تحریر: طیب احمد

پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں عدل و انصاف کی کوئی شاندار مثالیں موجود نہیں بلکہ مقامی شاعری اور مزاحمتی صوفیوں میں قاضی اور منصف کی چیرہ دستیوں کی کہانیاں ملتی ہیں۔ پنجاب کی ثقافت اور روح کی ترجمان ’’ہیر‘‘ میں وارث شاہ نے کہا ھے

قلوب المومنین عرش اللہ تعالیٰ

قاضی عرش خدا دا ڈھا ناہیں

یعنی مومنین کا قلب عرشِ خدا ھے اور اے قاضی،خدا کے عرش کو مت گراو۔

بلھے شاہ انقلابی ہیں اور سچ کہنے کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں !

ملاں، قاضی راہ بتاون، دین دھرم دے پھیرے

ایہہ تاں ٹھگ نیں جگ دے جھیور، لاون جال چوفیرے۔

یعنی ملا اور قاضی دین کی راہ تو بتاتے ہیں مگر یہ اصل میں ٹھگ ہیں ہر طرف جال لگا کر آپ کو پھنسا لیتے ہیں۔

کئی دہائیاں گزر گئیں ، عدل و انصاف کے پیمانے بدل گئے، قانون کے انسائیکلوپیڈیاز بن گئے بڑے بڑے قانون دان اور فاضل جج صاحبان ریٹائرمنٹ کے بعد موٹی موٹی کتابیں اور کالم لکھتے، علم و قانون اور اخلاقیات کے موتی بکھیرتے نظر آتے ہیں مگر اس خطے میں تاثر آج تک یہی ھے کہ یہاں طاقتور کو چھٹی کے دن بھی انصاف ملتا ھے اور کمزور انصاف انصاف پکارتا اور دہائیاں دیتا داغ مفارقت دے جاتا ھے ۔ بھلے وقتوں میں انصاف کرنے والے قاضی کہلاتے تھے آج انہیں جج کے جدید ترین نام سے پکارا جاتا ھے۔

انصاف اور تکبر دونوں خدا کی صفات ہیں جو کسی انسان کے شایان شان نہیں۔ تاہم معاشروں نے انصاف کا فریضہ قاضیوں اور ججوں کو سونپ رکھا ھے مگر بدقسمتی یہ ھے کہ وارث شاہ کا زمانہ ہو یا آج کا زمانہ ، قاضیوں نے تکبر کا خدائی وصف بھی اپنے اوپر طاری کر لیا ھے جس سے ان کے انصاف اور ان کے رویوں پر سوال اٹھتے رہتے ہیں۔

اگر ایک عام آدمی کو اجازت ہو تو کیا وہ پوچھ سکتا ھے کہ قابلِ احترام چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عدالتی تحرک کا معاشرے کو کتنا فائدہ ہوا؟ جس طرح وہ مدعیوں افسروں اور وکیلوں کی بےعزتی کرتے رہتے ہیں اس کا انہیں کوئی آئینی اخلاقی یا قانونی حق تھا؟ یہی سوال قابلِ احترام اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں پوچھا جانا چاہئے کہ انہوں نے رجیم چینج کے بعد آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو جو سپورٹ مہیا کی اس کا کوئی قانونی یا آئینی جواز تھا؟

جان کی امان دی جائے تو فاضل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے قریبی جج صاحبان سے یہ پوچھا جائے کہ جب آئین میں چیف جسٹس بنانے اور اس کی ریٹائرمنٹ کا خاص طریقہ موجود ھے تو پھر آپ آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو سپورٹ کر کے ان کے اقتدار کو تحفظ دینے اور اپنی نوکری میں ایکسٹینشن کیلئے کیوں غلط اقدامات کو تحفظ دے رہے ہیں؟

آج ٹرائل کے بغیر نوجوان قید میں ہیں ، ڈاکٹر یاسمین راشد جنہوں نے کووڈ میں شاندار خدمات انجام دیں، وہ ناحق سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ 9 مئی کی شفاف تحقیقات کیلئے آج تک کوئی کمیشن نہیں بنایا گیا ۔ آٹھ فروری کے کیس کو قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے آج تک نہیں سنا۔

پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ حکمرانوں ، اعلیٰ عدلیہ کے ججز ، سابق آرمی چیف ، سیاستدانوں اور دیگر اعلیٰ حکام کو عوامی سطح پر اتنی مخالفت اور بےعزتی کا سامنا کرنا پڑ رہا ھے۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ عوام سڑکوں ، عوامی مقامات یا بیرون ملک کھلے عام ان شخصیات کو برا بھلا کہیں ، لعن طعن کریں یا ان کے سامنے برملا اپنی نفرت کا اظہار کریں۔ لیکن جب تقریباً تین سال پہلے عمران خان کی حکومت کو غیر آئینی طور پر گرایا گیا اور رجیم چینج کے ذریعے کرپٹ ترین سیاستدانوں کو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا ۔ جن کے خلاف کرپشن کے کھلے ثبوت موجود تھے تو اس کے بعد عوام کی آنکھیں مکمل کھل گئیں۔

عوام نے اس ناانصافی کے بعد اپنے غصے کا شدید اظہار کیا ۔ احتجاج شروع کئے اور یوں حکومتی شخصیات کی سرعام تذلیل شروع ہو گئی۔ لندن میں مریم اورنگزیب اور عطا تارڑ کو سڑکوں پر بے عزت کیا گیا، پاکستان میں احسن اقبال کو لوگوں نے فوڈ چین پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا، حنیف عباسی کو اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں کھانا کھاتے ہوئے عوام کی جانب سے شدید برا بھلا کہا گیا، موجودہ حکمرانوں کو سعودی عرب میں عمرے کے دوران شدید نفرت اور نعرہ بازی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کو ان کی اہلیہ کی موجودگی میں یورپ میں عوامی غصے کا سامنا کرنا پڑا۔

اور اب حال ہی میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی اسلام آباد کی ایک بیکری پر ان کی فیملی کے سامنے لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ تمام واقعات بہت سنگین سوال اٹھاتے ہیں کہ ہم بطور قوم کس طرف جا رہے ہیں؟ یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی اور عوام کا غصہ اتنی شدت تک کیوں پہنچا؟

جب اس رجیم نے اقتدار سنبھالا تو بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کے راستے پر چلتے ہوئے انہوں نے ملک میں فسطائیت کا راج قائم کیا۔ خوف و حراص پیدا کیا لوگوں کے گھروں میں غیر قانونی چھاپے مارے گئے، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ بڑی تعداد میں بیگناہوں کو گرفتار کر کے شرمناک پرچے کاٹے گئے انہی چھاپوں کے دوران گھروں میں لوٹ مار کی گئی، بیگناہ بچوں اور نوجوانوں کو قید کیا گیا ۔ خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور ظلّے شاہ جیسے کئی بے گناہوں کو تشدد کر کے قتل کر دیا گیا۔ ان حالات میں لوگ کیسے ریاست ، سرکاری محکموں اور ان کے سربراہان پر اعتماد کریں گے؟

ان ناانصافیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والا عوامی غصہ اب ایک نقطۂ عروج پر پہنچ چکا ھے اور اس کا اثر ہر سطح پر محسوس کیا جا رہا ھے۔

ملک کی موجودہ خراب معاشی صورتحال بھی عوامی غصے میں اضافہ کر رہی ھے۔ روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں، مہنگائی بڑھ رہی ھے اور عام آدمی کی زندگی شدید ترین مشکلات کا شکار ھے۔ ایسے میں جب عوام کو انصاف بھی نہ ملے تو ان کے پاس احتجاج کے سوا کوئی اور راستہ باقی نہیں رہتا۔

اگر اس صورتحال کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو یہ ممکن ہے کہ عوامی غصہ مزید بڑھے اور اس کے نتائج مزید سنگین ہوں۔ عوام کی عزت اور ان کے ووٹ کی حرمت کو بحال کرنا وقت کی ضرورت ھے تاکہ ملک میں سیاسی استحکام ، عدل و انصاف اور معاشی ترقی کا سفر دوبارہ شروع کیا جا سکے۔

آئیے دعا کریں کہ اللہ تعالٰی وطن عزیز کو دیانتدار اور مخلص حکمران عطا فرمائے تاکہ عوامی مسائل کا حل ممکن ہو اور پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے