور کام کے مطابق معاوضہ لے جب کہ تعلیم ،ریہائش،علاج،روزگار ریاست کی اولیں ذمہ داری ہو گی ۔