سوشلسٹ کون ہیں؟

تحریر: کامریڈ عرفان علی جی سوشلسٹ وہ ہیں جو دنیا میں انصاف چاہتے ہیں،لابرابری ،سماجی اونچ نیچ ،طبقاتی نظام ،سود ،استحصال ،تعصب ،غربت،بھوک بیماری ،جہالت ،جنگوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔جو منڈی کے لیے پیداوار کی بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل کے قائل ہیں،جو نیچر کو آنیوالی نسلوں کے لیے محفوظ چھوڑنا چاہتے ہیں۔جو فطرت سے جنگ نھیں بلکہ بقاء باہمی کے قائل ہیں۔جو فطرت کی عنایات کے بے دریغ ضیاع یعنی سرمایہ دارانہ استعمال کو غلط سمجھتے ہیں۔جو بندوق کی گولی اور توپ کے گولے کی بجائے انسانی زندگی کو بیماریوں سے محفوظ بنانے والی گولی (ٹیبلیٹ)کو اہمیت دیتے ہیں۔جو انسان کی اجتماعی جسمانی و روحانی نشوونما چاہتے ہیں کہ انسان اپنی فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھاے۔قدرت کے اس انمول تحفے زندگی کو ،کائنات کے حسن کو ترقی دے۔جو افراتفری کی بجائے زندگی و معاشرے میں ڈسپلن پیدا کرے ۔انسان کے خصائل رذیلہ کو ختم کرے۔حرص و حوس،دھوکہ و مکاری،کینہ بغض و لالچ ،خود غرضی و خود فریبی،بزدلی و بے حسی،غرور و تکبر کا خاتمہ کرے۔جو سرمایہ پرستی کی خاصیت ہیں۔جی ہاں سوشلسٹ وہ ہیں جو انسان کے ہاتھوں انسان ،قوم کے ہاتھوں قوم،انسان کے ہاتھوں نیچر اور نیچر کے ہاتھوں انسان کے استحصال کے خلاف ہیں۔جو مرد کے ہاتھوں عورت اور بچوں ،طاقتوروں کے ہاتھوں کمزوروں کے استحصال کے خلاف ہیں۔جو انسان کی لاکھوں سالوں سے حسرتوں ،خواہشوں،نیک تمناؤں ،اور احتیاجات کی تکمیل چاہتے ہیں۔جو دنیا سے محرومیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔جو انسان کی جنگلی نفسیات کی بجائے انسانی معاشرت والی فطرت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔جو مذہبوں ،فرقوں،نسلوں،ذاتوں،،زبانوں،علاقوں کے تعصبات کا خاتمہ چاہتے ہیں۔جو ساری دنیا کو ایک خاندان کی صورت دیکھنا چاہتے ہیں۔جو حدوں،سرحدوں کی بجائے کل کائنات کو کل انسانیت کی میراث دیکھنا چاہتے ہیں۔تم ان پاکیزہ خیالات کو کفر سمجھو تو سمجھو ہم انھیں انسان کی نجات ، منزل و معراج سمجھتے ہیں۔ تمہاری سرمایہ داری و سامراجیت نے دنیا کو جہنم بنا دیا ہے اور ہم اسے انسانوں کے رہنے کے قابل بنانا چاہتے ہیں جس کے لیے انقلاب نھیں انقلابوں کی ضرورت ہے اور ہم اس مزدور انقلاب کا ایندھن بننے کو تیار ہیں۔جسے سوشلسٹ انقلاب کہتے ہیں جو کمیونزم کا پہلا مرحلہ ہے۔تو آو تحقیق کرو اور اگر یہ حقیقت تم پہ آشکار ہو جائے تو آؤ اس کے لیے جدوجھد شروع کرو۔ورنہ سامراجیت اپنی نیچر کے مطابق دنیا کو بھوک افلاس اور جنگوں میں مارتی رہے گی۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

سموگ کے طبقاتی اثرات! 

  تحریر: کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی سرمایہ دارانہ نظامِ میں سرمایہ داروں کے پاس تقریباً سب کچھ اور محنت کشوں کے پاس تقریباً کچھ نھیں ہوتا۔گھر، گاڑی تعلیم علاج معاشرے میں جئے جئے کار یہ سب زرداروں کی رسائی بلکہ اجارہ داری میں ہوتا ہے۔زردار مصیبت زدہ علاقوں کو پل بھر میں چھوڑ سکتے ہیں ،دوسرے ممالک جا سکتے ہیں جب کے محنت کشوں کا مقدر وہیں مصیبت و ابتلا گھرے رہ کرمرنا ہے۔محنت کش کودو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوتے ہیں وہ دیگر حفاظتی لوازمات کہاں سے پورے کرے۔ ابھی آپ اس سموگ کو دیکھیں اس صورت احوال کی بڑی ذمہ داری بہرحال طبقہ اشرافیہ پہ بنتی ہے مگر اس سےمتاثر کروڑوں غریب ہوتے ہیں ۔سموگ و زہریلی ہوا سے بچنے کے لیے امراء اپنے گھروں میں چار چھ ہفتے بند ہو کر گزار سکتے ہیں،بیرون ممالک جا سکتے ہیں جیسے ہماری وزیر اعلیٰ اور سابق وزیر اعظم غیر ملکی دورے پہ ہیں۔بہت سے ریٹائرڈ آفیسرز یورپ میں ہی سیٹل ہو جاتے ہیں کیونکہ اس ملک کو تو اس قابل چھوڑا نھیں کہ یہاں مستقل سکونت اختیار کی جاسکے۔اور جس پیڑھی نے اس ملک کے خزانوں پہ ابھی مزید ہاتھ صاف کرنے ہیں اور یہاں کہ محنت کشوں کی محنت کو لوٹنا ہے حکمرانی و عیش کے مزے لوٹنے ہیں وہ گھروں میں ایئر کلینر ٹائپ ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں جب کہ غریب مر رہے ہیں۔یہ طبقاتی نظام ہے جو کچھ لوگوں کو جدید ترین آسائشیں،سہولیات و ٹیکنالوجی تک رسائی دیتا ہے اور کروڑوں انسانوں کو ان نعمتوں سے محروم رکھتا ہے،وہ کیا ایئر کلینر لے جس کا گھر ہی نھیں گھر ہے تو کھڑکیاں دروازے نھیں ۔کھڑکیاں دروازے ہوں تو جیب اجازت نہیں دیتی کہ روزگار نھیں ہے۔ایک تو تنگدستی ہے اوپر سے کم علمی ۔لہذا اس نظام کی جگہ ایک منصفانہ ،ایک منصوبہ بند معیشت پہ بنیاد رکھنے والا نظام چاہیے جو خلق خدا کو بلا تفریق ڈیلیور کرے۔اور اس اس نظام کو اشتراکیت (سوشلزم) کہتے ہیں۔یعنی تمام وسائل و ذرائع پیداوار ریاست کی ملکیت اور ریاست محنت کش عوام کے کنٹرول میں ہو۔ہر بالغ و صحت مندشخص اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرے اور کام کے مطابق معاوضہ لے جب کہ تعلیم ،ریہائش،علاج،روزگار ریاست کی اولیں ذمہ داری ہو گی ۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت!

تحریر: کامریڈ عرفان علی ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت میں خوشیاں منانے والے پاکستانیوں کو اندازہ نھیں دنیا کیسے،کیوں معاشی بحرانوں کی زد میں ہے اور یہ کہ ٹرمپ کے سلوگن امریکی عوام کو بیوقوف بنانے کے سوا کچھ نھیں ہیں۔(بیشک سرمایہ دارانہ نظام لوگوں کو بیوقوف بنا کر ہی قایم رہتا ہے). حقیقت حال یہ ہے کہ دنیا کو بہرحال خوفناک جنگوں اور بحرانوں کا سامنا رہے گا کیونکہ سرمایہ داری نظام میں نراج و استحصال لازمی عوامل ہیں،ٹرمپ امریکی عوام کو معاشی بہتری نھیں دے سکتے باقی دنیا تو بہرحال مزید خوفناک پابندیوں ،سرد گرم جنگوں اور عصبیتوں کا شکار رہے گی۔ امریکہ چین روس تنازعات میں شدت پیدا ہو گی۔ٹرمپ انتظامیہ دنیا میں آپنی اجارہ داری و سامراجیت کے خونی پنجے مزید قوت سے گاڑے گی۔یعنی یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی کی مانِند اب کی بار بھی انتخابی نعروں کو جیت کے ساتھ ہی بھلا کر روایتی تسلط و طبقاتی مفادات کے لیے ہی گھناؤنی سامراجی پالیسیاں بنیں گی اور جاری رہیں گی۔جن سے نہ تو امریکی محنت کش عوام کو اور نہ ہی دنیا کے دیگر ممالک خصوصاً ترقی پذیر ممالک کو ریلیف ملے گا۔ لہٰذا جو پاکستانی ٹرمپ کی جیت کو اپنی جیت سمجھ رہے ہیں وہ نہایت خوش فہمی کا شکار ہیں۔ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ کو چین روس اور دیگر ہمسایوں کے خلاف استعمال کرنے پہ مجبور کیا جاے اور ہماری حکمران اشرافیہ کافی کچھ کرنے کو تیار بھی ہو جائے گی۔مگر یہ ضروری نھیں کہ امریکی اجارہ داری مزید بڑھے۔امریکہ کا عالمی سیاست و معیشت میں اپنا کردار و حصہ بڑھانے کی کوشش پاگل پن کی انتہا ہو گی مگر آگے بڑھنا نہایت مشکل جب کہ پیچھے ہٹنا اسے گوارا نھیں ہوگا اسی کشمکش سے دنیا میں نئی انقلابی لہریں اٹھیں گی ۔ دنیا انقلابوں کی دہلیز پہ کھڑی ہے بے شک،، ایک چنگاری پورے گیاہستان کو جلا کر راکھ کر سکتی ہے،،۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

،،توں دھی نوں سکولوں ہٹا لئے،،

تحریر: کامریڈ عرفان علی کم از کم پچیس چھبیس سال تک ماں باپ اپنی بیٹی کو تعلیم کی غرض سے گھر بٹھاتے ہیں اس پہ پیسے خرچ کرتے ہیں اس کی گزرتی عمر سمیت ہزاروں قسم کے خدشات ،ٹینشنوں کی اذیت برداشت کرتے ہیں۔اس لڑکی کے بچپن اور جوانی کے ہزاروں حسیں دن ،ہزاروں سپنے قربان ہوتے ہیں۔ تب جا کر والدین کے خوابوں کو تعبیر ملتی ہے اور وہ لڑکی ڈاکٹر بن کرتمہاری بہو رانی کا ڈیلیوری (زچگی)کا آپریشن کرنے کے قابل بنتی ہے شاید تمہاری بہو رانی تب تک پانچواں بچہ پیدا کر چکی ہو۔تمہاری بہو رانی کے بیٹی بیٹے کو پڑھانے کے قابل یعنی معاشرے کا ایک مفید شہری بنتی ہے،اپنی امنگوں کو جلا کر اندھیروں میں روشنی کرتی ہے تاکہ نسل انسانی کو جینے کا ڈھنگ ،منزل کا پتہ اورفلاح کا راستہ ملے۔اور انھیں حالات میں تم جھوم جھوم کے کہتے(گاتے )ہو،،توں دھی نوں سکولوں ہٹا لئے گھر پردے وچ بٹھا لئے ،گھر پردے وچ بٹھا لئےاوتھے ڈانس کر دی پئی آے،، ذرا سوچو اگر بیٹیوں کو نہ پڑھایا جائے تو کون تمہاری بہو رانی کا آپریشن کرے گا۔جو بچے وہ ہر سال پیدا کررہی ہےان بچوں خاص کر بچیوں کو کون پڑھائے گا،کون حفاظتی ٹیکے لگائے گا؟ مگر سوچنے کے لیے بہرحال ایک عدد نارمل دماغ کی ضرورت ہوتی ہے جو بدقسمتی سے تمہارے بچپن میں ہی تم سے کہیں چھین لیا گیا تھا اور اس کی جگہ ایک ،،پروگرامنڈ روبوٹ ،،بھیجے میں فٹ کردیا گیا۔اس لیے کہ مقتدرہ کی ضرورت روبوٹس تھے جو آرڈرز کی تعمیل کریں دماغ تو سؤال اٹھاتے ہیں ایسے سوالات کے جن کا جواب حاکموں کی نیندیں اڑا دے ان کی عیاشیوں کے تاج محل ہلا کر رکھ دے لہذا سوالات سے بچنا ضروری ہے اگر اپنی لوٹ مار کو ،اپنی اجارہ داری کو ،استحصالی نظام کو قائم دائم رکھنا ہے۔تو پھر روبوٹس پیدا کرو ،روبوٹس پیدا نھیں ہوتے بنانا پڑتے ہیں لہذا روبوٹس بناؤ ،لاکھوں کروڑوں روبوٹس بناو۔ ہاں ان روبوٹس کے درمیان اگر کوئی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والا دماغ بدقسمتی سے پیدا ہو جاے،تمہارے روبوٹک سسٹم سے آؤٹ ہو جاے،تمہارے سگنل قبول کرنے کی بجائے قدرت کا عطیہ دماغ استعمال کرےتو باقی روبوٹس مل کر اسے قتل کردیں۔اور تمہارے نظام پہ ،تمہاری ریپوٹیشن پہ بھی کوئی حرف نھیں اے گا۔ لہذا روبوٹس پہ انویسٹمنٹ کرو یہ فائدے کی چیز ہیں۔پھراس طرح کے پچھڑے ہوے نمونوں کو سوسائٹی میں قبول عام پانے میں مدد دو تاکہ وہ ہزاروں سکول بموں سے اڑا دیں تب بھی لوگ کہتے رہیں کہ نھیں جی یہ تو کسی دشمن کی سازش ہے یعنی ان روبوٹس پہ کوئ انگلی نھیں اٹھنی چاہیے!کیونکہ روبوٹس آخر اس نظام کہنہ کی بقا کے ضامن ہیں۔خوں کے وہ دھبے جو حاکموں کے دامن پہ لگے تھے وہ روبوٹس کس صفائی سے واش کرتے ہیں۔جیسے پورے حکمران طبقے کو ڈرائی کلین کردیا ہو۔اور خون ناحق پہ یا توکوئی بولنے والا نہ ہو یا پھر اس کے پاس کوئی ثبوت ہی نہ بچے۔سماج کی تشکیل ایسے ہو یعنی سوسائٹی ایسا روپ دھار چکی ہو کہ جہاں روبوٹس ہی قتل کریں،روبوٹس ہی گواہ بنیں،روبوٹس ہی عدل کریں۔ تو لگے رہو منےبھیا، شاباش لگے رہو ان کے پیچھے اگلی کئی پشتوں کے جاہل رکھنے کا بندوبست کیا جا چکا ہے۔علم اور خاص کر وہ جس کی بابت بلھے شاہ نے کہا تھا ،،اساں پڑھیا علم تحقیقی اے،،اگر کوئی ایسی غلطی کرے تو اسے مارنے کا پورا پورا بندوبست ہو چکا ہےتم بس جھوموں گاؤ ،،توں دھی نوں سکولوں ہٹا لیے، گھر پردے وچ بٹھا لئے،گھر پردے وچ بٹھا لئے اوتھے ڈانس کردی پئی اے،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔! کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

روس میں برکس کا اجلاس

تحریر: کامریڈ عرفان علی شنگھائی تعاون تنظیم کے بعد روس میں برکس کا اجلاس روس کے شہر کازان میں جاری ہےجس میں آپسی تجارت اور لین دین کو ڈالر کے مقابلے میں یوآن وغیرہ جیسی کرنسی میں کرنے کی طرف پیش رفت بھی ممکن ہے۔ اسرایئلی بربریت کے خلاف بھی واضح موقف اپنایا گیا۔ عالمی سیاست میں زبردست تبدیلیاں اور تضادات کھل کر واضح ہو رہے ہیں۔دنیا میں امریکی سامراج کے مقابلے میں برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے ادارے امید کی کرن ہیں۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

ہشت نگر کو سلام

ٹحریر: کامریڈ عرفان علی ہشت نگر کے ساتھیوں کی کمٹ منٹ کو سرخ سلام! مزدور کسان پارٹی ہشت نگر کے تمام کارکنان و رہنماؤں کو اس کامیاب جلسے کے انعقاد پر مبارکباد ۔یہ جلسہ جہاں بہت کامیاب تھا وہیں کیئ حوالوں سے نیئ روایات کا امیں بھی تھا۔ہشت نگر کہ جہاں کی خواتین (خصوصاً کسان فیملیز کی خواتین)کاجلسوں میں جانا نہایت معیوب سمجھا جاتا رہا ہے۔وہاں مزدور کسان پارٹی کے چیئرمین کی خصوصی کاوشوں سے عورتوں کے سیاسی رول کو قبول کرنے اور اسے محنت کش طبقے کے حقوق کے تحفظ کی ایک ناگزیر ضرورت و قوت سمجھتے ہوے یہ موقع دیا گیا کہ وہ جلسہ گاہِ آیئں اور سیکھنے کے ساتھ ساتھ جلسہ کی کامیابی میں یعنی مزدور کسان پارٹی کی بڑھوتری میں اپنا کردار ادا کریں جس پہ وہاں کی بہادر خواتین نے لبیک کہا۔سچی بات تو یہ ہے کہ یہ ہمت ہمارے شہروں میں بسنے والے کامریڈز کی اکثریت کو بھی نھیں ہوتی کہ وہ اپنی خواتین کو جدوجھد میں شانہ بشانہ لیکر چلیں ۔لہذا یہ ہشت نگر پارٹی کی ایک مزید خاص اچیومنٹ ہے جسے نظر انداز نھیں کیا جانا چاہیے بلکہ رول ماڈل کے طور پہ اس کا احترام کرتے ہوے اسے اپنانا چاہیے ۔اس جلسے میں نوجوانوں کا ذمہ دارنہ جوش و جذبہ،ہزاروں افراد کے اس جلسے میں مقررین کی بات سنتے ہوے یوں سناٹا چھا جاتا کہ جیسے یہاں کوئ موجود ہی نہ ہو ،مجال ہے کوئ آپس میں ،،چرچر ،،کرے بلکہ پوری توجہ اور انہماک سے ہر مقرر کی گفتگو سنی گیئ۔سالار فیاض علی چئیرمن مزدور کسان پارٹی کے نام کے پشتو زبان میں نغمے ایک مجاہدانہ سرور و کیف کی مستی کا ماحول پیدا کررہے تھے۔پنڈال میں سرخ جھنڈے اورمزدور کسان پارٹی زندہ باد کے فلک شگاف نعرے شرکاء کی پارٹی سے محبت کا خوبصورت اظہار کررہے تھے۔کامریڈ سپرلے کی ہدایات کے مطابق سیکیورٹی و انتطامات نہایت احسن انداز میں نبھاے گیے،سالار امجد علی ،سالار فیاض علی اور کامریڈ تیمور رحمان سمیت کچھ دیگر سینئر ساتھی مہمانوں کا استقبال کرتے رہے اور پھر سٹیج سے مخصوص تقاریر ہویئں۔لاہور سے آل پاکستان ٹریڈ یونین کی رہنما محترمہ روبینہ جمیل صاحبہ،ناصر گلزار چوہدری صاحب اور کامریڈ رفاقت آزاد سمیت مقامی رہنما سٹیج کی زینت رہے ۔ ہر کارکن ایک شاندار ذمہ داری کا مظاہرہ کررہا تھا۔ہشت نگر کے ان بہادر ساتھیوں خصوصاً سالار فیاض علی کی کمٹمنٹ کو سرخ سلام اور کامیاب جلسہ کے انعقاد پہ مبارکباد! کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی  

بھارت کی ہوا

تحریر: کامریڈ عرفان علی بھارت کی ہوا لاہور پہنچ گیئ یہ خبر ایسے بریک کی جارہی ہے جیسے یہ بھی یا تو انڈیا کی سازش ہو،یا یہ ہوا ہندو ہو جو پاک صاف و شفاف ماحول کو پلید کرنے آئی ہو،جیسے یہ کافر ہوا ہی فیض کے اشکوں سے معطر باد صبا کی قاتل ہو۔ ہمارے ٹی وی چینلز اور حکمران اشرافیہ مجال ہے اپنی کوتاہی و نااہلیوں کا اقرار کریں بلکہ اسے بھی انڈیا کا کیا دھرا قرار دیا جا رہا ہے یا ان کے سر تھوپنے کی کوشش ہے۔ٹھیک ہے بھارت سے بھی آلودہ ہوا آ رہی ہو گی مگر تم نے کون سے باغات و بلین ٹریز لگانے کے دعوے و وعدے وفا کیےہیں،کونسا اچھا ٹرانسپورٹ سسٹم ڈیویلپ کیا ہے،کونسا گردو غبار و دھویں کا کوئی بندوبست کیا ہے۔ایئر کوالٹی دنیا میں سالہا سال سے دنیا میں سب سے بری جا رہی ہے۔ تمہیں سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی نہ توفیق ہے نہ صلاحیت رکھتے ہو تمہیں تو شوق حکمرانی کی تکمیل کا جنون ہے، دولت سمیٹنے کا خبط ہے ،اپنی ذات کا غم ہے تمہیں کیا خبر سماج کن پستیوں میں ،جمہور کن مصیبتوں کا شکار ہے۔ ویسے بھی کوئ بھی وبا آے متاثر تو غریبوں ،مزدوروں،کسانوں نے ہونا ہے،جن کے پاس نہ تو بچاؤ کے اسباب ہیں نہ وہ بند کھڑکیوں میں بیٹھے گزارا کر سکتے ہیں۔ جو بات سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ سرمایہ داری نظام نہ صرف محنت کش طبقے کی محنتوں کو لوٹنے اور انسانی استحصال کو قائم رکھنے وآلہ نظام ہے بلکہ قدرت کو بھی متاثر کرتا ہے۔انھے واہ پیداوار اور منافعے کی حوس اس نظام کا خاصہ ہے جو سراسر غیر انسانی سسٹم ہے۔ لہذا اس سرمایہ داری نظام کی موجودگی میں انسانیت سکھی نھیں رہ سکتی ۔ظلم و استحصال کا خاتمہ ممکن نھیں۔بہتری کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ اس نظام کے ملبے پہ اشتراکی سماج تعمیر کیا جاے۔سوشلسٹ دنیا ہی انسانیت کی بقاء و صحت مند سماج کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اشتراکیت(سوشلزم)زندہ باد سرمایہ داری مردہ باد۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

پاک چین تعلقات پر تنقید

پاک چین تعلقات پہ تنقید ؟ عالمی تعلقات خاندانی رشتے نھیں ہوتے،یہ تعلقات عقیدے،درد، احساس اور قربانی کے جذبےکی بجائے قومی مفادات کی بنیاد پہ قائم ہوتے ہیں۔آپ سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ تعلقات و معاہدے دیکھ لیں،اپ ایران کے ساتھ ہونے والا گیس پائپ لائن معاہدہ دیکھ لیں جس کی عدم تکمیل کی بنیاد پہ ایران 18 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کررہا ہے جو بیشک حق بجانب ہے۔یعنی مذہبی قربت کے باوجود آپ اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں۔ویسے بھی قرض دینے والے اور قرض لینے والے کبھی برابر نھیں ہوتے نہ ہی سودے بازی برابری کی بنیاد پہ ہوتی ہے۔ آپ کو چین کے ساتھ ہونے والے معاہدوں میں چینی استحصال ستا رہا ہے تو آپنے حاکموں کے خلاف جدوجھد کریں کہ وہ نہ صرف چین کے ساتھ بلکہ ہر ملک کے ساتھ معاہدے کرتے وقت قومی مفادات میں بہتر حکمت عملی نھیں بناتے بلکہ اکثر اپنے ذاتی کمشنوں اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ بھئی ،،اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرو،،دیکھو کہیں چور تمہارے اپنے گھر میں ہی چھپا ہے اور تم دوسروں کو طعنے دیتے پھرتے ہو۔ پھر تمہاری ریاست کونسی سوشلسٹ (مزدور)ریاست ہے جو چین تمھیں خصوصی سہولیات،عنایات و رعیایات ،بخشے،تم عالمی سامراج کی دلالی میں ہر حد کراس کر جاتے ہو،تم سامراج کو اڈے دیتے ہو، سامراج کی پراکسی وار میں فرنٹ لائن سٹیٹ بنتے ہو،تم ورلڈ بنک اور آئ ایم ایف سے قرض ملنے پہ بغلیں بجاتے ہو،تم ملٹی نیشنل کمپنیوں کے وارے نیارے جاتے ہو،تم ہمیشہ امریکہ کی خوشنودی چاہتے ہو،اور چین سے یہ امید رکھتے ہو کہ وہ اپنے خسارے برداشت کرتے ہوے،اپنے بندے مرواتے ہوے تمھیں فایدے دے،ترقی کی منازل طے کرنے میں فی سبیل اللہ مدد دے۔یعنی ،،کھان پین نوں اللہ رکھی دھون بھناؤن جما،،۔ وہ جان توڑ جدوجھد کے بعد ،خونی انقلاب کے بعد اس منزل پہ پہنچے ہیں تم بھی جدوجھد کرو اور یہ مقام حاصل کرو۔ پاکستانی ٹرکوں ،ٹرالیںوں کے پچھے لکھا ہوتا ہے ،،جلنے والے کا منہ کالا،،اور یہ کہ محنت کر حسد نہ کر تم بھی محنت کرو اور ثمر پاؤ! چین کی ترقی و خوشحالی سے جلنے کا کچھ فایدہ نہیں ہو گا،ویسے بھی پنجابی میں کہتے ہیں کہ ،،ہانڈی ابلے گی تے اپنے ای کنڈھے ساڑے گی،،۔ چین نے یہ منزل خونی انقلاب کے بعد پائی ہے تم بھی انقلابی جدوجھد کرو اور اس مقام کو پا لو جہاں مزدور دوست ،وطن دوست پالیساں بنا سکو۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی