لیڈرز : الفاظ اور اعمال
تحریر: قیوم نظامی لیڈرز کے الفاظ اور اعمال میں مطابقت اور تضادات پر نظر رکھنا ہر عہد کی نسل کا فرض اولین ہونا چاہیے – قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان پاکستان کے دو عظیم لیڈرز تھے جن کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا ہم ان پر فخر کرتے ہیں ـ قائد اعظم نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ میرے سیاسی مخالفین ہمیشہ عوام کو خوش کرنے کے لیے تقریریں کرتے ہیں مگر میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ میں عوام کی درست رہنمائی کروں چنانچہ وقت گزرنے کے بعد میرے سیاسی مخالفین کی باتیں غلط ثابت ہوتی ہیں جب کہ میری باتیں جو میرے ضمیر کے مطابق اور عوام کے مفاد میں ہوتی ہیں وہ سچ ثابت ہوتی ہیں ـ ایک اور موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ہمیں عوام کو ہمیشہ سچ بتانا چاہیے جب ہم عوام کو اعتماد میں لے کر سچ بتاتے ہیں تو ہمارے لیے بڑی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں اور عوام اعتماد کرتے ہوئےتعاون کرتے ہیں ـ شاعر مشرق علامہ اقبال مفکر اور لیڈر تھے ان کے الفاظ اور اعمال میں کوئی تفاوت نہیں ہوتا تھا انہوں نے اپنے ایک خوبصورت شعر میں کہا تھا- اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش میں زہر ہلاہل کو کبھی کہ نہ سکا قند اقبال نے طنزیہ لہجے میں گفتار اور کردار کے تضاد کو اپنے اس شعر میں بیان کیا – اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں سے موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا عمل اور کردار میں تسلسل عظیم لیڈر کی بڑی خوبی ہوتی ہے-چرچل نے 13 مئی 1940 کو ہاؤس آف کامنز میں خطاب کرتے ہوئے عہد کیا کہ” وہ نازی جرمنی کا مقابلہ کرے گا- میرے پاس خون محنت آنسو اور پسینہ پیش کرنے کے علاؤہ اور کچھ نہیں ہے-ہم ہر قیمت پر اپنی سر زمین کا دفاع کریں گے- ہم اپنے ساحلوں پر زمینوں پر کھیتوں پر پہاڑوں اور گلیوں میں جنگ کریں گے اور کبھی ہتھیار نہیں ڈالیں گے”- چرچل نے اپنے ان الفاظ پر عمل کیا اور جنگ جیت لی ـ جب جنگ کے دوران ایک صحافی نے چرچل سے پوچھا کہ کیا برطانیہ کا مستقبل محفوظ ہے چرچل نے پوچھا کیا برطانوی عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں اگر کر رہی ہیں تو برطانیہ کا مستقبل محفوظ ہے- چرچل نے جنگ جیت لی مگر برطانوی عوام چرچل کی جماعت ٹوری پارٹی کے ساتھ وابستگی کا تسلسل قائم نہ رکھ سکے اور لیبر پارٹی انتخابات جیت گئی-چرچل نے لارڈ موران سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” میں ساری زندگی کوشش کرتا رہا ہوں کہ تسلسل کی بجائے درست رہوں میں اپنے کہے ہوئے الفاظ ہضم کرتا رہا ہوں جو میری صحت کے لیے سازگار رہے”ـ لیڈروں کو قول و فعل کے تضادات کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے- لیڈر کا اخلاقی کردار قوم کی کامیابی کا ضامن بنتا ہے- قائد اعظم نے شفاف اور مستحکم کردار کی بناء پر مسلمانوں کے لیے آزاد وطن حاصل کر لیا- قیام پاکستان کے چھ ماہ بعد خزانہ خالی ہو گیا انگریز کے تربیت یافتہ سٹاف نے قائد اعظم کو مشورہ دیا کہ وہ عوام کو نہ بتائیں کہ خزانہ خالی ہو گیا ہے- قائد اعظم نے پر اعتماد لہجے میں کہا کہ پاکستان کے مالکوں سے سچ نہ چھپاؤ جب تم عوام سے سچ چھپاتے ہو تو تمہاری مشکلات کا آغاز شروع ہو جاتا ہے لہذا عوام کو سچ بتاؤ چنانچہ اعلان کیا گیا کہ قومی خزانہ ختم ہو چکا ہے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دینے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں پاکستان کے عوام نے کروڑوں روپے” پاکستان فنڈ” میں جمع کرا دیے اور اس طرح پاکستان کےپہلے معاشی بحران پر قابو پا لیا گیا- آزادی کی تحریکوں اور گورننس کے دوران بہت کم لیڈرز ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ماضی کے الفاظ اور بیانات پر پہرہ دیتے ہیں- اکثر لیڈرز تکبر کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنے الفاظ اور وعدے تبدیل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے- ایسے لیڈر تاریخ کے اوراق میں گم ہو جاتے ہیں- جو لیڈر اپنے قول اور فعل میں مطابقت قائم رکھتے ہیں وہ انسانی تاریخ میں چاند ستاروں کی طرح جگمگاتے رہتے ہیں- امریکی لیڈر فرینکلن روزویلٹ کا شمار امریکہ کے بانی لیڈروں میں ہوتا ہے- اس نے سیاست اور کردار کا مثالی رول ماڈل پیش کیا 1941 میں جنگ کی قیادت کی اور قومی پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھا امریکی قوم نے اسے چار بار امریکی صدر منتخب کیا- چین کے عظیم لیڈر ماؤزے تنگ نظریہ اور کردار پر بڑی اہمیت دیتے تھے-انہوں نے کمیونسٹ پارٹی کے کامریڈوں کی نظریاتی تربیت اور اخلاقی کردار پر کئی کتابچے تحریر کئے- ماؤزے تنگ کا ثقافتی انقلاب بھی ایک حوالے سے سیاسی و نظریاتی تربیت کے لیے تھا- ان کی خواہش تھی کہ پرانا فیوڈل کلچر اور ذہنیت ختم ہو جائے تاکہ اجتماعی عوامی ترقی کے منصوبے کامیاب ہو سکیں- چین کے انقلاب کو کسانوں کا انقلاب کہا جاتا ہے کیونکہ اسی انقلاب میں دیہاتوں کے کسانوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا-ماوزے تنگ نے اپنے خطاب 1945 میں کہا کہ چین کے کسان ہی صنعتی انقلاب لائیں گے اور صنعتوں میں مزدور کی حیثیت میں کام کریں گے-مستقبل میں لاکھوں کسان شہروں کا رخ کریں گے اور وہاں پر صنعت کی ترقی میں کردار ادا کریں گے- ماؤزے تنگ نے سب سے پہلے دیہاتوں کی ترقی کی طرف توجہ دی جب دیہات ترقی یافتہ ہو گئے تو شہروں کو ترقی یافتہ بنانے میں کوئی مشکل پیش نہ ائی-جو ملک دیہاتوں کو نظر انداز کرکے صرف شہروں پر توجہ دیتے ہیں وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ دیہاتوں کے لوگ ہجرت کر کے شہروں کا رخ کرنے لگتے ہیں-ماوزے تنگ نے کہا کہ کسان ہی صنعتی پیداوار کی بڑی منڈی ثابت ہوتے ہیں اور صنعتوں کی ترقی کے لیے نہ صرف خوراک بلکہ دوسری اشیاء بھی شہروں کو سپلائی کرتے ہیں-کسان ہی فوج میں بھرتی ہوتے ہیں اور فوج کی مضبوطی اور استحکام کا سبب بنتے ہیں-کسان ہی بنیادی جمہوریت کے استحکام میں کردار