تحریر: کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی
سرمایہ داری نظام میں سرمایہ داروں کا ایک حصہ حاکم اور دوسرا حزب مخالف کے روپ میں مقتدر جبکہ سوشلزم (اشتراکیت)میں وسیع تر محنت کش اکثریت کا کنٹرول و اقتدار قائم ہوتا ہے۔سرمایہ داری میں ذرائع پیداوار نجی ملکیت جبکہ سوشلزم میں ریاست کی ملکیت میں ہوتے ہیں۔سرمایہ داری میں محنت کشوں کو سیاسی دھارے سے عملاً دور جب کہ سوشلزم میں ماضی کے سرمایہ داروں (اقلیت)کو سیاست سے دور رکھنا مجبوری ہوتی ہے کیونکہ سرمایہ دار طبقہ جو صدیوں سے حاکمیت و دولت کے مزے لوٹ رہا ہوتا ہے وہ چالاکیوں سے،اپنے سیاسی تجربے کی بنا پہ،عالمی رابطوں کی مدد سے،اپنے اثر و رسوخ کی بنا پہ ہر حال میں محنت کشوں سے اقتدار واپس چھننا چاہتا ہے۔اس کے لیے وہ ہر حربہ ہر ظلم ،ہر اخلاقی و قانونی حد کو پار کر جاتا ہے۔لہذا محنت کش طبقے کو بھی اسی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوے سرمایہ دار طبقے کو اقتدار سے ہر حال میں دور رکھنا ہوتا ہے۔
جس طرح سرمایہ دار محنت کشوں کی تحریکوں کو بے رحمی سے کچل دیتے ہیں بلکل اسی طرح محنت کش اقتدار کو بچانے کے لیے سرمایہ داری سازشوں کا سر کچلنے پہ مجبور ہوتے ہیں۔اور اس سارے پراسس کو پرولتاری ڈکٹیٹر شب (مزدور آمریت)کہا جاتا ہے ۔
سرمایہ دارانہ نظام بھی ایک آمرانہ نظام ہی ہوتا ہے یہ بھی صاحب جائیداد طبقے کا اقتدار ہوتا ہےمگر اُنہوں نے آپسی مقابلے کو جمہوریت کا لبادہ پہنایا ہوتا ہے۔مگر دراصل وہ بھی آمریت ہی ہے ایک چھوٹی سی پونجی دار ٹولی کی آمریت ایک بہت بڑی کثیر تعداد عوام پر قائم ہوتی ہے ۔
لہذا اس اصطلاح ،،مزدور آمریت،، سے ،،یرکنے،،کی ضرورت نھیں بلکہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اقتدار پریم پریت کے وعدوں یا محبوب کو پیش کیا جانے والا تحفہ نھیں ہوتا بلکہ جان توڑ جدوجھد سے ہی قائم رکھا جاسکتا ہے۔جیسے شاہ حسین فرماتے ہیں
،،کہے حسین فقیر سائیں دا
تخت نہ ملدے منگے،،
اور محنت کش طبقے کے لیے اقتدار محض حکومت کی تبدیلی بھی نھیں ہوتا(جو سرمایہ داروں نے عام طور پہ آپس میں مقابلہ بنا رکھا ہوتا ہے)بلکہ محنت کش طبقے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تبدیلی ضروری ہوتی ہے۔مارکسی استادوں نے اس پہ کھوج کاری کر کے بڑی وضاحت سے بتایا ہے کہ محنت کش طبقہ بنے بنائے ریاستی ڈھانچے میں اپنی نجات نھیں پا سکتا۔بلکہ اسے بنیادی ریاستی ڈھانچہ تبدیل کرنا پڑے گا جس کے لیے انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے،انتخاب سے صرف حکومت بدلتی ہے جب کہ انقلاب سے ریاستی ڈھانچہ تبدیل ہوتا ہے۔اقتدار ایک طبقے سے دوسرے طبقے کو منتقل ہوتا ہے۔اور یہ انتقال اقتدار عام طور پر پرامن نھیں ہوتا،پوشیدہ مظالم،خفیہ جبر ننگی جارحیت کا روپ دھار لیتا ہے ۔جس کے جواب میں انقلابی قوتوں کو یعنی عوام کو بھی اپنا دفاع کرنا ہوتا ہے۔
بہرحال اس فیصلہ کن لڑائی کیلیے ہمارے عوام ابھی تیار نھیں ابھی شعور کی اس منزل پہ نھیں ابھی اس طرح کی آہنی ڈسپلن والی پارٹی کی تعمیر کی ضرورت ہے۔ابھی تو لوگ انھیں کی پچ پہ انھیں کی بچھائی بساط پہ کھیل رہے ہیں جس سے ہار مقدر ہے۔مگر عوام بار بار کی ہار اور شکست سے بھی یقینا سیکھیں گے۔
محنت کشوں کے اپنے ادارے بنانا پڑیں گے۔اپنی طبقاتی لڑائی کا شعور حاصل کرتے ہوے انقلابی جدوجھد کا ادراک حاصل کرنا ہو گا۔جس کی پہلی شرط مطالعہ اور تنظیم سازی ہے۔
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!
کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی