تحریر: نادر علی شاہ

انسان نے آج کے دن تک جو بھی اختراعات ، ایجادات اور ترقی کی ہے اس میں ایک اہم ایجاد ” زبان”، بولنے کا ہنر اور گفتگو ہے۔ انسانیت کے انتہائی قدیم دور کی بات کی جائے تو انسان ایک دوسرے سے اشاروں اور مختلف علامات کے ذریعے بات چیت یا اپنا پیغام پہنچاتے تھے ۔ دوسری طرف اسلامی نقطئہ نظر کے مطابق اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کو عربی زبان سیکھا کر دنیا میں بھیجا۔ جب انسان نے بولنا سیکھا تو ساتھ لکھنے کا ہنر بھی جانا۔ تاریخی طور پر سب سے پرانا لکھا جانے والا کتبہ 3500 قبل از مسیح میں مصریوں نے لکھا تھا جسکی اب تک دریافت ہوئی ہے ۔ 1100 قبل از مسیح سے چینیوں نے بھی لکھنے پر عبور حاصل کر لیا تھا۔ آپ کو یہاں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ ماضی نزدیک میں جب جدید آلات (ریڈیو ،ریکارڈر، ٹیپ )ایجاد نہیں ہوئے تھے اور اتنی ترقی نہیں ہوئی تھی تب تک "لکھی ” ہوئی گفتگو "بولی” جانے والی گفتگو سے کہیں زیادہ اہم اور موثر تھی کیونکہ گفتگو کرنے والا تو ختم ہو جاتا تھا لیکن اس کی لکھی ہوئی باتیں ہمیشہ زندہ رہتی تھیں اور ابھی تک پڑھی، بولی اور سنائی جاتی ہیں ۔ آج ہم تک جتنا بھی علم پہنچا ہے وہ چاہے، آسمانی صحیفوں کی صورت میں ہے، سائنسی ہے، معاشرتی ہے، معاشی ہے یا کوئی بھی فلسفہ ہے وہ سب "لکھی” ہوئی گفتگو کی صورت پہنچا ہے ۔ انسان نے جس طرح بھی گفتگو کرنا سیکھا یہ ہمارا موضوع بحث نہیں ہے بلکہ ہم یہاں مؤثر اندازِ گفتگو کی بات کریں گے ۔ گفتگو ایک پل ہے جو دو یا دو سے زیادہ لوگوں کے درمیان قائم ہے جس کے ذریعے ہر فرد اپنا نقطئہ نظر دوسرے تک پہنچاتا ہے اور اپنے موقف کو واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ موثر انداز گفتگو کے سینکڑوں طریقے یا اصول ہوں گے لیکن ہم یہاں صرف تین ایسے اصولوں کی بات کریں گے جن میں سے کسی ایک کی بھی باقاعدگی سے پیروی کی جائے تو ہمارا اندازِ گفتگو بہتر ہو سکتا ہے۔

سننا: ۔

مؤثر اندازِ گفتگو کے لیے ہمیں جو کام سب سے پہلے کرنا ہے وہ ہے سننا ۔ اگر ہم قدرت کا بغور جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ ساری کائنات کو پیدا کرنے والا پروردگار خود بھی خاموش ہے ، پیدا ہونے والا بچہ دو سال تک صرف سنتا ہے، اس کے علاؤہ ستارے ، چاند ، سورج، سیارے ، پہاڑ، دریا، سمندر ، زمین ، آبشاریں ، چشمے، ، صحرا، ساحل، جنگل، اور بھی بہت سارے قدرتی مناظر آپ کو خاموش اور سنتے ہوئے دکھائی دیں گے ۔ یہاں ایک مثال سمجھتے چلیں ، اللّٰہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دو کان عطا کیے ہیں جن کے ذریعے ہم دوسروں کی گفتگو سنتے ہیں جبکہ کانوں کے مقابلے میں زبان ایک عطا کی ہے۔ جسکا فطری تقاضا یہ ہے کہ ہمیں بولنے کی نسبت زیادہ سننا چاہیئے۔ سننے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم سامنے والے کی بات سے اتفاق کر رہے ، ہمیں صرف سننا ہے، چاہے وہ عمران خان کو برا بولے، چاہے نواز شریف یا آصف زرداری کو۔ موثر انداز گفتگو کے لیے اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ آپ بولنے والے کی بات نہ کاٹیں ، بولنے والے کو بولنے دیا جائے جب تک وہ اپنی مکمل بات آپ کے سامنے رکھ نہ دے ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا اندازِ گفتگو انتہائی مؤثر ہو تو ہمیں سب سے پہلے "سننے” کی عادت ڈالنی پڑے گی اور ساتھ مشق بھی کرنا ہوگی۔ موثر انداز گفتگو کے لیے دوسرا اصول درج ذیل ہے: ۔

"احتیاط”

مؤثر اندازِ گفتگو میں احتیاط کو سمجھنے کے لیے پہلے ہمیں ایک عملی مثال کو سمجھنا ہوگا۔ فرض کیا ہے کہ ہمیں دو پہاڑوں کے درمیان لگے ہوئے خستہ پل کے اوپر سے گزرنا ہے اور نیچے ہزاروں فٹ گہری کھائی ہے جس میں گر کر ہمارا بچنا کسی صورت ممکن نہیں تو ہم ایک ایک قدم انتہائی احتیاط سے رکھیں گے کہیں غلطی سے غلط جگہ قدم رکھنے سے ہزاروں فٹ نیچے نہ گر جائیں ۔

اس بات کو ایک اور مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، ہم میں سے بہت سے لوگوں روزانہ بہت رسک والی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں جیسے کہ دل کی دماغ کی سرجری کرنے والے ڈاکٹر حضرات ، بجلی کی تاروں پہ کام کرنے والے ، جہاز اڑانے والے اور مختلف فیکٹریوں میں ہائی رسک کام کرنے والوں کی ایک چھوٹی سی غلطی یا غلط قدم سے بہت بڑا اور غیر تلافی نقصان ہو سکتا ہے اس لیے ہم ایسی ڈیوٹیز دیتے ہوئے انتہائی ذمہ داری سے کام لیتے ہیں اور ایک ایک قدم انتہائی سوچ بچار سے اٹھاتے ہیں تاکہ کسی بھی طرح کے نقصان سے بچا جا سکے ۔

مؤثر اندازِ گفتگو کے لیے ایک بولنے والے کو ایک ڈاکٹر ، انجینئر اور پائلٹ کی طرح نہایت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پہلے اصول میں ہم نے صرف سننے کی بات کی اور اب جب بولنا ہے تو اس میں ہمیں احتیاط کی ضرورت ہے ۔ احتیاط کیسی؟ الفاظ کی احتیاط ۔ اگر ہم بولنے سے پہلے اپنے الفاظ میں احتیاط کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے تو جیسے ڈاکٹر ، پائلٹ اور انجینئر کی بے احتیاطی سے مریض، عمارت اور سواریوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے تو یہاں ہماری "شخصیت” کو نقصان پہنچنے کا قوی امکان ہے ۔ مؤثر اندازِ گفتگو کے لیے الفاظ کے چناؤ اور ادائیگی میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے ۔ اچھے خوبصورت اور شائستہ الفاظ کا انتخاب ہماری گفتگو کو سننے کے قابل بناتے ہیں ۔ بے احتیاطی سے بولے گئے الفاظ ہماری گفتگو کو زائل کر دیتے ہیں ۔ اقبال کے الفاظ میں:۔

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

جتنی احتیاط سے ہمارے الفاظ کی ادائیگی ہوگی اتنی ہماری شخصیت میں جاذبیت پیدا ہوتی جائے گی اور لوگ ہماری گفتگو سننے کے دیوانے ہوتے چلے جائیں گے ۔ اب بات کرتے ہیں تیسرے اور اہم اصول کی جو ہو سکتا ہے کسی کی نظر میں اہمیت رکھتا ہو اور کسی کی نظر میں اہم نہ ہو۔ لیکن میری نظر میں مؤثر اندازِ گفتگو کے لیے اس کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ اور وہ ہے: ۔

"احساس”

ہم اکثر اس کشمکش میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ میری کہی ہوئی باتوں نے لوگوں پر مثبت اثرات ڈالے ہیں یا پھر منفی اثرات ۔ بعض اوقات ہم خود بھی اس بات کا معائنہ کرنا چاہتے ہیں کہ میں نے جو الفاظ کسی گفتگو یا تقریر میں استعمال کیئے ہیں کیا اس سے میری گفتگو مؤثر ہوئی ہے یا پھر غیر موثر ۔ "احساس” ایک انتہائی اہم اوزان ہے جس سے ہم اپنی گفتگو کی اہمیت کو جان سکتے ہیں ۔ ہم نے کرنا صرف اتنا ہے کہ جو گفتگو ہم نے کی ہے اس کے بعد کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کر کے یہ محسوس کرنا ہے کہ آیا تقریر یا گفتگو کے بعد میرے احساسات اور جذبات مثبت ہیں یا پھر منفی ۔ اگر تو ہمیں یہ محسوس ہو کہ میری تقریر یا الفاظ سے کسی کی دل آزاری یا ہتک نہیں ہوئی تو سمجھ لیں ہمارا اندازِ گفتگو مؤثر اور مثبت ہے۔ اور اگر ہماری گفتگو یا تقریر سے کسی کی دل آزاری یا ہتک ہوئی ہے تو سمجھ لیں کہ ہماری گفتگو غیر موثر اور منفی ہے۔ جب ہم اپنی گفتگو یا تقریر کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم سے کہاں غلطی ہوئی ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہماری گفتگو یا تقریر کے مثبت باتیں کیا تھیں۔ لہذا مؤثر اندازِ گفتگو کے لیے "احساس” بھی بہت ضروری ہے ۔

درج بالا تین اصولوں کے علاؤہ بھی بہت سارے اصول ہیں جن کی مدد سے ہم اپنی گفتگو کو مؤثر بنا سکتے ہیں لیکن ترجیحی فہرست تیار کی جائے تو "سننا ، احتیاط ، احساس” کو اس فہرست میں سب سے اوپر رکھوں گا ۔ پاکستان میں بسنے والوں کی زیادہ تر تعداد مؤثر اندازِ گفتگو سے محروم ہیں ۔ ہم نہ تو کسی کا موقف سننا چاہتے ہیں ، نہ بولتے ہوئے ذرا برابر احتیاط کرتے ہیں اور احساس کا تو ہمیں پتہ ہی نہیں ۔ ہم صرف ایک کام میں ماہر ہیں اور وہ ہے بولنا اور بے احتیاطی سے بولنا۔

مؤثر گفتگو کے لیے ان تین اصولوں کو اپنانا ہوگا نہیں تو صرف وہی ہوگا جو علامہ اقبال فرما گئے تھے ۔

اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے