تحریر:قیوم نظامی

علامہ اقبال شاعر مشرق مفسر قران اور حکیم الامت تھے ـ انہوں نے فکر اور فلسفہ کی مستحکم خصوصیات کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلمانوں کے زوال کے اسباب تلاش کیے اور انہیں اپنی الہامی شاعری اور حکمت و دانائی پر مبنی نثری تحریروں میں کھل کر بیان کیا ـ ان کی شدید آرزو اور تمنا تھی کہ مسلمان قران سے روشنی اور ہدایت حاصل کر کے ایک بار پھر زوال سے نکل آئیں اور جمود و تقلید کے بجائے اجتہاد کے ذریعے آگے بڑھیں ـ انہوں نے کہا کہ جب بھی مسلمان زوال پذیر ہوئے تو اسلام کی طاقت سے ہی وہ اس زوال سے باہر نکل سکے ـ علامہ اقبال نے مثنوی پس چہ بائد کرد اے اقوام شرق میں مشرق کو مغرب سے سیکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا” تو جو عصر حاضر کے کاموں سے بے خبر ہے یورپ کی کاریگری دیکھ اس نے تیرے ہی ریشم سے قالین بنایا اور تیرے سامنے بکنے کے لیے رکھ دیا "ـ ترکیہ کے مفکر دانشور اور مؤرخ احمد کورو نے اپنی منفرد کتاب میں عالمی اور تاریخی موازنہ کر کے اسلام میں آمریت اور پسماندگی کے اسباب تلاش کیے ہیں ـ Islam Authoritarianism

and Underdevelopement A Global and Historical Comparison: By : Ahmet T. Kuru

اس معرکۃ الارا کتاب کا” اسلام آمریت پسندی اور پسماندگی ایک عالمی اور تاریخی موازنہ” کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے ـ جبکہ دنیا کی 10 زبانوں میں پہلے ہی اس کتاب کے تراجم ہو چکے ہیں ـ جکارتا پوسٹ نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے” کورو کی کتاب نے مسلم فکری دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ ایک شفاف اور جمہوری معاشرے اور انتہائی مسابقتی معیشت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے یہ مغرب زدگی نہیں ہے بلکہ یہ بالکل اسلامی شعائر کے عین مطابق ہےـ ” قائد اعظم یونیورسٹی کے نامور پروفیسر اور دانشور پرویز امیر علی ہود بھائی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں "احمد کورو کی اس دلچسپ اور فکر انگیز کتاب کا مدعا یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کے زوال کے اسباب داخلی تھے بیرونی نہیں اور تہذیبی تنزلی کا دور یورپی استعماریت کی آمد سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا جب اجتماعی طور پر نظریات میں لچک کی بجائے ایک سختی آگئی ـ نہایت مدلل انداز سے مصنف نے ثابت کیا ہے کہ جب تاجروں اور دانشوروں کا اثر ریاست کے حکمرانوں پر کم ہو گیا اور ساتھ ساتھ راسخُ الاعتقاد علماء کا اثر و رسوخ بڑھ گیا تو تخلیقی صلاحیتوں اور تنوع میں کمی آتی چلی گئی جس کے بعد مسلمان یورپی سامراج کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو گئے ” 2013 میں فریڈم ہاؤس نامی تنظیم نے اپنے ایک سروے میں بیان کیا کہ 49 مسلم اکثریتی ممالک میں صرف 20 ممالک میں انتخابی جمہوریت تھی ـ احمد کورو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں مسلم اکثریتی ممالک میں دنیا کی اوسط سے زیادہ آمریت پسندی اور کم معاشی و سماجی ترقی کا اسلام ذمہ دار نہیں ہے ابتدائی دور میں مسلمانوں نے با اثر مفکر اور تاجر پیدا کیے اس وقت یورپ میں مذہبی شدت پسندی اور فوجی حکمرانی زوروں پر تھی ـ گیارہویں صدی میں قدامت پرست علماء اور عسکری ریاست میں اتحاد پیدا ہوا مصنف کی یہ تحقیق ماضی کو دور حاضر کی سیاست سے جوڑتی ہے اور سفارشات پیش کرتی ہے ـ سولویں اور اٹھارویں صدی میں جب مغرب ترقی کر رہا تھا تو مسلم دنیا پر جمود طاری تھا ـ امام ابو حنیفہ رحمہ امام مالک رحمہ امام شافعی رحمہ امام احمد بن حنبل رحمہ ریاست کی اطاعت سے انکار کرتے تھے لہذا ان کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں ـ مصنف کا انداز بیان اور تحریر بہت دلچسپ اور دلکش ہے وہ قاری کو بور نہیں ہونے دیتے ـ کورو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں میرا تجزیہ اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ علماء اور ریاست اتحاد قران و حدیث کی تعلیمات کا جزو لازم نہیں ہے اور نہ ہی تاریخ اسلام کا کوئی مستقل وصف ہےـ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں ریاست مذہب علیحدگی کی مثالیں موجود ہیں ـ

احمد کورو نے اپنی گہری تحقیق پر مبنی کتاب میں اسلامی اور مغربی مفکرین کے حوالے دیے ہیں ـ کتاب میں شامل حوالہ جات کی فہرست میں ایک ہزار مستند کتب کے نام شامل کیے گئے ہیں ـ مصر کے مصنف جمال البنا اپنی کتاب "اسلام ایک دین اور امت کا نام ہے نہ کہ مذہب اور ریاست کا "میں تحریر کرتے ہیں کہ ریاستی طاقت فطری اور ناگزیر طور پر کسی بھی مذہب بشمول اسلام کو آلودہ کر کے رکھ دیتی ہے وہ ان قرانی آیات کی فہرست مرتب کرتا ہے جن میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے پیغمبر تھے نہ کہ حکمران وقت ـ یہ کہ لوگوں کے دلوں میں ایمان داخل کرنا خدا کا کام ہے نہ کہ انسانوں کی حکومت کاـ حتیٰ کہ پیغمبر کا ایمان لے آنا یا نہ لے آنا ذاتی ترجیح ہوتی ہےـ یہ کہ انحراف کے لیے کوئی دنیاوی سزا نہیں ہے اور یہ کہ اسلام میں امت پر زور دیا گیا ہے نہ کہ ریاست پر ـ احمد کورو لکھتے ہیں کہ گیارہویں صدی میں علماء اور ریاست کا اتحاد منظر عام پر آنا شروع ہو گیا یعنی تاریخ کے ایک ایسے نازک دور میں جس سے قبل مسلمان علمی اور سماجی و اقتصادی میدان میں اچھی خاصی پیشرفت کر چکے تھے جبکہ بعد ازاں مسلم ممالک علمی اور سماجی اقتصادی طور پر جمود کا شکار ہو کر رہ گئےـ

مصنف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سماجی و اقتصادی ترقی کے بہت سے پیمانوں پر 49 مسلم مالک کی اوسط کارکردگی مغربی ممالک کے مقابلے میں کم ہے حتیٰ کہ عالمی اوسطوں سے بھی کم ہےـ یہ پیمانے فی کس قومی آمدنی تعلیمی خواندگی اور سکول میں تعلیم کی مدت صحت سے متعلق شعبوں میں عمر کی متوقع طوالت اور نو زائدہ بچوں کی وفات میں کمی ترقی کے درجوں کا تعین کرتے ہیں ـ مصنف نے اپنی کتاب میں ان وضاحتوں کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے جن کے مطابق مغربی نو آبادیاتی نظام استحصال مسلم ممالک کی پسماندگی کے پس پردہ اہم عوامل ہیں بعد ازاں سماجی و اقتصادی شعبوں میں مسلم ممالک کی ناکافی ترقی کے پس پردہ علماء کے ترقی مخالف نظریات اور سیاسی آمریت کے کردار کا بھی کھوج لگایا گیا ہے ـ باب نمبر دو میں اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ معاشی پسماندگی کس طرح سے بہت سے ممالک میں آمریت کا اہم سبب بنی ہےـ سماجی و اقتصادی پسماندگی ایک زیادہ پیچیدہ صورتحال ہے بعض صورتوں میں سماجی پسماندگی کا تعلق آمریت سے ہوتا ہے اور یہ دونوں مظاہر ایک شیطانی چکر کی تشکیل دیتے ہیں ـ ما حاصل یہ ہے کہ مغربی یورپ کا عروج دراصل نشاط ثانیہ چھاپہ خانہ انقلاب پروٹیسٹنٹ اصلاحات جغرافیائی دریافتوں اور سائنسی انقلاب جیسے تمام عوامل کے ایک دوسرے پر اثرات کا نتیجہ تھاـ اس عرصے کے دوران مسلم ممالک نے یورپی تجربات سے کچھ نہ سیکھا چھاپہ خانے کی انقلاب کی بدولت کتابوں کی اشاعت اور شرح خواندگی میں بے مثال اضافہ دیکھنے میں آیا ـ مسلم ممالک میں تاجروں کی بے قدری کی وجہ سے معاشرے زوال پذیر ہوئے ـ آج بھی اگر مسلمان ممالک زوال سے باہر نکلنا چاہتے ہیں تو ان کو مفکرین دانشوروں اور تاجروں کو اہمیت دینی پڑے گی ـ مصنف اپنی کتاب کے باب آمریت پسندی اور جمہوریت میں لکھتے ہیں سیاسی اداروں کے حامل ان ممالک کے لیے جنہوں نے حال ہی میں سامراجی تسلط سے چھٹکارا حاصل کیا ہے جمہوری ریاست کا قیام ایک کٹھن امر ہے جدید سرحدیں چونکہ زیادہ تر سابقہ نوآبادیاتی طاقتوں کی کھینچی ہوئی ہیں اس لیے نو آزاد ممالک کو بھی قومی شناختوں کی تشکیل میں آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی بدولت جمہوری عمل کے نفاذ میں مزید رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں جیسا کہ اینتھونی مارکس لکھتا ہے” قومی وحدت کی تشکیل جمہوریت کے لیے ایک ضروری پیشگی شرط ہے کیونکہ اس سماج کی سرحدوں کا تعین کرتی ہے جسے بعد ازاں شہریت اور حقوق فراہم کیے جاتے ہیں کہ جن کے بغیر جمہوریت ناممکن ہوتی ہے” اس کتاب کے مترجم اعزاز باقر ہیں جنہوں نے معیاری اور آسان فہم ترجمہ کیا ہےـ مشعل بکس اسلام آباد نے اس کتاب کو خوبصورت انداز میں شائع کیا ہے ـ احمد کورو قبل ازیں "سیکولرزم اور ریاست کی مذہب کے حوالے سے پالیسیاں” کے نام سے ایک کتاب لکھ چکے ہیں جس کو کیمبرج یونیورسٹی پریس نے شائع کیا ـ یہ کتاب بھی کافی مقبول ہےـ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے