عظیم رہنما کون ہوتا ہے؟

تحریر: رائے ظہیر حسین *آخر عظیم رہنما کون ہوتا ہے؟* ہر دور میں انسان کی خواہش رہی ہے کہ اسے ایک ایسا رہنما ملے جو اس کی راہنمائی کرے، جو اسے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے، جو اس کی مشکلات کا حل پیش کرے اور جس کی بصیرت اسے نئے راستے دکھائے۔ دنیا کی تاریخ ایسی شخصیات سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنے اپنے زمانے میں قوموں کی قیادت کی، انہیں مشکلات سے نکالا، ترقی کے راستے پر گامزن کیا، اور ہمیشہ کے لیے تاریخ میں اپنا نام چھوڑا۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر عظیم رہنما کون ہوتا ہے؟ کیا وہ شخص جو جنگی میدان میں فتوحات حاصل کرے؟ یا وہ جو عوام کے دلوں میں گھر کر لے؟ عظیم رہنما کی خصوصیات کیا ہیں اور اس کی رہنمائی کی قیمت کیا ہے؟ عظیم رہنما ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو نہ صرف لوگوں کو راستہ دکھاتا ہے بلکہ ان کے لیے ایک مثال قائم کرتا ہے۔ وہ اپنی شخصیت، بصیرت، اور عملی زندگی کے ذریعے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ عظیم رہنما کو صرف اس کی سیاسی یا فوجی کامیابیوں کی بنیاد پر نہیں پرکھا جا سکتا، بلکہ اس کی عظمت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس نے اپنی قوم یا انسانیت کے لیے کیا کیا ہے۔ عظیم رہنما کے لیے ضروری نہیں کہ وہ تخت و تاج کا مالک ہو یا جنگی میدان کا فاتح ہو۔ ایک معلم، ایک مصلح، یا ایک روحانی رہنما بھی اپنی عظیم قیادت سے لوگوں کو روشنی کی راہ دکھا سکتا ہے۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ہر دور میں ایسے رہنما ملتے ہیں جنہوں نے اپنے علم، عقل، اور حکمت سے لوگوں کو متاثر کیا۔ ان میں بعض نے اپنے زمانے کے اصولوں کو چیلنج کیا، کچھ نے معاشرتی اصلاحات کیں، اور بعض نے انسانی اقدار کو نئی بلندیوں پر پہنچایا۔ ہر عظیم رہنما کا ایک منفرد انداز ہوتا ہے، لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے: وہ اپنے نظریات اور اصولوں پر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں اور اپنی قوم کو بھی اسی راستے پر گامزن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ محمد علی جناح کی شخصیت کا ذکر کیے بغیر عظیم رہنما کی بات ادھوری رہتی ہے۔ وہ ایک وکیل تھے، سیاست دان تھے، لیکن ان کی عظمت صرف ان کے پیشے میں نہیں تھی بلکہ ان کے وژن، اصول پرستی، اور عوام کے ساتھ اخلاص میں تھی۔ ان کی قیادت نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی پہچان دی بلکہ ان کے وژن نے ایک نئی مملکت، پاکستان، کی بنیاد رکھی۔ جناح کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ وہ ایک ایسے وقت میں مسلمانوں کے رہنما بنے جب ان کی قوم بکھری ہوئی تھی، تقسیم کا شکار تھی، اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک مؤثر قیادت کی تلاش میں تھی۔ جناح نے نہ صرف مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑی بلکہ ان کے لیے ایک الگ وطن کا خواب دیکھا اور اسے حقیقت میں بدلنے کے لیے انتھک محنت کی۔ ان کی قیادت کا خاصہ یہ تھا کہ وہ اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑے رہتے تھے۔ ایک عظیم رہنما کی خصوصیات میں بصیرت، اخلاص، اصول پرستی، اور عوام کے ساتھ گہری وابستگی شامل ہوتی ہیں۔ جناح کی زندگی ان تمام خصوصیات کی عملی مثال تھی۔ انہوں نے اپنی قوم کو نہ صرف ایک نیا وطن دیا بلکہ انہیں ایک نئی شناخت بھی دی، اور ان کے ساتھ ہر لمحہ کھڑے رہے۔ اگرچہ محمد علی جناح کی قیادت اور گاندھی کی قیادت میں فرق تھا، لیکن گاندھی بھی ایک عظیم رہنما کے طور پر تاریخ میں درج ہیں۔ ان کی قیادت کا انداز مختلف تھا۔ انہوں نے عدم تشدد کو اپنا شعار بنایا اور برطانوی حکومت کے خلاف تحریک چلائی۔ ان کی قیادت کا محور یہ تھا کہ ظلم کے خلاف لڑائی میں تشدد کا کوئی جواز نہیں۔ گاندھی کا ماننا تھا کہ ظلم کا مقابلہ صبر اور عدم تشدد کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ گاندھی کی قیادت نے ایک پورے قوم کو متحد کیا، اور ان کی عدم تشدد کی تحریک نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک نیا باب رقم کیا۔ ان کی قیادت کی مثال اس بات کی گواہ ہے کہ عظیم رہنما صرف جنگجو نہیں ہوتے، بلکہ وہ بھی ہوتے ہیں جو امن اور صبر کے راستے پر چلتے ہوئے قوموں کو آزادی اور حقوق دلانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ عظیم رہنما بننے کے لیے صرف مقبولیت یا طاقت کا حصول کافی نہیں ہوتا۔ ایک عظیم رہنما میں مخصوص خصوصیات ہوتی ہیں جو اسے دیگر لوگوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ بصیرت: عظیم رہنما ہمیشہ دور اندیش ہوتا ہے۔ وہ موجودہ حالات کو سمجھتے ہوئے مستقبل کی پیش بینی کرتا ہے اور قوم کو ایسے راستے پر گامزن کرتا ہے جو نہ صرف وقت کی ضرورت ہو بلکہ مستقبل میں بھی کامیابی کا ضامن ہو۔ اصول پرستی: ایک عظیم رہنما ہمیشہ اصولوں پر قائم رہتا ہے۔ وہ کبھی بھی وقتی مفادات کی خاطر اپنے نظریات اور اصولوں کو نہیں چھوڑتا۔ اصول پرستی عظیم رہنما کی طاقت ہوتی ہے اور یہ اسے دوسروں کی قیادت کے مقابلے میں ممتاز کرتی ہے۔ اخلاص: عظیم رہنما ہمیشہ عوام کے ساتھ مخلص ہوتا ہے۔ وہ اپنے ذاتی مفادات کی بجائے عوام کے مفادات کو مقدم رکھتا ہے۔ اس کا دل عوام کے ساتھ دھڑکتا ہے اور وہ ان کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ استقامت: عظیم رہنما مشکلات اور مصائب کا سامنا کرتے ہوئے کبھی ہمت نہیں ہارتا۔ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہمیشہ ڈٹے رہتے ہیں اور اپنی قوم کو بھی ثابت قدمی کا درس دیتے ہیں۔ قربانی: عظیم رہنما کبھی بھی اپنی قوم کی خاطر قربانی دینے سے نہیں گھبراتا۔ چاہے وہ اپنی زندگی ہو یا اپنے عہدے کا نقصان، وہ ہمیشہ قوم کی بھلائی کے لیے تیار رہتا ہے۔ عظیم رہنما کو عوام کی حمایت اور اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ ایک ایسا رہنما جو عوام کے دلوں میں گھر کر لے، وہی حقیقی طور پر عظیم رہنما کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔ عوام