اسلام : آمریت پسندی اور پسماندگی

تحریر:قیوم نظامی علامہ اقبال شاعر مشرق مفسر قران اور حکیم الامت تھے ـ انہوں نے فکر اور فلسفہ کی مستحکم خصوصیات کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلمانوں کے زوال کے اسباب تلاش کیے اور انہیں اپنی الہامی شاعری اور حکمت و دانائی پر مبنی نثری تحریروں میں کھل کر بیان کیا ـ ان کی شدید آرزو اور تمنا تھی کہ مسلمان قران سے روشنی اور ہدایت حاصل کر کے ایک بار پھر زوال سے نکل آئیں اور جمود و تقلید کے بجائے اجتہاد کے ذریعے آگے بڑھیں ـ انہوں نے کہا کہ جب بھی مسلمان زوال پذیر ہوئے تو اسلام کی طاقت سے ہی وہ اس زوال سے باہر نکل سکے ـ علامہ اقبال نے مثنوی پس چہ بائد کرد اے اقوام شرق میں مشرق کو مغرب سے سیکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا” تو جو عصر حاضر کے کاموں سے بے خبر ہے یورپ کی کاریگری دیکھ اس نے تیرے ہی ریشم سے قالین بنایا اور تیرے سامنے بکنے کے لیے رکھ دیا "ـ ترکیہ کے مفکر دانشور اور مؤرخ احمد کورو نے اپنی منفرد کتاب میں عالمی اور تاریخی موازنہ کر کے اسلام میں آمریت اور پسماندگی کے اسباب تلاش کیے ہیں ـ Islam Authoritarianism and Underdevelopement A Global and Historical Comparison: By : Ahmet T. Kuru اس معرکۃ الارا کتاب کا” اسلام آمریت پسندی اور پسماندگی ایک عالمی اور تاریخی موازنہ” کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے ـ جبکہ دنیا کی 10 زبانوں میں پہلے ہی اس کتاب کے تراجم ہو چکے ہیں ـ جکارتا پوسٹ نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے” کورو کی کتاب نے مسلم فکری دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ ایک شفاف اور جمہوری معاشرے اور انتہائی مسابقتی معیشت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے یہ مغرب زدگی نہیں ہے بلکہ یہ بالکل اسلامی شعائر کے عین مطابق ہےـ ” قائد اعظم یونیورسٹی کے نامور پروفیسر اور دانشور پرویز امیر علی ہود بھائی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں "احمد کورو کی اس دلچسپ اور فکر انگیز کتاب کا مدعا یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کے زوال کے اسباب داخلی تھے بیرونی نہیں اور تہذیبی تنزلی کا دور یورپی استعماریت کی آمد سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا جب اجتماعی طور پر نظریات میں لچک کی بجائے ایک سختی آگئی ـ نہایت مدلل انداز سے مصنف نے ثابت کیا ہے کہ جب تاجروں اور دانشوروں کا اثر ریاست کے حکمرانوں پر کم ہو گیا اور ساتھ ساتھ راسخُ الاعتقاد علماء کا اثر و رسوخ بڑھ گیا تو تخلیقی صلاحیتوں اور تنوع میں کمی آتی چلی گئی جس کے بعد مسلمان یورپی سامراج کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو گئے ” 2013 میں فریڈم ہاؤس نامی تنظیم نے اپنے ایک سروے میں بیان کیا کہ 49 مسلم اکثریتی ممالک میں صرف 20 ممالک میں انتخابی جمہوریت تھی ـ احمد کورو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں مسلم اکثریتی ممالک میں دنیا کی اوسط سے زیادہ آمریت پسندی اور کم معاشی و سماجی ترقی کا اسلام ذمہ دار نہیں ہے ابتدائی دور میں مسلمانوں نے با اثر مفکر اور تاجر پیدا کیے اس وقت یورپ میں مذہبی شدت پسندی اور فوجی حکمرانی زوروں پر تھی ـ گیارہویں صدی میں قدامت پرست علماء اور عسکری ریاست میں اتحاد پیدا ہوا مصنف کی یہ تحقیق ماضی کو دور حاضر کی سیاست سے جوڑتی ہے اور سفارشات پیش کرتی ہے ـ سولویں اور اٹھارویں صدی میں جب مغرب ترقی کر رہا تھا تو مسلم دنیا پر جمود طاری تھا ـ امام ابو حنیفہ رحمہ امام مالک رحمہ امام شافعی رحمہ امام احمد بن حنبل رحمہ ریاست کی اطاعت سے انکار کرتے تھے لہذا ان کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں ـ مصنف کا انداز بیان اور تحریر بہت دلچسپ اور دلکش ہے وہ قاری کو بور نہیں ہونے دیتے ـ کورو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں میرا تجزیہ اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ علماء اور ریاست اتحاد قران و حدیث کی تعلیمات کا جزو لازم نہیں ہے اور نہ ہی تاریخ اسلام کا کوئی مستقل وصف ہےـ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں ریاست مذہب علیحدگی کی مثالیں موجود ہیں ـ احمد کورو نے اپنی گہری تحقیق پر مبنی کتاب میں اسلامی اور مغربی مفکرین کے حوالے دیے ہیں ـ کتاب میں شامل حوالہ جات کی فہرست میں ایک ہزار مستند کتب کے نام شامل کیے گئے ہیں ـ مصر کے مصنف جمال البنا اپنی کتاب "اسلام ایک دین اور امت کا نام ہے نہ کہ مذہب اور ریاست کا "میں تحریر کرتے ہیں کہ ریاستی طاقت فطری اور ناگزیر طور پر کسی بھی مذہب بشمول اسلام کو آلودہ کر کے رکھ دیتی ہے وہ ان قرانی آیات کی فہرست مرتب کرتا ہے جن میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے پیغمبر تھے نہ کہ حکمران وقت ـ یہ کہ لوگوں کے دلوں میں ایمان داخل کرنا خدا کا کام ہے نہ کہ انسانوں کی حکومت کاـ حتیٰ کہ پیغمبر کا ایمان لے آنا یا نہ لے آنا ذاتی ترجیح ہوتی ہےـ یہ کہ انحراف کے لیے کوئی دنیاوی سزا نہیں ہے اور یہ کہ اسلام میں امت پر زور دیا گیا ہے نہ کہ ریاست پر ـ احمد کورو لکھتے ہیں کہ گیارہویں صدی میں علماء اور ریاست کا اتحاد منظر عام پر آنا شروع ہو گیا یعنی تاریخ کے ایک ایسے نازک دور میں جس سے قبل مسلمان علمی اور سماجی و اقتصادی میدان میں اچھی خاصی پیشرفت کر چکے تھے جبکہ بعد ازاں مسلم ممالک علمی اور سماجی اقتصادی طور پر جمود کا شکار ہو کر رہ گئےـ مصنف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سماجی و اقتصادی ترقی کے بہت سے پیمانوں پر 49 مسلم مالک کی اوسط کارکردگی مغربی ممالک کے مقابلے میں کم ہے حتیٰ کہ عالمی اوسطوں سے بھی کم ہےـ یہ پیمانے فی کس قومی آمدنی تعلیمی خواندگی اور سکول میں تعلیم کی مدت صحت سے متعلق شعبوں میں عمر کی متوقع طوالت اور نو زائدہ بچوں کی وفات میں کمی ترقی کے درجوں کا تعین کرتے ہیں ـ مصنف نے اپنی کتاب میں

شاہ محمود قریشی کی قومی مفاہمت کی تجویز 

تحریر:قیوم نظامی پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی پارٹی کے کارکن اور دوسرے درجے کے لیڈرز گرفتار ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے بارے میں قیادت کے رویے ہی تبدیل ہو جاتے ہیں ـ یہ صورت حال شخصیت پرستی پر مبنی سیاسی کلچر کی وجہ سے پیدا ہوتی ہےـ دنیا بھر میں جن سیاسی جماعتوں کو جمہوری اصولوں کے مطابق پر چلایا جاتا ہے ان میں سیاسی اسیروں کو پوری اہمیت دی جاتی ہے اور انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں شامل رکھا جاتا ہےـ کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قید تحریک انصاف کے لیڈرز سینیٹر اعجاز چوہدری میاں محمود الرشید عمر سرفراز چیمہ کئی بار مبینہ طور پر شکوہ کر چکے ہیں کہ ان سے پارٹی کے اہم فیصلوں کے بارے میں بھی مشاورت نہیں کی جاتی ـ تحریک انصاف کے مرکزی لیڈر عمران خان چونکہ خود جیل میں قید ہیں لہذا ان کو پارٹی کے تنظیمی امور کے سلسلے میں کافی مشکلات کا سامنا ہے ـ ڈی چوک اسلام آباد کا احتجاج سیاسی کارکنوں پولیس اور رینجرز کےجوانوں کی شہادتوں کی وجہ سے قومی سانحہ بن چکا ہے ـ اس سانحے کے بعد تحریک انصاف کے نائب صدر نائب کپتان شاہ محمود قریشی نے ایک مقدمے کے سلسلے میں عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو جن سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے ان کا تقاضا ہے کہ قومی مفاہمت اور قومی اتفاق رائے سے تمام مسائل کا حل تلاش کیا جائے ـ انہوں نے پیشکش کی ہے کہ اگر ان کو موقع فراہم کیا جائے تو وہ اپنے لیڈر عمران خان سے ملاقات کر کے ان کو قومی مفاہمت پر آمادہ کر سکتے ہیں ـ اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جو لوگ تحریک انصاف پر پابندی اور خیبر پختون خواہ میں گورنر راج کی باتیں کر رہے ہیں وہ ان کی احمقانہ خواہشات تو ہو سکتی ہیں مگر ان کے کسی صورت مثبت نتائج برامد نہیں ہو سکتے ـ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کے مدبر اراکین پارلیمنٹ اور عہدے داران سے اپیل کی ہے کہ وہ قومی مفاہمت اور قومی اتفاق رائے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں ـ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بلوچستان اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی قرارداد پیش کی گئی ہے ـ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی کی سنگین وارداتیں ہو رہی ہیں ان حالات میں پاکستان مزید انتشار اور تقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا ـ انہوں نے پی پی پی جمعیت العلماء اسلام اور بلوچستان عوامی پارٹی مینگل گروپ کو خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے تحریک انصاف پر پابندی کی مخالفت کر کے سیاسی بلوغت اور بصیرت کا ثبوت دیا ہے ـ انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کی رائے پر حیرانگی کا اظہار کیا کہ اس نے تحریک انصاف پر پابندی کی حمایت کی ہے حالانکہ خود ان کی اپنی جماعت پابندی کی زد میں آ چکی ہے جس کا سیاست جمہوریت کو کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا ـ شاہ محمود قریشی نے ڈی چوک پر شہید ہونے والے سیاسی کارکنوں اور فوجی جوانوں کے خاندانوں سے دلی افسوس کا اظہار کیا ـ اس موقع پر پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی چوک کے المیہ کی مذمت کی اور کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا واقعہ کبھی پیش نہیں آیا انہوں نے عندیہ دیا کہ وہ چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھ کر ان سے اپیل کریں گی کہ ڈی چوک کے واقعے کی مکمل تحقیقات کرائی جائے تاکہ حقائق عوام کے سامنے آ سکیں ـ پاکستان میں سیاسی کشیدگی اور تناؤ تشویش ناک ہوتی جا رہی ہے ان سنگین حالات میں شاہ محمود قریشی کی رائے بڑی صائب ہے جو پاکستان کے نیک نام سینیئر سیاستدان ہیں اور پاکستان کے وزیر خارجہ بھی رہے ہیں ان کی سیاسی بصیرت اور دانشمندی کے تمام جماعتوں کے لیڈر قائل ہیں ـ حکومت اگر سیاسی کشیدگی کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے شاہ محمود قریشی کو عمران خان سے جیل میں ملاقات کا موقع ضرور فراہم کرنا چاہیے تاکہ عمران خان کو زمینی حقائق کے مطابق قومی مفاہمت اور قومی اتفاق رائے پر آمادہ کیا جا سکے ـ الیکٹرانک پرنٹ اور سوشل میڈیا پر ڈی چوک کے واقعات کے بارے میں تجزیے پیش کیے جا رہے ہیں ـ اس احتجاجی مظاہرے میں رونما ہونے والے واقعات سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل بات نہیں ہے کہ احتجاجی مظاہرے کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ حکمت عملی تیار نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی ہوم ورک کیا گیا تھا ـ احتجاجی کراؤڈ کا رخ ڈی چوک کی جانب کرنے یا سنگجانی چوک کی جانب جانے کے سلسلے میں لیڈروں کے متضاد بیانات نے کارکنوں کو مایوس اور کنفیوژ کیا اور احتجاجی مظاہرے کو کمزور کیا ـ اگر احتجاجی مظاہرین کو سنگجانی چوک پر لایا جاتا اور وہاں پر ان کے لیے قیام اور طعام کا مناسب انتظام کیا جاتا تو ڈی چوک کے سانحے سے بچا جا سکتا تھا اور مذاکرات کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کیے جا سکتے تھے ـ اگر خیبر پختون خواہ کی جانب سے آنے والے قافلے سنگجانی چوک پر اپنا ڈیرا جما لیتے تو دوسرے روز دوسرے شہروں سے بھی قافلے سنگجانی چوک پہنچ جاتے جس سے ان کی عددی اکثریت میں اضافہ ہو جاتا اور حکومت دباؤ میں آ جاتی ـ اطلاعات کے مطابق 300 سے 400 تک کارکن ڈی چوک تک پہنچ سکے باقی مظاہرین چائنہ چوک کے قرب و جوار میں کھڑے رہے جس سے حکومت پر تحریک انصاف کی سیاسی کمزوری ظاہر ہو گئی ـ اگر احتجاجی مظاہرے میں شامل بشمول علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی اکٹھے ڈی چوک پر پہنچ جاتے تو حکومت کے لیے کریک ڈاؤن کرنا آسان کام نہ ہوتا ـ افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے ان کو ہمیشہ دہراتی رہتی ہیں حکومت اور اپوزیشن دونوں اگر ٹھنڈے دل کے ساتھ گزشتہ ایک سال کی حکمت عملی پر غور کریں تو اس

حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی 

تحریر:قیوم نظامی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی محاذ آرائی سیاسی جنگ کی صورت اختیار کر چکی ہے ـ وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں نے تحریک انصاف کی 24 نومبر کے احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے جس انداز سے اسلام اباد اور بڑے شہروں کے راستے بند کیے ہیں اس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی ـ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو کم و بیش 30 جگہوں سے کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا ہےـ اسلام آباد سے نہ کوئی باہر جا سکتا ہے نہ کوئی باہر سے اندر آ سکتا ہے ـ اسی طرح راولپنڈی اور لاہور کی سڑکوں کو بھی کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا ہے انٹرنیٹ اور موبائل سروس کو بند کیا گیاـ اپوزیشن کے لیڈروں اور تحریک انصاف کے سرگرم کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ان کو گرفتار کیا گیا ـ بڑے شہروں کے اندر آمد و رفت کو بند کیا گیا جس سے پاکستان کے عوام کو انتہائی اذیت کا سامنا کرنا پڑا ـ اشیائے ضروریہ کی سپلائی رک گئی ایمبولنسیں ہسپتالوں تک نہیں پہنچ سکیں ـ اس نوعیت کی غیر معمولی حفاظتی تدابیر سے یہ حقیقت ظاہر اور باہر ہو جاتی ہے کی حکومت بہت خوف زدہ ہے اور اسے اپنا اقتدار خطرے میں نظر آ رہا ہے ـ حکومت کے پاس کوئی سیاسی حل نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ریاستی طاقت کو استعمال کر کے اپوزیشن کی مزاحمتی تحریک کو کچل دینا چاہتی ہے ـ حکومت نے اسلام آباد اور دوسرے بڑے شہروں میں جس انداز سے لاک ڈاؤن کیا ہے اس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو بہت نقصان پہنچا ہے ـ بیرونی سرمایہ کار اس اندیشے میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ پاکستان کے اندر شدید سیاسی عدم استحکام ہے اور ماحول سرمایہ کاری کے لیے سازگار نہیں ہے ـ پاکستانی اور عالمی رائے عامہ یہ تسلیم کرتی ہے کہ عمران خان پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں ـ ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ـ عدالتیں جب ان کو مقدمات سے بری کر دیتی ہیں اور ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات صادر کرتی ہیں تو حکومت ان کے خلاف کوئی اور بے بنیاد مقدمہ درج کرا دیتی ہے ـ یہ رویہ کسی طور بھی جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق کے مطابق نہیں ہے ـ احتجاجی تحریک کی وجہ سے قومی خزانے کا اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے مگر حکومت جس کے پاس تمام اختیارات موجود ہیں ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہیں ہےـ تحریک انصاف کے کارکنوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم سے ایک پولیس کانسٹیبل شہید ہوگیا اور درجنوں سیکورٹی اہل کا زخمی ہوگئےـ تحریک انصاف کا یہ موقف درست ہے کہ ان کے لیڈر عمران خان کو حبس بے جا میں رکھا گیا ہے ـ اگر حکومت خوف میں مبتلا نہ ہوتی تو وہ پاکستان کے قومی مفاد میں عمران خان کو جیل سے بنی گالہ ضرور منتقل کر دیتی اور اس طرح تحریک انصاف کے نوجوانوں میں پایا جانا والا غصہ کم ہو جاتا ـ ملک میں جمہوری نظام کے تحت حکومت اور اپوزیشن دونوں کے کردار اہم ہیں لیکن اکثر یہ تعلقات تصادم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سب سے بڑی وجہ اقتدار کی جدوجہد ہے۔ اپوزیشن حکومت کو ناکام ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ عوام کا اعتماد حکومت سے ہٹایا جا سکے، جبکہ حکومت اپنی پوزیشن مضبوط رکھنے کے لیے اپوزیشن کو دبانے کی کوشش کرتی ہےـ سیاست دان اکثر ایک دوسرے کے خلاف ذاتی الزامات لگاتے ہیں جس سے تنازعات مزید شدت اختیار کر لیتے ہیں۔ سیاسی مباحثے عوامی مسائل کے بجائے ذاتی حملوں پر مرکوز ہو جاتے ہیں ـ پاکستانی سیاست میں برداشت کا فقدان عام ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کی رائے کو قبول کرنے یا اختلاف کو جمہوری انداز میں حل کرنے کے بجائے تنازعہ کو بڑھاوا دیتی ہیں۔پاکستان میں بعض اوقات ریاستی ادارے سیاست میں مداخلت کرتے ہیں جس سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ یہ مداخلت تنازعات کو مزید پیچیدہ کر دیتی ہےـ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں۔ حکومت اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے احتساب کے عمل کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے جبکہ اپوزیشن اسے انتقامی کارروائی قرار دیتی ہے۔حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوامی مسائل نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ دونوں فریق مل کر عوام کی بہتری کے لیے کام کریں وہ ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان حالیہ محاذ آرائی 8 فروری 2024 کے انتخابات کے بعد شروع ہوئی تھی جب دن دہاڑے تحریک انصاف کا انتخابی عوامی مینڈیٹ چوری کر لیا گیا ـ پاکستان مقروض غریب اور پسماندہ ملک ہے وہ اس نوعیت کی شدت پر مبنی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتاـ حالات کو نارمل بنانے کے لیے قومی مفاد کا تقاضہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں سنجیدہ مذاکرات کرنے پر آمادہ ہو جائیں ـ دونوں فریق جمہوری اقدار کا احترام کریں آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں ـ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی پہلی ترجیح عوام کے بنیادی مسائل ہونے چاہیں جو روز بروز تشویش ناک ہوتے جا رہے ہیں ـ عوام کے لیے عزت کے ساتھ زندگی گزارنا ہی ناممکن ہوتا جا رہا ہے ـ غیر معمولی دہشت گردی نے پاکستان کے مستقبل کو ہی داؤ پر لگا رکھا ہے گزشتہ چند ماہ کے دوران سینکڑوں معصوم شہری شہید ہو چکے ہیں ـ علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کی قیادت میں خیبر پختون خواہ سے آنے والے قافلے اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں ـ قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کو ڈی چوک اسلام اباد میں پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں ہے ـ اس بیان سے تحریک انصاف کے عزائم کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے ـ اگر ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکن خیبر پختون خواہ اور پنجاب

بلوچستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ 

تحریر: قیوم نظامی وزیراعظم پاکستان کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہےـ اس کے مطابق ملک کے اندر امن و امان کی صورتحال مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا گیاـ اعلامیہ کے مطابق چیلنجز سے موثر طریقے سے نمٹنے کے لیے متحدہ سیاسی آواز اور مربوط قومی بیانے کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ـ اس بات پر زور دیا گیا کہ "عزم استحکام” کے فریم ورک کے تحت قومی انسداد دہشت گردی مہم کو دوبارہ متحرک کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی حمایت اور مکمل قومی اتفاق رائے بہت ضروری ہے ـ اعلامیہ کے مطابق ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ایک جامع فوجی آپریشن کی منظوری دی گئی ـ ایپکس کمیٹی کا بلوچستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ طویل عرصے سے بلوچستان میں فوجی آپریشن جاری ہے ـ ایپکس کمیٹی کی یہ رائے بالکل درست ہے کہ فوجی آپریشن کی کامیابی کے لیے قومی اتفاق رائے ضروری ہے ـ اگر حکمران قومی اتفاق رائے کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو ان کو بلوچستان میں طویل آپریشنز کا غیر جانبدار تجزیہ پاکستانی قوم کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ ان کو یہ احساس دلایا جا سکے کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن کے مثبت نتائج برامد ہو رہے ہیں ـ پاکستان کے عوام کے لیے یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ بلوچستان میں آئے دن معصوم شہریوں جن میں محنت کش کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدور کاریگر انجینیئرز ٹرک ڈرائیور اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے معصوم شہری دہشت گردی کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں ـ کوئٹہ میں ہونے والا دہشت گردی کا واقعہ انتہائی المناک اور افسوسناک ہےـ علیحدگی پسند تنظیمیں محنت کش افراد پر حملے کرکے اپنے ہی طبقے کو کمزور کر رہی ہیں ان کا ٹارگٹ مظلوم نہیں بلکہ ظالم لٹیرے ہو نے چاہئیں ـ سیاسی معاشی اور سماجی علوم کے ماہرین کے مطابق بلوچستان میں دہشت گرد تنظیمیں طویل عرصے سے پائی جانے والی احساس محرومی سے فائدہ اٹھا رہی ہیں ـ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان کے عوام آج بھی دوسرے صوبوں کے مقابلے میں پسماندہ ہیں اس صوبے میں تعلیم کی شرح سب سے کم ہے ـ بلوچستان کے عوام کو سماجی انصاف اور مساوی مواقع میسر نہیں ہیں ـ سوال یہ ہے کہ کیا قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے بغیر مایوسی اور احساس محرومی کو ختم کیا جا سکتا ہے ـ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے باوجود عوام کے احساس محرومی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کیونکہ ان کے صوبائی وسائل کی لوٹ مار آج بھی جاری ہے ـ پاکستان کی ہر وفاقی حکومت بلوچستان میں اپنا مقدمہ عوام کے سامنے دلیل کے ساتھ پیش کرنے سے قاصر رہی ہے ـ بلوچستان میں جو ترقی ہو رہی ہے پاکستان کا میڈیا حیران کن طور پر اس کو عوام کے سامنے نہیں لا رہا ـ وفاقی حکومت اس سلسلے میں بھی نااہلی اور ناکامی کا شکار ہے ـ اگر پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کی تشہیر کرے تو بلوچستان کے عوام کے احساس محرومی کو کافی حد تک کم بھی کیا جا سکتا ہے ـ باوثوق ذرائع کے مطابق بلوچستان کے سابق وزیراعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جو قوم پرست لیڈر ہیں انہوں نے علیحدگی پسندوں سے سنجیدہ مذاکرات کی پوری کوشش کی تھی مگر طاقتور حلقوں نے ان کی ان کوششوں کو کامیاب نہ ہونے دیا ـ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے حجم اور سائز کو برقرار رکھنے کے لیے کشمیر کارڈ کے بعد اب بلوچستان کارڈ کی ضرورت ہے ـ بلوچستان کی صورتحال اس قدر کشیدہ ہو گئی ہے کہ پاکستان کے آئینی نظام کو تسلیم کرنے والے بلوچ لیڈر اختر مینگل عاجز آ کر قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے اور ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں ـ وفاقی حکومت نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے جس شرمناک طریقے سے اختر مینگل کی جماعت کے سینیٹروں کو توڑا ہے کیا اس کے بعد آئین اور جمہوریت پر بلوچ عوام کا اعتماد مزید متزلزل اور ان کےاحساس محرومی میں اضافہ نہیں ہو گا ـ ایسے اقدامات کے بعد پاکستان اور بلوچستان کے عوام کو علیحدگی پسند دہشت گردوں کے خلاف کیسے متحد کیا جا سکتا ہے ـ حیران کن امر یہ ہے کہ اب یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے مڈل کلاس کے طالب علم بھی علیحدگی پسند تنظیموں سے منسلک ہو رہے ہیں جو وفاقی حکومت کی پالیسیوں کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے ـ سی پیک منصوبے کے مرکز اور منسلک شہر گوادر کی حالت زار کا سلسلہ جاری اور ساری ہے ـ ایک سروے کے مطابق گوادر کے صرف 21 فیصد بچوں کو بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے گئے ہیں ـ 25 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں جن میں 46 فیصد بچیاں ہیں ـ گوادر کے 50 فیصد سکولوں میں پانی اور ٹوائلٹ کی سہولتیں میسر نہیں ہیں ـ صرف پانچ فیصد مکانات پختہ ہیں جبکہ باقی سب مکانات کچی مٹی سے بنائے گئے ہیں ـ صرف 18 فیصد گھروں کو سوئی گیس کی سہولت حاصل ہے جبکہ باقی سب لکڑیاں جلا کر اور تیل استعمال کر کے کھانا تیار کرتے ہیں ـ گوادر کے شہریوں کی اکثریت سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر گزارا کرتی ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ ان کو مچھلیاں پکڑنے کے لیے مناسب سہولتیں بھی فراہم نہیں کی گئیں بلکہ رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں ـ گوادر کے ملحقہ ممالک سے لوگ جدید مشینری لے کر آتے ہیں اور مچھلیاں پکڑ کر لے جاتے ہیں ـ گوادر کی ملحقہ زمینوں پر گوادر سے باہر سے آئے ہوئے لوگ قبضے کر رہے ہیں اور اربوں روپے کما رہے ہیں ـ گوادر کے نوجوانوں کو ہنر سکھانے کے لیے تربیتی مرکز بھی قائم نہیں کیے گئے ـ گوادر کے شہریوں اور ریاست کے درمیان عدم اعتماد کی فضا مستحکم ہو چکی ہے ـ گوادر کے عوام نے کئی بار "حق دو تحریک” کے نام سے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا مگر ہر مرتبہ اسے

عمران خان کی احتجاجی کال کے امکانات

تحریر: قیوم نظامی عمران خان کی احتجاجی کال کے امکانات پاکستان کی سیاسی تاریخ کے آئینے میں اگر جائزہ لیں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکومت جب کسی پاپولر لیڈر کو حراست میں لے لیتی ہے تو احتجاجی تحریک کی کامیابی کے امکانات مخدوش ہو جاتے ہیں ـ 1977 میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد جب پی پی پی نے جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک کا آغاز کیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے (جو کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے) پی بی پی کے وائس چیئرمین بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کو قائم مقام چیئرمین نامزد کر دیا ـ پارٹی کے اندر گروہ بندی کی وجہ سے شیخ محمد رشید کی قیادت کو تسلیم نہ کیا گیا چنانچہ مجبورا بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کا قائم مقام چیئرمین نامزد کیا گیا ـ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت کی وجہ سے پی پی پی جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف موثر تحریک چلانے میں کامیاب رہیں ـ پاکستان تحریک انصاف کے بانی مرکزی چیئرمین عمران خان جیل میں قید ہیں ـ تحریک انصاف کو موجودہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ـ پاکستان کی سیاسی جماعتیں شخصیت پرستی کے جنون میں مبتلا رہی ہیں ـ اگر سیاسی جماعتوں کو جمہوری اصولوں کے مطابق منظم کیا جائے اور چلایا جائے تو ان کی عوامی طاقت میں اضافہ ہو سکتا ہے ـ تحریک انصاف نے مختلف تجربات کے بعد آخر کار عمران خان کی بیگم بشریٰ بی بی کو 24 نومبر کے احتجاج کو منظم کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے جبکہ گوہر خان عمر ایوب اور سلمان اکرم راجہ عمران خان کے فوکل پرسن ہوں گےـ بیگم بشری بی بی نے خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کو فعال متحرک اور منظم بنانے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں ـ انہوں نے اراکین پارلیمنٹ اور تنظیمی عہدے داران اور انصاف سٹوڈنٹس اور یوتھ ونگ کے لیڈروں سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ 24 نومبر کی احتجاجی کال پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دیں کیونکہ اس احتجاج نے نہ صرف ان کے اپنے سیاسی مستقبل بلکہ عمران خان کی رہائی کا فیصلہ بھی کرنا ہے ـ ہر تنظیمی عہدیدار اور رکن پارلیمنٹ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ عوامی قافلے کی قیادت کرتے ہوئے ڈی چوک اسلام اباد میں پہنچیں ـ تحریک انصاف کے تمام پارلیمانی اراکین اور تنظیمی عہدے داران کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اپنے اپنے قافلوں کی ویڈیو بنائیں اور شیئر کریں تاکہ ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکےـ بشری بی بی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ پارٹی ٹکٹ ان افراد کو دیے جائیں گے جو 24 نومبر کی احتجاجی کال کو کامیاب بنانے کے لیے موثر اور فعال کردار ادا کریں گےـ پارٹی کے فیصلے کے مطابق تمام عوامی قافلے الگ الگ راستوں سے اسلام اباد میں داخل ہوں گے تاکہ چاروں جانب سے ریاستی انتظامیہ کو دباؤ میں لایا جا سکے ـ ایک ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے پانچ ہزار کارکنوں کو یوم احتجاج سے چند روز قبل اسلام آباد روانہ کر دیا جائے گا تاکہ وہ آسانی سے ڈی چوک تک پہنچ سکیں ـ تحریک انصاف نے احتجاج سے پہلے جو مطالبات پیش کیے ہیں ان میں عوامی مینڈیٹ کی واپسی 26 ویں آئینی ترامیم کا خاتمہ اور عمران خان اور دوسرے اسیروں کی رہائی شامل ہیں ـ اسلام اباد کے قریبی اضلاع سینٹرل پنجاب پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ اسلام اباد پہنچ سکیں ـ پاکستان کی موجودہ کمزور حکومت کو عمران خان اور دوسرے سیاسی اسیروں کی رہائی کے سلسلے میں بیرونی دباؤ کا بھی سامنا ہے ـ امریکی کانگرس کے 50 ارکان نے امریکہ کے صدر جو بائیڈن کو ایک اور خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالیں تاکہ عمران خان اور دوسرے سیاسی اسیروں کی رہائی ممکن ہو سکے ـ برطانیہ یورپی یونین اقوام متحدہ کی جانب سے بھی حکومت پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے ـ امریکہ کی ڈیموکریٹ پارٹی اگرچہ انتخابات ہار چکی ہے مگر اس کی یہ کوشش ہوگی کہ ٹرمپ کے منصب سنبھالنے سے پہلے عمران خان اور ان کی جماعت کو کچھ ریلیف مل سکے تاکہ اس کا کریڈٹ ٹرمپ حاصل نہ کر سکے ـ بیرونی دباؤ کو کارگر بنانے کے لیے لازم ہے کہ پاکستان کے اندر بھی عوامی دباؤ بڑھایا جائے تاکہ موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں عمران خان کے ساتھ با معنی با مقصد مذاکرات کرنے پر آمادہ ہو سکیں ـ اگر سینٹ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین نے نیک نیتی کے ساتھ عوام کی قیادت کرنے کا فیصلہ کر لیا تو 24 نومبر کی احتجاجی کال کامیاب بھی ہو سکتی ہے ـ مختلف شہروں سے نکلنے والے قافلوں کو روکنے کے لیے حکومت کے پاس انتظامی طاقت ہی موجود نہیں ہے ـ حکومت کی کوشش ہوگی کہ وہ ریاستی طاقت استعمال کر کے فعال اور متحرک اراکین اسمبلی اور تنظیمی عہدے داروں اور کارکنوں کو گرفتار کر کے 24 نومبر کی کال کو کامیاب نہ ہونے دے ـ عمران خان عوام کے مقبول ترین لیڈر ہیں البتہ ان میں سیاسی بصیرت کا فقدان ہے ـ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے جو پرانے لیڈر جیلوں میں بند ہیں عمران خان نے کبھی ان کا ذکر بھی نہیں کیا ـ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کے وائس کپتان ہیں سیاسی تجربے کے لحاظ سے وہ سب سے زیادہ سینیئر ہیں ـ اسی طرح عمر چیمہ اعجاز چوہدری محمود الرشید اور ڈاکٹر یاسمین راشد بھی تجربہ کار سیاست دان ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پارٹی کے نئے لیڈر ان سے مشاورت ہی نہیں کر رہے یہی وجہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے چند روز قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی پارٹی کی قیادت سے جائز گلے اور شکوے بھی کیے ہیں ـ انہوں نے سلمان اکرم راجہ عمر ایوب گوہر ایوب اور وقاص اکرم کو مشورہ دیا کہ وہ کوٹ لکھپت

سموگ اور ماحولیاتی آلودگی

  تحریر: قیوم نظامی سموگ ایک گہرا دھواں نما ماحول ہے جو فضا میں موجود دھواں دھول گاڑیوں اور صنعتوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں کے ملاپ سے بنتا ہےـ یہ عام طور پر سردیوں کے موسم میں زیادہ نمایاں ہوتا ہے جب درجہ حرارت کم ہونے سے فضائی آلودگی زمین کے قریب جمع ہو جاتی ہےـ ماحولیاتی آلودگی کی مختلف اقسام ہیں جن میں فضائی آلودگی جو گاڑیوں صنعتوں اور بجلی کے پلانٹ سے خارج ہونے والے دھوئیں اور زہریلی گیسیں جیسے کاربن مونو اکسائیڈ سلفر ڈائی اکسائیڈ اور نائٹروجن اکسائیڈ سے پیدا ہوتی ہے ـ دوسری قسم آبی آلودگی ہے جو فیکٹریوں کا فضلہ اور گندا پانی دریا اور سمندروں میں پھینکنے سے بنتی ہےـ پلاسٹک اور دیگر غیر حیاتیاتی مواد کی موجودگی سے بھی آبی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہےـ زمینی آلودگی کیمیکل فرٹیلائزرز اور پلاسٹک کا بے دریغ استعمال فضلے کو زمین میں دفن کرنا غیر معیاری ایندھن کے استعمال جنگلات کی کٹائی شہری علاقوں میں بڑھتی ہوئی صنعتی اور ٹریفک کی سرگرمیاں ماحولیاتی قوانین کا نفاذ نہ ہونا فضائی آلودگی کے بڑے اسباب ہیں ـ ماحولیاتی آلودگی کا مقابلہ کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر بیداری اور شعور کی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے سب لوگ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈال سکیں ـ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں رواں برس بھی موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی سموگ نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گزشتہ ہفتوں میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے سموک کی مقدار انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گئی ہے ـ حالیہ ڈیٹا کے مطابق لاہور شہر متعدد بار دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا ـ ماہرین کے مطابق سموگ کی صورتحال موسم سرما میں شدت اختیار کر جاتی ہے مگر درحقیقت یہ وہ آلودگی ہے جو سارا سال فضا میں موجود رہتی ہےـ یونیورسٹی آف شکاگو میں دنیا بھر کے ممالک میں فضائی آلودگی کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں رہنے والے افراد کی متوقع عمر ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے باعث چار سال تک بڑھ سکتی ہےـ جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہو رہی ہےـ نزلہ کھانسی گلا خراب سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو سموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں جبکہ سموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں جیسا کہ پھیپھڑوں کا خراب ہونا یا کینسر شامل ہیں ـ ڈاکٹروں کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس لیے جب سموگ بڑھ جائے تو انہیں گھروں میں ہی رہنا چاہیے ـ سموگ کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے پنجاب حکومت نے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں ـ سکولوں کو ایک ہفتے کے لیے بند کر دیا گیا ہے تاکہ سکولوں کے بچے سموک سے متاثر نہ ہو سکیں ـ مارکیٹوں کو رات آٹھ بجے بند کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ لوگ اپنے گھروں میں رہیں اور سموگ سے بچ سکیں ـ فصلوں کو جلا کر ماحول کو آلودہ کرنے والے افراد کے خلاف سخت کاروائیاں کی جا رہی ہیں ـ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے چالان کیے جا رہے ہیں ایسی فیکٹریوں کے مالکان جن کے صنعتی یونٹ سے نکلنے والا دھواں فضا کو آلودہ کر رہا ہے ان کے خلاف بھی قانونی کاروائی کی جا رہی ہے ـ محکمہ صحت پنجاب نے ہسپتالوں کو ہنگامی صورتحال کے سلسلے میں الرٹ کر دیا ہے تاکہ جو افراد سموگ سے متاثر ہوں ان کا بر وقت علاج کیا جا سکےـ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے باکو میں پاکستان کی میزبانی میں ہونے والی کلائمیٹ فنانس گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق وعدوں پر عمل درامد یقینی بنانا ہوگاـ ہمیں ماحولیاتی تبدیلی جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک شدید مشکلات کا شکار ہیں ـ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کو آگے آنا ہوگا اور یو این کے فریم ورک پر عمل درامد کرنا ہوگاـ انہوں نے زور دیا کہ ترقی پذیر ملکوں کو 68 کھرب ڈالر درکار ہیں ترقی یافتہ ملک ترقی پذیر ملکوں کی مدد کریں ـ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں گلیشیئرز سے 90 فیصد پانی حاصل ہوتا ہے درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیئرز کی تیزی سے پگنے پر تشویش ہےـ تیزی سے پگلتے گلیشیئرز کا تحفظ سنجیدہ اقدامات کا متقاضی ہےـ درخت زمین پر زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہیں کیونکہ یہ جانوروں کو خوراک فراہم کرتے ہیں پرندوں کو رہائش فراہم کرتے ہیں اور انسانوں کو پھل فراہم کرتے ہیں درخت زمین پر آکسیجن کا تناسب بگڑنے نہیں دیتےـ درخت سیلاب سے بچاؤ بھی کرتے ہیں ـ درختوں اور جڑی بوٹیوں سے انسانوں کو لاحق مختلف بیماریوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے ـ پاکستان کی بدقسمت تاریخ میں درخت کاٹے زیادہ گئے ہیں جبکہ لگائے بہت کم گئے ہیں ـ درختوں کی قلت کی وجہ سے آج پاکستان کے بڑے شہر سموگ اور آلودگی جیسے خطرات سے دوچار ہو چکے ہیں ـ درختوں کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے اپنی تو وہ مثال ہے جیسے کوئی درخت اوروں کو چھاؤں بخش کر خود دھوپ میں جلے ایک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے جس کا ہمسائے کے آنگن میں سایہ جائے وزارت ماحولیات 2017 میں قائم کی گئی جس کی بنیادی ذمے داری یہ تھی کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں ٹھوس اور جامع پالیسی بنائے تاکہ پاکستان کے مختلف علاقوں کو سموگ اور ماحولیاتی آلودگی جیسی آفتوں سے محفوظ بنایا جا سکے ـ پاکستان میں چونکہ احتساب کا شفاف نظام ہی موجود نہیں ہے اس لیے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وزارت ماحولیات نے گزشتہ سات سالوں کے دوران کیا فیصلے کیے اور ٹھوس

سوشلسٹ کون ہیں؟

تحریر: کامریڈ عرفان علی جی سوشلسٹ وہ ہیں جو دنیا میں انصاف چاہتے ہیں،لابرابری ،سماجی اونچ نیچ ،طبقاتی نظام ،سود ،استحصال ،تعصب ،غربت،بھوک بیماری ،جہالت ،جنگوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔جو منڈی کے لیے پیداوار کی بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل کے قائل ہیں،جو نیچر کو آنیوالی نسلوں کے لیے محفوظ چھوڑنا چاہتے ہیں۔جو فطرت سے جنگ نھیں بلکہ بقاء باہمی کے قائل ہیں۔جو فطرت کی عنایات کے بے دریغ ضیاع یعنی سرمایہ دارانہ استعمال کو غلط سمجھتے ہیں۔جو بندوق کی گولی اور توپ کے گولے کی بجائے انسانی زندگی کو بیماریوں سے محفوظ بنانے والی گولی (ٹیبلیٹ)کو اہمیت دیتے ہیں۔جو انسان کی اجتماعی جسمانی و روحانی نشوونما چاہتے ہیں کہ انسان اپنی فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھاے۔قدرت کے اس انمول تحفے زندگی کو ،کائنات کے حسن کو ترقی دے۔جو افراتفری کی بجائے زندگی و معاشرے میں ڈسپلن پیدا کرے ۔انسان کے خصائل رذیلہ کو ختم کرے۔حرص و حوس،دھوکہ و مکاری،کینہ بغض و لالچ ،خود غرضی و خود فریبی،بزدلی و بے حسی،غرور و تکبر کا خاتمہ کرے۔جو سرمایہ پرستی کی خاصیت ہیں۔جی ہاں سوشلسٹ وہ ہیں جو انسان کے ہاتھوں انسان ،قوم کے ہاتھوں قوم،انسان کے ہاتھوں نیچر اور نیچر کے ہاتھوں انسان کے استحصال کے خلاف ہیں۔جو مرد کے ہاتھوں عورت اور بچوں ،طاقتوروں کے ہاتھوں کمزوروں کے استحصال کے خلاف ہیں۔جو انسان کی لاکھوں سالوں سے حسرتوں ،خواہشوں،نیک تمناؤں ،اور احتیاجات کی تکمیل چاہتے ہیں۔جو دنیا سے محرومیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔جو انسان کی جنگلی نفسیات کی بجائے انسانی معاشرت والی فطرت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔جو مذہبوں ،فرقوں،نسلوں،ذاتوں،،زبانوں،علاقوں کے تعصبات کا خاتمہ چاہتے ہیں۔جو ساری دنیا کو ایک خاندان کی صورت دیکھنا چاہتے ہیں۔جو حدوں،سرحدوں کی بجائے کل کائنات کو کل انسانیت کی میراث دیکھنا چاہتے ہیں۔تم ان پاکیزہ خیالات کو کفر سمجھو تو سمجھو ہم انھیں انسان کی نجات ، منزل و معراج سمجھتے ہیں۔ تمہاری سرمایہ داری و سامراجیت نے دنیا کو جہنم بنا دیا ہے اور ہم اسے انسانوں کے رہنے کے قابل بنانا چاہتے ہیں جس کے لیے انقلاب نھیں انقلابوں کی ضرورت ہے اور ہم اس مزدور انقلاب کا ایندھن بننے کو تیار ہیں۔جسے سوشلسٹ انقلاب کہتے ہیں جو کمیونزم کا پہلا مرحلہ ہے۔تو آو تحقیق کرو اور اگر یہ حقیقت تم پہ آشکار ہو جائے تو آؤ اس کے لیے جدوجھد شروع کرو۔ورنہ سامراجیت اپنی نیچر کے مطابق دنیا کو بھوک افلاس اور جنگوں میں مارتی رہے گی۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

لائبریری میں جن بھوت ؟

  تحریر: کامریڈ عرفان علی آج سے بیس سال قبل ہم علی رضا آباد شفٹ ہوے تو وہاں کے پڑھے لکھے جوانوں سے راہ و رسم بنانے کی کوشش کی جو مختلف مذہبی بیک گراؤنڈ رکھتےتھے۔ ایک بی اے پاس دوست جو میرا ہمسایہ تھا جسے میں نے فیکٹری میں اپنے ساتھ کام پہ لگوایا۔اس نے مجھے پرزور دلائل سے ثابت کیا کہ علی رضا آباد میں قزلباش فیملی نے بھلے زمانوں سےبہت بڑی لائبریری بنوا رکھی ہے جو مدتوں سے مقفل پڑی ہے اس میں ،،جن بھوت،،رہتے ہیں۔میں اس شخص کو یہ بات سمجھانے میں ناکام رہا کہ دراصل یہ بات لوگوں کو کتاب و علم سے دور رکھنے کے لیے پھیلائی گیئ ہے۔اور کئی دوستوں سے بات کی کہ اس لائبریری کو کھولا جاے تو یہ ،،جن بھوت،، والا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ہمارے بہت ہی قابلِ احترام دوست ذاہد عباس زیدی جو بڑی علمی و سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی ایسی شخصیت ہیں جن کا احترام پورے علاقے کے تمام دیہات کے لوگ دل و جاں سے کرتے ہیں۔ان سے اور مرحوم سید ذاکر حسین زیدی صاحب سےبھی تذکرہ رہا کہ کیسے اس لائیبریری کو کھولا جاے مگر کامیابی نھیں ہو سکی۔ آج کئی سالوں بعد میں سوچ رہا ہوں کہ کتاب و علم کی طرف ہماری سوسائٹی کاعمومی رویہ دشمنی والا ہے۔جس کا نتیجہ دہشت گردی،فرقہ واریت و غیر سیاسی و غیر منطقی سوچ رکھنے والے وحشی ہجوم کی صورت برآمد ہوا ہے۔اور جس کی قیمت ہم غربت بھوک،لاعلاجی ،افراتفری اور جہالت کی صورت آدا کررہے ہیں۔ یہاں قلم کتاب کو صرف سرکاری سلیبس اور ڈگری سے نتھی کردیا گیا ہے اور باقی عملی و سماجی زندگی سے کتاب کا رشتہ ختم کردیا گیا ہے۔ اگر کچھ مذہبی کتابیں پڑھی بھی جاتی ہیں تو وہ ذہن روشن کرنے،سمجھنے،زندگی و سماج میں تبدیلی کی غرض سے کردار آدا کرنے کے لیےنھیں بلکہ آنکھیں و ذہن بند کیے ثواب کی خاطر پڑھی جاتی ہیں۔یعنی ہم مذہب کو بھی اس کی حقیقت کو سمجھنے جس کی طرف مقدس کتاب قرآن کریم میں بھی سینکڑوں بار حکم آیا ہے کہ ،،تحقیق ،،کرو۔مگر ہمیں اسلاف نے اس طرف جانے ہی نھیں دیا۔ہم تحقیق کی بجائے لآئ لگ قسم کے مسلمان ہیں۔ ہماری مذہبی تاریخ میں جو علماء ،حکما،فلاسفر ہمیں اس طرف لانے کی کوشش کرتے رہے انھیں راندہ درگاہ بناتے ہوے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔اج جن فلسفیوں ،سایسندانوں کے مسلمان ہونے پہ ہم فخر کرتے ہیں ان کی زندگیوں میں ان پہ کس طرح مظالم کے پہاڑ توڑے گیے۔انھیں زندیق،مرتد و گمراہ کہا گیا،جنھیں سزا کے طور پہ قید رکھا،کوڑے مارے گیے،جن پہ تھوکا گیا،جنھیں رسوا کیا گیا،سر پہ انھیں کی بھاری بھرکم کتابیں ماری گیئں ،حتی کہ آنکھوں کی روشنی چھین لی یعنی سماج سے نور چھین لیا گیا ۔ اور آج بھی وہی چلن ہے آج بھی کوئی تحقیقی بات کرے تو وہ کفر کے فتووں کی زد میں رہتا ہے۔اج بھی ہجوم کے ہاتھوں اہل علم بیدردی سے قتل ہوتے ہیں اور جہلا ٹھٹھے لگا رہے ہوتے ہیں۔ماضی میں بھی ان باعمل مسلم اسکالرز پر جب تشدد کیا جاتا تو باآواز بلند نعرے لگائے جاتے آج بھی نعروں کی گونج میں علم و دانش کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔دراصل یہ مین سبب ہے ہماری پسماندگی کا۔اج بھی ہمارے دانشور خوف کے سائے میں جیتے جب کہ جہالت دندناتی پھرتی ہے۔پھر بھی کچھ من چلے،کچھ دیوانے اس جہد میں مصروف ہیں۔ان میں ایک شخصیت مزدور کسان پارٹی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر تیمور رحمان ہیں جن کے خلاف آے روز زہریلا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔اس طرح کے کتنے ہی نام ہیں جو خاموش کروا دیے گیے،مار دیے گیے یا آج بھی جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ خیر بات شروع ہوئی تھی کہ ہمارا مجموعی رویہ یا غالب رحجان کتاب و علم دوستی کی بجائے کتاب دشمنی کا ہے،جہالت پی ناز کرنے کا ہے جب تک یہ روش تبدیل نہیں ہوتی یہاں کوئ مثبت تبدیلی ممکن نھیں ۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

سموگ کے طبقاتی اثرات! 

  تحریر: کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی سرمایہ دارانہ نظامِ میں سرمایہ داروں کے پاس تقریباً سب کچھ اور محنت کشوں کے پاس تقریباً کچھ نھیں ہوتا۔گھر، گاڑی تعلیم علاج معاشرے میں جئے جئے کار یہ سب زرداروں کی رسائی بلکہ اجارہ داری میں ہوتا ہے۔زردار مصیبت زدہ علاقوں کو پل بھر میں چھوڑ سکتے ہیں ،دوسرے ممالک جا سکتے ہیں جب کے محنت کشوں کا مقدر وہیں مصیبت و ابتلا گھرے رہ کرمرنا ہے۔محنت کش کودو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوتے ہیں وہ دیگر حفاظتی لوازمات کہاں سے پورے کرے۔ ابھی آپ اس سموگ کو دیکھیں اس صورت احوال کی بڑی ذمہ داری بہرحال طبقہ اشرافیہ پہ بنتی ہے مگر اس سےمتاثر کروڑوں غریب ہوتے ہیں ۔سموگ و زہریلی ہوا سے بچنے کے لیے امراء اپنے گھروں میں چار چھ ہفتے بند ہو کر گزار سکتے ہیں،بیرون ممالک جا سکتے ہیں جیسے ہماری وزیر اعلیٰ اور سابق وزیر اعظم غیر ملکی دورے پہ ہیں۔بہت سے ریٹائرڈ آفیسرز یورپ میں ہی سیٹل ہو جاتے ہیں کیونکہ اس ملک کو تو اس قابل چھوڑا نھیں کہ یہاں مستقل سکونت اختیار کی جاسکے۔اور جس پیڑھی نے اس ملک کے خزانوں پہ ابھی مزید ہاتھ صاف کرنے ہیں اور یہاں کہ محنت کشوں کی محنت کو لوٹنا ہے حکمرانی و عیش کے مزے لوٹنے ہیں وہ گھروں میں ایئر کلینر ٹائپ ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں جب کہ غریب مر رہے ہیں۔یہ طبقاتی نظام ہے جو کچھ لوگوں کو جدید ترین آسائشیں،سہولیات و ٹیکنالوجی تک رسائی دیتا ہے اور کروڑوں انسانوں کو ان نعمتوں سے محروم رکھتا ہے،وہ کیا ایئر کلینر لے جس کا گھر ہی نھیں گھر ہے تو کھڑکیاں دروازے نھیں ۔کھڑکیاں دروازے ہوں تو جیب اجازت نہیں دیتی کہ روزگار نھیں ہے۔ایک تو تنگدستی ہے اوپر سے کم علمی ۔لہذا اس نظام کی جگہ ایک منصفانہ ،ایک منصوبہ بند معیشت پہ بنیاد رکھنے والا نظام چاہیے جو خلق خدا کو بلا تفریق ڈیلیور کرے۔اور اس اس نظام کو اشتراکیت (سوشلزم) کہتے ہیں۔یعنی تمام وسائل و ذرائع پیداوار ریاست کی ملکیت اور ریاست محنت کش عوام کے کنٹرول میں ہو۔ہر بالغ و صحت مندشخص اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرے اور کام کے مطابق معاوضہ لے جب کہ تعلیم ،ریہائش،علاج،روزگار ریاست کی اولیں ذمہ داری ہو گی ۔

بجلی کی فروخت میں کمی!

تحریر: کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی بھاری بلوں سے تنگ عوام نے سولر پینل لگو لیے جس سے بجلی کی فروخت میں 17 فیصد کمی۔۔8ہزار میگاواٹ کی سولر پلیٹس فروخت ہوئیں جن سے تقریباً 3 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی گئی ۔(روزنامہ ایکسپریس ہفتہ 9 نومبر 2024).اور حکومت کے طرم خان حمایتی ،،جلیھاں،،ڈال رہے ہیں کہ حکومت نے بجلی میں ریلیف دے دیا۔ جب کہ حقیقت یہ ہکہ لوگوں نے کثیر سرمایہ خرچ کر کے سولر پینلز لگاے جن سے وہ اضافی بجلی واپڈا کو بھی دینے کے قابل ہوے ہیں۔صرف لیسکو صارفین نے 836 میگاواٹ بجلی قومی گرڈ کو دی ہے۔ لہذا حکومت بجائے آئ پی پیز کی لوٹ مار کا اقرار کرنے کے شیخی مار رہی ہے کہ ہم نے بجلی سستی کردی ہے۔ اب بھی بجلی مہنگی ہے اور جب تک آئی پی پیز کو نوازنے والے عوام دشمن معاہدے کینسل نھیں کی جاتے،یا ان پہ نظر ثانی نھیں کی جاتی حکومت عوام کی نظروں میں سرخرو نھیں ہو سکتی ۔بجلی پانچ دس روپے فی یونٹ سے مہنگی نھیں ہونی چاہیے ۔سستی بجلی ملک میں صنعت کی ترقی اور عوام کے معیار زندگی میں بہتری کے لیے ضروری ہے۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی