ووٹ

کسی بھی معاشرے  میں اظہار رائے ایک بنیادی اہمیت کا حامل  حق ہے۔ موجودہ عہد کے سیاسی معاملات  میں آزاد اور خودمختار ووٹ جمہوریت کی بنیاد ہے  اور اظہار رائے کا ذریعہ بھی۔جب انسانی ووٹ حقیقت اور انسانیت کی عکاسی کرتا ہے تو وہ جمہوری ووٹ ہےاگر ووٹ حقائق کو نظرانداز کرکےکسی کے کہنے پر خوفزدہ ہوکر یا عقیدت عصبیت اور جارحیت یا لالچ کی ؤجہ سے دیا جائے تو وہ جمہوریت کی نہیں  آمریت کی عکاسی کرے گا۔ اس سے جمہوریت کی بجائے آمریت کی نشوونما ہو گی اور معاشرے کے اندر تشدد جبر اور تسلط بڑھتا چلا جائے گا اور معاشرہ زوال پذیر ہو گا۔ اس قسم کے ووٹ کو یونی پولر وہ کہتے ہیں۔

اظہار رائے

آج کل پاکستان میں جس قسم کی جمہوریت رائج ہے  اس میں آپ کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ آپ الیکشن میں حصہ لینے والے چند امیدواروں میں سے ایک نمائندہ چن لیں۔ اگر الیکشن میں کھڑا ہونے والے تمام امیدوار آپ کو پسند نہیں ہیں تو آپ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کر سکتے اگر آپ نے کسی کو بھی ووٹ نہیں دینا تو  آپ ووٹ نہ دیں اور الیکشن میں حصہ نہ لینے کے باعث اس پورے سسٹم سے باہر ہو جائیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنا ووٹ دینے میں تھوڑی سی ازادی رکھتے ہیں لیکن مکمل آزادی نہیں رکھتے۔ اس کو ہم بائی پولر  سسٹم کہہ سکتے ہیں لیکن آپ کے ووٹ کو آزادی اس وقت ملے گی جب آپ کو اس بات کی اجازت ہو کہ آپ کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ  دے کر پورے سسٹم کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔یورپ کے زیادہ تر ملکوں میں اس قسم کا نظام رائج ہے بلکہ وہاں پر تو اس بات کی بھی اجازت ہے کہ اگر آپ ایک امیدوار کو پسند نہیں کرتے تو اس کے خلاف بھی ووٹ دے سکتے ہیں۔

یعنی آپ جب کسی بھی سیاسی یا سماجی میں معاملے میں اتفاق اختلاف اور سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہوں تو اظہار رائے کا یہ طریقہ کار ٹرائی پولر سمجھا جاتا گا ۔جمہوری ووٹ یا ٹرائی پالر ووٹ ہر طرح سے آزاد ہوتا ہے  اور یہی ووٹ  جمہوری یا وزڈم ووٹ کہلائے گا۔

پیمانہ یکجہتی رائے

جب ہم کسی بھی معاملے کے بارے میں سوچتے ہیں  تو اچانک  نتیجے پر نہیں پہنچ جاتے پہلے ہم اس کے بارے  میں معلومات اکٹھی کرتے ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ ہمیں کون کون اوپشن یا ترجیحات میسر ہیں یا کون کون سے طریقہ کار اختیار کر کے ہم اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں ۔ ان ترجیحات پر غور کرتے ہیں یہ سوچتے ہیں  اگر ایسا کیا جائے تو اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے اس کے بعد ہم ایک اپنا عارضی فیصلہ کرتے ہیں اور اس کے نتائج کو پرکھ کر ایک شعوری فیصلے تک پہنچتے ہیں۔لیکن جب ہم ووٹ ڈالتے  ہیں تو ہمارے پاس اس ایک شخص کو ووٹ دینے یا نہ دینے کی آپشن موجود ہوتی ہے۔یعنی ہم ایک  شخص کو یا تو اچھا سمجھ لیں اور اس کو ووٹ دے دیں یا برا سمجھ لیں اور اس کو ووٹ نہ دیں حالانکہ ہم تمام امیدواروں کے بارے میں  زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ہمارا ووٹ مکمل طور پر آزاد اس وقت ہوگا جب ہم اس بات کا فیصلہ کرنے کے قابل ہو جائیں کہ ایک شخص اچھا ہے دوسرا اس سے بہتر ہے لیکن تیسرا بہترین ہے اور ہم تینوں کو اپنے ووٹ کا کچھ حصہ ڈالیں دنیا کے بہت سارے ملکوں  میں اس بات کی اجازت ہے  کہ ووٹر چند  امیدواروں کو یا  سب امیدواروں کو اپنی ترجیحات کے مطابق ووٹ ڈال سکیں اس طریقہ کار میں عام طور پر ووٹر اپنی پہلی دوسری تیسری  چوتھی ترجیحات بتا دیتا ہے پاکستان میں بھی یہ طریقہ کار وکلاء تنظیموں کے اندر رائج ہے۔ ووٹر کو ترجیحات کی آپشن دینے سےووٹ مکمل طور پر آزاد اور جمہوری ہو جاتا ہے۔

اگر ہم سائنسی طریقہ کار کو اختیار کریں تو ہم اپنی  رائے کا تجزیہ فیصد سکیل کے ذریعے کر سکتے ہیں

 بنیادی سوچ تا سمجھ  7 تا 50 فیصد رائے

سمجھ تا تجویز 50 تا 54 فیصد رائے

ایجنڈا 55 فیصد رائے

یکجہتی تا تجرباتی فیصلہ63 تا70 فی صد  رائے

سائنسی تجربات اور تجزیہ یہ  بتاتا ہے کہ ہمیں کسی بھی معاملے میں سوچ وچار  کرنے کے بعد  اپنی رائے  کو تعمیر کرنا چاہیے  جب ہم 55فیصد رائے تعمیر کر لیں تو ہم اس کو تجویز یا ایجنڈا کی شکل میں دوسرے لوگوں کے سامنے رکھ سکتے ہیں اور ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے دوسرے لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہماری تجویز کے حق میں یا مخالفت میں اپنی رائے کا اظہار کریں اگر ہماری تجویز میں 51 فیصد  کی رائے آتی ہے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ ہماری تجویز فیصلہ کن  مرحلہ میں داخل ہو چکی  ہے بلکہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جب ساتھی ہماری تجویز کے حق میں 55 فیصد  رائے دیں گے تو وہ قابل بحث تجویز ہوگی جب ہماری تجویز کے حق میں 63 فیصد لوگ ہوجائیں تو گروپ کے اندر ایک جہتی  عام ہونا شروع ہو جائے گی تب ہماری تجویز فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔

اس سائنسی طریقہ کار اور تجزیہ کو مد نظر رکھتے ہوئے  ہمیں  کسی تجویز کو بحث کے لیے ایجنڈے پر لانے کے لیے 55 فیصد رائے  حاصل کرنی چاہیے اور 70 فیصد رائے پر فیصلہ کیا جانا چاہیے اس طریقہ کار کو اختیار کرنے سے  گروپ کے اندر  یکجہتی قائم رہے گی اگر تمام فیصلے دو تہائی یا زیادہ اکثریت سے کیے جائیں تو گروپ کے اندر کبھی بھی پھوٹ نہیں پڑے گی اور تمام لوگ خوش دلی سے ان فیصلوں کو نہ صرف قبول کرین گے بلکہ ان  پر عمل بھی کریں گے ۔

اداراتی ملکیت

ہمارے سماج میں دو طرح کی ملکیت پائی جاتی ہے ذاتی ملکیت اور ادارتی ملکیت۔

انسان کے کپڑے اور ذاتی استعمال کی چند ایک اشیاء  ضروری ذاتی ملکیت میں آتی ہے۔ گھریلو سامان فرنیچر مکان گاڑی وغیرہ پورے خاندان کی ضرورت پوری کرتی ہیں اور انہیں کے  زیر استعمال ہوتی ہیں کیونکہ خاندان  ایک ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے ہم انہیں خاندانی یا اداراتی ملکیت کہہ سکتے ہیں  گھر کے باہر گلی پارک سکول مسجد ہسپتال اور دوسرے ادارے مقامی حکومت یا  ریاست کے ماتحت ہوتے ہیں اس لیے وہ اداراتی ملکیت میں آئیں گے ۔ دہی علاقے میں کیواں چراگاہ اور کھیل کے میدان وغیرہ   پورے گاؤں یا قبیلے کی ملکیت سمجھے جاتے ہیں کہ ان کو شاملات کہا جاتا ہے وہ بھی اداراتی   ملکیت میں اتے ہیں۔ ہمارا موجودہ سماج وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا جاتا ہے اس میں اداراتی ملکیت کی اہمیت  کم ہوتی جاتی ہے اور ذاتی ملکیت کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے  اور ذاتی ملکیت کو ایک مقدس چیز بنا کر رکھ دیا گیا حالانکہ مقدس چیز تو ادارتی ملکیت ہونی چاہیے جس سے سب لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جوں جوں سماجی ملکیت کے ادارے ختم ہوں گے تو جمہوریت کمزور پڑتی جائے گی اور ذاتی ملکیت کے ساتھ ساتھ امریت مضبوط ہو جائے گی۔وقت کے ساتھ ذاتی ملکیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہمارا سماجی شعور  ذاتی ملکیت کے تابع ہو چکا ہے  اور ذاتی ملکیت کی وجہ سے انسانی شعور عصبیت آمریت اور استحصالی نظام کے تابع ہو جاتا ہے۔ چونکہ سماجی وجود ہی سماجی شعور کا تعین کرتا ہے۔

اگر ہم ذاتی ملکیت کی اہمیت کو کم کرکے  خاندانی یا ادارتی ملکیت کی اہمیت کو اجاگر کریں تو ہمارا سماجی شعور  انسانیت جمہوریت اور قربانی کے جذبے کو  جنم دے گا ادارے کی اپنی اہمیت اجاگر ہو گئی۔ایک خاندان میں رہتے ہوئے اس خاندان کے سب لوگ کسی نہ کسی شکل میں محنت کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن پورے خاندان یا ادارے کی محنت کو ذاتی ملکیت میں بدل دیا جاتا ہے اور استحصال کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے جس سے شاہی راج اور یونی پولر سسٹم اور سامراج اور بائی پولر سسٹم وجود میں آتے ہیں۔اگر پورے خاندان یا کسی بھی ادارے  کے افراد کی  محنت کو ادارے کی ملکیت میں بدل دیا جائے   تو لالچ اور استحصال کی جگہ پر جمہوریت بہت اور قربانی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی واضح مثال ہمیں سیکنڈیویا میں ملتی ہے۔جمہوریت اور قربانی ادارے کی ضرورت ہے۔ اس لیے جمہوریت اور قربانی پر مبنی سماجی شعور فروغ پائے گا آمریت  لالچ اور استحصال ذاتی ملکیت کی کی ضرورت ہے  اس لیے ذاتی ملکیت پر مبنی معاشرہ کبھی بھی استحصال اور لالچ کو ختم نہیں کر پائے گا اور معاشرہ مجموعی طور پر زوال پذیر رہے گا

فلاحی ایجنڈا

انسان سماجی مخلوق ہیں اور سماجی تعامل، صحبت اور دوسروں کے ساتھ تعلق کی فطری ضرورت ہے۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھنے سے تعلق کا احساس ملتا ہے، جذباتی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملتی ہے، اور مدد اور تحفظ کا احساس بھی یوتا ہے۔ مزید برآں، دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا بڑی کامیابیوں کا باعث بن سکتا ہے، اور کسی کے ساتھ تجربات اور یادیں بانٹنا زندگی کو تقویت بخش سکتا ہے۔

انسان کو انسان کی ضرورت کے احساس  سے ہی ایک انسان کے اندر دوسرے انسان کے لیے عزت و احترام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ہیں جب انسان کو انسان کا دشمن بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو انسان کے اندر نفرت اور حقارت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں  اس کو نظریاتی جدوجہد کہا جاتا ہے اور پرتشدد انقلاب کی حکمت عملی پیش کی جاتی ہے ہے جس سے انسان اور انسانیت  قتل و غارت گری  کا شکار ہوتی ہے  انسان کی فطرت و طبیعت سماجی ضروریات اور تعلیمی ضروریات اس کی فکر انسان کو انسان کی ضرورت پر کھڑی  ہے اکیلا انسان اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا ۔خاندان  قبیلہ برادری یا ریاست جیسے اداروں کا قیام انسان کی ضرورت ہے۔ اداروں کے  ضرورت جمہوریت ہے  اور  جمہوریت کی ضرورت جمہوری ووٹ اور ٹرائی پولر سسٹم ہے فلاحی جمہوری ریاست کے قیام کے بعد یہ ریاست کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ افراد کی کی تعلیمی سماجی اور دفاعی ضروریات کو پورا کرے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے