سوشلسٹ کون ہیں؟
تحریر: کامریڈ عرفان علی جی سوشلسٹ وہ ہیں جو دنیا میں انصاف چاہتے ہیں،لابرابری ،سماجی اونچ نیچ ،طبقاتی نظام ،سود ،استحصال ،تعصب ،غربت،بھوک بیماری ،جہالت ،جنگوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔جو منڈی کے لیے پیداوار کی بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل کے قائل ہیں،جو نیچر کو آنیوالی نسلوں کے لیے محفوظ چھوڑنا چاہتے ہیں۔جو فطرت سے جنگ نھیں بلکہ بقاء باہمی کے قائل ہیں۔جو فطرت کی عنایات کے بے دریغ ضیاع یعنی سرمایہ دارانہ استعمال کو غلط سمجھتے ہیں۔جو بندوق کی گولی اور توپ کے گولے کی بجائے انسانی زندگی کو بیماریوں سے محفوظ بنانے والی گولی (ٹیبلیٹ)کو اہمیت دیتے ہیں۔جو انسان کی اجتماعی جسمانی و روحانی نشوونما چاہتے ہیں کہ انسان اپنی فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھاے۔قدرت کے اس انمول تحفے زندگی کو ،کائنات کے حسن کو ترقی دے۔جو افراتفری کی بجائے زندگی و معاشرے میں ڈسپلن پیدا کرے ۔انسان کے خصائل رذیلہ کو ختم کرے۔حرص و حوس،دھوکہ و مکاری،کینہ بغض و لالچ ،خود غرضی و خود فریبی،بزدلی و بے حسی،غرور و تکبر کا خاتمہ کرے۔جو سرمایہ پرستی کی خاصیت ہیں۔جی ہاں سوشلسٹ وہ ہیں جو انسان کے ہاتھوں انسان ،قوم کے ہاتھوں قوم،انسان کے ہاتھوں نیچر اور نیچر کے ہاتھوں انسان کے استحصال کے خلاف ہیں۔جو مرد کے ہاتھوں عورت اور بچوں ،طاقتوروں کے ہاتھوں کمزوروں کے استحصال کے خلاف ہیں۔جو انسان کی لاکھوں سالوں سے حسرتوں ،خواہشوں،نیک تمناؤں ،اور احتیاجات کی تکمیل چاہتے ہیں۔جو دنیا سے محرومیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔جو انسان کی جنگلی نفسیات کی بجائے انسانی معاشرت والی فطرت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔جو مذہبوں ،فرقوں،نسلوں،ذاتوں،،زبانوں،علاقوں کے تعصبات کا خاتمہ چاہتے ہیں۔جو ساری دنیا کو ایک خاندان کی صورت دیکھنا چاہتے ہیں۔جو حدوں،سرحدوں کی بجائے کل کائنات کو کل انسانیت کی میراث دیکھنا چاہتے ہیں۔تم ان پاکیزہ خیالات کو کفر سمجھو تو سمجھو ہم انھیں انسان کی نجات ، منزل و معراج سمجھتے ہیں۔ تمہاری سرمایہ داری و سامراجیت نے دنیا کو جہنم بنا دیا ہے اور ہم اسے انسانوں کے رہنے کے قابل بنانا چاہتے ہیں جس کے لیے انقلاب نھیں انقلابوں کی ضرورت ہے اور ہم اس مزدور انقلاب کا ایندھن بننے کو تیار ہیں۔جسے سوشلسٹ انقلاب کہتے ہیں جو کمیونزم کا پہلا مرحلہ ہے۔تو آو تحقیق کرو اور اگر یہ حقیقت تم پہ آشکار ہو جائے تو آؤ اس کے لیے جدوجھد شروع کرو۔ورنہ سامراجیت اپنی نیچر کے مطابق دنیا کو بھوک افلاس اور جنگوں میں مارتی رہے گی۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی
بجلی کی فروخت میں کمی!
تحریر: کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی بھاری بلوں سے تنگ عوام نے سولر پینل لگو لیے جس سے بجلی کی فروخت میں 17 فیصد کمی۔۔8ہزار میگاواٹ کی سولر پلیٹس فروخت ہوئیں جن سے تقریباً 3 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی گئی ۔(روزنامہ ایکسپریس ہفتہ 9 نومبر 2024).اور حکومت کے طرم خان حمایتی ،،جلیھاں،،ڈال رہے ہیں کہ حکومت نے بجلی میں ریلیف دے دیا۔ جب کہ حقیقت یہ ہکہ لوگوں نے کثیر سرمایہ خرچ کر کے سولر پینلز لگاے جن سے وہ اضافی بجلی واپڈا کو بھی دینے کے قابل ہوے ہیں۔صرف لیسکو صارفین نے 836 میگاواٹ بجلی قومی گرڈ کو دی ہے۔ لہذا حکومت بجائے آئ پی پیز کی لوٹ مار کا اقرار کرنے کے شیخی مار رہی ہے کہ ہم نے بجلی سستی کردی ہے۔ اب بھی بجلی مہنگی ہے اور جب تک آئی پی پیز کو نوازنے والے عوام دشمن معاہدے کینسل نھیں کی جاتے،یا ان پہ نظر ثانی نھیں کی جاتی حکومت عوام کی نظروں میں سرخرو نھیں ہو سکتی ۔بجلی پانچ دس روپے فی یونٹ سے مہنگی نھیں ہونی چاہیے ۔سستی بجلی ملک میں صنعت کی ترقی اور عوام کے معیار زندگی میں بہتری کے لیے ضروری ہے۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی
تعلق
تحریر ۔ نادر علی شاہ ایک انسان کے بنیادی طور پر انفرادی حیثیت میں چار تعلقات ہوتے ہیں ۔ تعلق کے معنوں میں رشتہ، ناتا، واسطہ یا سروکار وغیرہ آتا ہے ۔ ایک اچھی، خوشحال اور پائدار زندگی گزارنے کے لیے آپ کا چار لوگوں یا چیزوں سے مضبوط تعلق ہونا بہت ضروری ہے ۔ جو انسان ان چار چیزوں سے اپنا تعلق مضبوط کر لے گا، اس کی مشکلات آسان ، اندھیروں میں اجالا ، ناکامیوں میں کامیابی ، تنگدستی میں خوشحالی ، بے چینی میں سکون اور نفرتیں محبت میں بدل جائیں گیں ۔ ایسا انسان پھر زندگی گزارے گا نہیں بلکہ جیئے گا اسے مایوسی میں بھی امید دکھائی دے گی ۔ اب بات کرتے ہیں کہ ان چار تعلقات کی جو ہمیں مندرجہ بالا تبدیلیوں کے قابل بناتے ہیں ۔ نمبر ایک: اپنے آپ سے تعلق ۔ یعنی اپنے آپ کو جاننا ، خود کی پہچان ، کہ میں کون ہوں ، کیوں ہوں اور کس لیے ہوں۔ خود کو پہچاننے کے اس عمل کو خودی کہتے ہیں۔ اقبال نے بھی فرمایا ہے: ا خودی کی جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی زمین و آسمان و کرسی و عرش خودی کی زد میں ہے ساری خدائی جب ایک انسان خود کے اندر جھانک کر خود کو جانتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ وہ کیا ہے اور اس کی پیدائش کا کیا مقصد ہے اور اسے اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے تو پھر اس پر قدرت کی طرف سے راز کھلتے ہیں اور سارا جہاں اس کی مٹھی میں ہوتا ہے۔ دوسرا تعلق ۔ کائنات سے تعلق ۔ ایک انسان جب خود کو پہچان لیتا ہے پھر اسے چاروں اطراف پھیلی ہوئی قدرت اور کائنات کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔پھر وہ انسان چاند ستاروں ، وسیع آسمان، سورج، سیاروں ، کہکشاؤں ، جنت ،دوزخ، فرشتوں ، پہاڑوں ، ریگستانوں ، میدانوں ، سمندروں ، دریاؤں ، پہاڑوں ، کھلیانوں ، ہواؤں ، جانوروں پرندوں ، انسانوں ، پانی، اناج، سبزیوں پھلوں اور معدنیات کو دیکھتا ہے اور ان سے تعلق جوڑنے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر عیاں ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی ایسی ہستی ہے جو یہ سارے نظام چلا رہی ہے ۔ اس طرح اس فرد کا اس ذات پر یقین اور قوی ہو جاتا ہے ۔ تیسرا تعلق: لوگوں سے تعلق ۔لوگوں سے تعلقات میں ہمارا اپنے پورے خاندان، دوستوں، رشتہ داروں، کولیگز، محلے داروں، اساتذہ کرام، مذہبی پیشواؤں کے ساتھ تعلق شامل ہے۔ لوگوں سے تعلق کو بھی کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس دنیا میں براہ راست ہمارا جن سے تعلق ہوتا ہے وہ بالآخر لوگ یا انسان ہی ہوتے ہیں ۔ اگر ہمارا لوگوں سے اچھا تعلق نہیں ہوگا تو ہم بے شمار ذہنی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ تارک الدنیا یا مجاوروں کی زندگی میں بھی بہت سے مسائل کا خدشہ ہے ۔ کسی بھی انسان کے لیے اس دنیا میں ایک خوشگوار اور پر سکون زندگی گزارنے کے لیے لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ چوتھا تعلق: اللّٰہ تعالیٰ سے تعلق ۔ چوتھا تعلق اپنی اہمیت کے حوالے سے بہت ضروری ہے جس کے بغیر انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ سے دوری بندے کو بندے سے دور کر دیتی ہے ۔ انسان جب اللہ کو یاد کرتا ہے، صوم و صلاۃ کا پابند ہوتا ہے، اپنی زندگی کو شریعت کے مطابق ڈھالتا ہے، تو براہ راست اس کا تعلق اللہ سے مضبوط ہوجاتا ہے۔ وہ تنہائی میں ہو یا محفل میں ہر لمحہ اللہ کی یاد اُس کے دل میں موجود رہتی ہے، اُس کے خوف سے اُس کا دل لرزاں رہتا ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی واضح ہے کہ جو لوگ پہلے تین تعلقات کو بڑے احسن طریقے سے قائم رکھتے ہیں انہیں اللّٰہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے میں کسی مشکل کا سامنا کرنا نہیں پڑتا ۔ بلکہ اللّٰہ عزوجل خود ایسے لوگوں کو اپنا دوست قرار دیتا ہے ۔ آج ہم جن پریشانیوں ، معاشی مسائل اور ذہنی خلفشاروں کا شکار ہیں اس کا یہی حل کہ ہمیں اپنے آپ سے ، کائنات سے، لوگوں سے اور اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ خود کو جوڑنے کی ضرورت ہے ۔
ٹیکستان
تحریر: نادر علی شاہ ٹیکس وہ رقم ہے جو ریاست یا حکومت ورکروں کی آمدنی ، کاروباری منافع، اشیاء و خدمات کی خرید وفروخت اور لین دین پر وصول کرتی ہے ۔ ایک دوسری تعریف میں ٹیکس وہ معاوضہ ہے جو ریاست کی طرف سے دی جانے والی سہولیات کے عوض عوام سے وصول کیا جاتا ہے ۔ ٹیکس کیا ہے یہ تو ہم نے مختصراً جان لیا اب یہ جاننا ضروری ہے کہ ریاست ٹیکس کیوں اکٹھا کرتی ہے؟ کسی بھی حکومت کو اپنے ریاستی آمور کو چلانے کے لیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے جو ٹیکس کی وصولی سے ہی ممکن ہے ۔ کسی بھی ملک میں ریاستی آمور کو چلانے کے لیے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مختلف ادارے قائم کیے جاتے ہیں اور اداروں کے مالی معاملات کا سارا دارومدار ریاست کے سر ہوتا ہے اور ریاست ہر ادارے کی مالی ضروریات کو ٹیکس کے پیسوں سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے۔ اس لیے اگر کسی بھی ریاست کا ٹیکس کا نظام منظم و مربوط نہیں ہوگا تو ریاست کا اپنے مالی آمور چلانا بھی ممکن نہیں ہوگا اور ریاست کی سالمیت کو برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ کسی بھی ریاست کے وجود کے لیے ٹیکسز آکسیجن کی اہمیت رکھتے ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ٹیکسز کے استعمال میں ریاست کی کیا ترجیحات ہیں۔ کیا ٹیکسز کی مد میں جمع ہونے والی رقم لوگوں کی فلاح و بہبود اور ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے یا اس کا مصرف صرف ایک خاص طبقہ جس میں حکومتی ارکان ، بیوروکریسی ، اسٹیبلشمنٹ، ججز ، جاگیردار اور سرمایہ کار شامل ہیں ۔ ٹیکس کی دو اقسام ہیں بلواسطہ ٹیکس اور بلا واسطہ ٹیکس ۔ بلواسطہ ٹیکس ایسا ٹیکس ہے جو جس فرد یا اینٹیٹی پہ لگایا جائے وہی اسے ادا کرتا ہے جیسے کہ آمدنی ٹیکس ، پراپرٹی ٹیکس ، اثاثہ جات ٹیکس وغیرہ ۔ جبکہ بلا واسطہ ٹیکس وہ ٹیکس ہے جو کہ پیداکار کی بجائے حتمی استعمال کنندہ کو ادا کرنا پڑتا ہے جیسے کہ سیلز ٹیکس (اشیاء و خدمات کی خرید وفروخت پر) ، کسٹم ڈیوٹی وغیرہ ۔ ہم ایک سوئی خریدنے سے لے کر ہوائی جہاز کا سفر کرنے تک ایک ایک چیز اور خدمت پر بلاواسطہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ ترقی یافتہ اور بہترین ٹیکس کا نظام رکھنے والے ممالک میں بلواسطہ ٹیکس زیادہ اکٹھا کیا جاتا ہے کیونکہ یہ سیدھا لوگوں کی آمدنی، پراپرٹی یا اثاثہ جات پر لگتا ہے تو جیسے ان لوگوں کی دولت میں اِضافہ ہوتا ہے ٹیکس میں بھی اِضافہ ہوتا ہے جس سے ریاست کو فائدہ پہنچتا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف بلا واسطہ ٹیکس جو کہ استعمال کنندہ سے وصول کیا جاتا ہے جس وجہ سے عام لوگوں پر مہنگی اشیاء و خدمات کا بوجھ بڑھ جاتا ہے جس کے نتیجے میں گھریلو استعمال کی اشیاء عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جاتی ہیں ۔ جب ریاست بلواسطہ ٹیکس اکٹھا کرنے کی بجائے ان کا رجحان صرف بلا واسطہ ٹیکس جمع کرنے کی طرف ہو جائے تو وہی مہنگائی و بدامنی کا ماحول بنتا ہے جو اس وقت پاکستان (ٹیکستان) میں بنا ہوا ہے۔ یہاں آپ کو وطن عزیز پر مسلط بھیڑیوں کی ایک نہ اہلی اور بدعنوانی کا انکشاف کرتا چلوں۔ پاکستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے جو ادارہ قائم ہے اس کا نام فیڈرل بورڈ آف ریونیو ہے۔ پاکستان میں اکٹھا ہونے والے ٹیکس کا اٹھ فیصد بلواسطہ ٹیکس ہے جبکہ بانوے فیصد بلاواسط ٹیکس ہے۔ اس ادارے کا کام بلواسطہ ٹیکس اکٹھا کرنا ہے جبکہ بلا واسطہ ٹیکس تو خود بخود سیلز ٹیکس کی صورت میں اکٹھا ہو جاتا ہے ۔ لیکن آپ یہ جان کر حیران ہونگے کہ آٹھ فیصد ٹیکس اکٹھا کرنے والا فیڈرل بورڈ آف ریونیو کل ٹیکس کا بیس فیصد تنخواہوں اور مراعات کی صورت میں لے اڑتا ہے۔ اس سے بڑا سفید ہاتھی کیا ہوگا عوام کے لیے ۔ ہم عام لوگ سوئی، ماچس، بلیڈ، صابن، شیمپو، ٹوتھ پیسٹ ، کاسمیٹکس، مسالہ جات ، چینی گھی ، بجلی کے بل، پٹرولیم مصنوعات ، ہوم اپلائنسز ، حکومتی فیسیں ، چلان، ادویات اور بیکری کی چیزیں سب پر اتنا ہی ٹیکس ادا کر رہے ہیں جتنا کہ اسلام آباد ، کراچی اور لاہور میں بیٹھے ہوئے لوگ کرتے ہیں ۔ لیکن اگر سہولیات کی بات کی جائے تو کیا ہمارے لیے بھی وہی سب کچھ ہے جو ان کے لیے ہے۔ ہم نے شروع میں بات کی ٹیکس وہ معاوضہ ہے جو ریاستی خدمات کے عوض عوام حکومت کو ادا کرتی ہے۔ اگر ہم اس بات کو حقیقت کے ساتھ پرکھیں تو اس بات کا حقیقت کے ساتھ دور دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ سب سے پہلے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کیا ریاست ہمیں بنیادی ضروریات کو ہماری دہلیز تک پہنچا رہی ہے۔ بنیادی ضروریات میں روٹی ، کپڑا ، مکان ، تعلیم ، صحت اور عزتِ نفس ۔ کیا اس ٹیکس کہ عوض جو کہ ایک سڑک پر سونے والے اور جھونپڑی والے سے بھی لیا جا رہا ہے کیا ان کو سستی روٹی ، پہننے کو کپڑے اور سر ڈھانپنے کے لیے مکان یا چھت مہیا کی ہے۔ کیا اس ٹیکس کے عوض مفت معیاری تعلیم مہیا کی جا رہی ہے ۔ کیا ایسے ماڈل تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں جہاں سے بچے نکل کر ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں۔ کیا اس ٹیکس سے ایسے طبی ادارے قائم کیے جہاں سے عام لوگوں کو صحت وتندرستی کی تمام سہولیات مہیا کی جا رہی ہوں ۔ کیا اس ٹیکس سے ایسے ادارے قائم کیے جو لوگوں کی عزت و آبرو کے تحفظ کا کام کرتے ہوں۔ جب ایسا کچھ بھی نہیں تو ٹیکس یا یہ معاوضہ کس بات کا ۔ فرض کریں ہم میں سے کوئی بازار سے ایک جوسر مشین لے کر آتا ہے جب اسے گھر میں لا کر چلایا جاتا ہے تو وہ کام نہیں کرتی تو ہم اسی وقت دوکاندار کے پاس جاتے ہیں کہ بھیا اپنی مشین پاس رکھو یہ چلتی نہیں ہمارے کس کام کی۔
بنیادی سماجی اصول
ووٹ کسی بھی معاشرے میں اظہار رائے ایک بنیادی اہمیت کا حامل حق ہے۔ موجودہ عہد کے سیاسی معاملات میں آزاد اور خودمختار ووٹ جمہوریت کی بنیاد ہے اور اظہار رائے کا ذریعہ بھی۔جب انسانی ووٹ حقیقت اور انسانیت کی عکاسی کرتا ہے تو وہ جمہوری ووٹ ہےاگر ووٹ حقائق کو نظرانداز کرکےکسی کے کہنے پر خوفزدہ ہوکر یا عقیدت عصبیت اور جارحیت یا لالچ کی ؤجہ سے دیا جائے تو وہ جمہوریت کی نہیں آمریت کی عکاسی کرے گا۔ اس سے جمہوریت کی بجائے آمریت کی نشوونما ہو گی اور معاشرے کے اندر تشدد جبر اور تسلط بڑھتا چلا جائے گا اور معاشرہ زوال پذیر ہو گا۔ اس قسم کے ووٹ کو یونی پولر وہ کہتے ہیں۔ اظہار رائے آج کل پاکستان میں جس قسم کی جمہوریت رائج ہے اس میں آپ کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ آپ الیکشن میں حصہ لینے والے چند امیدواروں میں سے ایک نمائندہ چن لیں۔ اگر الیکشن میں کھڑا ہونے والے تمام امیدوار آپ کو پسند نہیں ہیں تو آپ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کر سکتے اگر آپ نے کسی کو بھی ووٹ نہیں دینا تو آپ ووٹ نہ دیں اور الیکشن میں حصہ نہ لینے کے باعث اس پورے سسٹم سے باہر ہو جائیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنا ووٹ دینے میں تھوڑی سی ازادی رکھتے ہیں لیکن مکمل آزادی نہیں رکھتے۔ اس کو ہم بائی پولر سسٹم کہہ سکتے ہیں لیکن آپ کے ووٹ کو آزادی اس وقت ملے گی جب آپ کو اس بات کی اجازت ہو کہ آپ کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دے کر پورے سسٹم کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔یورپ کے زیادہ تر ملکوں میں اس قسم کا نظام رائج ہے بلکہ وہاں پر تو اس بات کی بھی اجازت ہے کہ اگر آپ ایک امیدوار کو پسند نہیں کرتے تو اس کے خلاف بھی ووٹ دے سکتے ہیں۔ یعنی آپ جب کسی بھی سیاسی یا سماجی میں معاملے میں اتفاق اختلاف اور سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہوں تو اظہار رائے کا یہ طریقہ کار ٹرائی پولر سمجھا جاتا گا ۔جمہوری ووٹ یا ٹرائی پالر ووٹ ہر طرح سے آزاد ہوتا ہے اور یہی ووٹ جمہوری یا وزڈم ووٹ کہلائے گا۔ پیمانہ یکجہتی رائے جب ہم کسی بھی معاملے کے بارے میں سوچتے ہیں تو اچانک نتیجے پر نہیں پہنچ جاتے پہلے ہم اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتے ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ ہمیں کون کون اوپشن یا ترجیحات میسر ہیں یا کون کون سے طریقہ کار اختیار کر کے ہم اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں ۔ ان ترجیحات پر غور کرتے ہیں یہ سوچتے ہیں اگر ایسا کیا جائے تو اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے اس کے بعد ہم ایک اپنا عارضی فیصلہ کرتے ہیں اور اس کے نتائج کو پرکھ کر ایک شعوری فیصلے تک پہنچتے ہیں۔لیکن جب ہم ووٹ ڈالتے ہیں تو ہمارے پاس اس ایک شخص کو ووٹ دینے یا نہ دینے کی آپشن موجود ہوتی ہے۔یعنی ہم ایک شخص کو یا تو اچھا سمجھ لیں اور اس کو ووٹ دے دیں یا برا سمجھ لیں اور اس کو ووٹ نہ دیں حالانکہ ہم تمام امیدواروں کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ہمارا ووٹ مکمل طور پر آزاد اس وقت ہوگا جب ہم اس بات کا فیصلہ کرنے کے قابل ہو جائیں کہ ایک شخص اچھا ہے دوسرا اس سے بہتر ہے لیکن تیسرا بہترین ہے اور ہم تینوں کو اپنے ووٹ کا کچھ حصہ ڈالیں دنیا کے بہت سارے ملکوں میں اس بات کی اجازت ہے کہ ووٹر چند امیدواروں کو یا سب امیدواروں کو اپنی ترجیحات کے مطابق ووٹ ڈال سکیں اس طریقہ کار میں عام طور پر ووٹر اپنی پہلی دوسری تیسری چوتھی ترجیحات بتا دیتا ہے پاکستان میں بھی یہ طریقہ کار وکلاء تنظیموں کے اندر رائج ہے۔ ووٹر کو ترجیحات کی آپشن دینے سےووٹ مکمل طور پر آزاد اور جمہوری ہو جاتا ہے۔ اگر ہم سائنسی طریقہ کار کو اختیار کریں تو ہم اپنی رائے کا تجزیہ فیصد سکیل کے ذریعے کر سکتے ہیں بنیادی سوچ تا سمجھ 7 تا 50 فیصد رائے سمجھ تا تجویز 50 تا 54 فیصد رائے ایجنڈا 55 فیصد رائے یکجہتی تا تجرباتی فیصلہ63 تا70 فی صد رائے سائنسی تجربات اور تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ ہمیں کسی بھی معاملے میں سوچ وچار کرنے کے بعد اپنی رائے کو تعمیر کرنا چاہیے جب ہم 55فیصد رائے تعمیر کر لیں تو ہم اس کو تجویز یا ایجنڈا کی شکل میں دوسرے لوگوں کے سامنے رکھ سکتے ہیں اور ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے دوسرے لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہماری تجویز کے حق میں یا مخالفت میں اپنی رائے کا اظہار کریں اگر ہماری تجویز میں 51 فیصد کی رائے آتی ہے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ ہماری تجویز فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے بلکہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جب ساتھی ہماری تجویز کے حق میں 55 فیصد رائے دیں گے تو وہ قابل بحث تجویز ہوگی جب ہماری تجویز کے حق میں 63 فیصد لوگ ہوجائیں تو گروپ کے اندر ایک جہتی عام ہونا شروع ہو جائے گی تب ہماری تجویز فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔ اس سائنسی طریقہ کار اور تجزیہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں کسی تجویز کو بحث کے لیے ایجنڈے پر لانے کے لیے 55 فیصد رائے حاصل کرنی چاہیے اور 70 فیصد رائے پر فیصلہ کیا جانا چاہیے اس طریقہ کار کو اختیار کرنے سے گروپ کے اندر یکجہتی قائم رہے گی اگر تمام فیصلے دو تہائی یا زیادہ اکثریت سے کیے جائیں تو گروپ کے اندر کبھی بھی پھوٹ نہیں پڑے گی اور تمام لوگ خوش دلی سے ان فیصلوں کو نہ صرف قبول کرین گے بلکہ ان پر عمل بھی کریں گے ۔ اداراتی ملکیت ہمارے سماج میں دو طرح کی ملکیت پائی جاتی ہے ذاتی ملکیت اور ادارتی ملکیت۔ انسان کے کپڑے اور ذاتی استعمال کی چند ایک اشیاء ضروری ذاتی ملکیت میں آتی ہے۔ گھریلو سامان فرنیچر مکان گاڑی وغیرہ پورے خاندان کی ضرورت پوری کرتی ہیں اور انہیں کے زیر استعمال ہوتی ہیں
پاکستان کی اشرافیہ کا سیاسی و معاشی جبر
عوامی اتحاد پارٹی بنیادی طور پر پاکستان کی اشرافیہ کی سیاسی و معاشی جبر کے خلاف ایک قدرتی سماجی ابھارہے، سماجی بیداری ہے، قومی شعور ہے اور لا تعداد قابل توجہ سوالات کا ایک طبقاتی سلس ہم بطور ایک خود مختار اور ازاد پاکستانی 90 فیصد محنت کش عوام سمجھتے ہیں کہ جب ہم براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسز کا جو تقریبا ہماری ہوسٹ امدنی کا 70 فیصد زیادہ بنتا ہے تو ہمیں بطور شہری وہ تمام حقوق ملنی چاہیے جو ریاست نے اپنے 1973 کے ائین میں بڑے واضح انداز میں ضمانت کے طور پر درج کئے ہیں۔ جیسے کہ مفت اور معیاری تعلیم اور صحت ارٹیکل 25 میں، بلدیاتی اداروں کا مالیاتی انتظامی اور قانونی تحفظ ارٹیکل 140 اے میں، تمام سماجی اور اقتصادی تحفظ کو قائم رکھنے کے لیے ارٹیکل 38۔ اب جب ہم بطور ایک عام شہری اپنے گرد و نما میں دیکھتے ہیں تو ان درج شدہ کسی بھی ریاستی ضمانت پر اپنی روح کے ساتھ ریاستی ادارے عمل نہیں کر رہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ جو کچھ ہلکا پھلکا عوامی کام ہو رہا تھا اس کا بھی جڑ سے خاتمہ کیا جا رہا ہے اور تمام ریاستی اداروں کو نجی تحویل میں یا تو دیا جا چکا ہے یا عنقریب ان کا مکمل جنازہ نکال دیا جائے گا۔ ہم ایک سیاسی سوچ اور تحریک کے طور پر چونکہ ائین میں درج انتخابی سیاسی طریقے کار کے ہی قائل ہیں لہذا ہم اپنے انہی ائینی حقوق کے ساتھ پاکستانی عوام کے اندر بنیادی سوالات اٹھانے کے لیے طبقاتی شناخت جڑت اور جدوجہد کے ذریعے اپنی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اج 90 فیصد محنت کش پاکستانیوں سے یہ سوالات کر رہے ہیں کہ کیوں اج 77 سالوں بعد بھی پاکستان میں 60 فیصد سے زیادہ پاکستانی بے گھر ہیں ؟ کیوں اج تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں؟ کیوں اج 100 مریضوں میں سے صرف دس مریض ہسپتالوں میں اور باقی 90 مریض عطائیوں اور پیروں کے ہاتھوں اپنی جانیں گنوا رہے ہیں ؟ ان حالات میں یہ ایک بنیادی سماجی سوال تو ابھر کر دماغوں میں اتا ہے کہ اخر ہمارے جو حکمران طبقہ ہے ان کا کوئی بچہ سکولوں سے باہر ہے؟ ان کا کوئی پیارا لاعلاج موت کے منہ میں جا رہا ہے ؟ کیا ان کے پاس ملک کے اندر اور باہر بے شمار بنگلوں، زرعی و صنعتی سلطنتوں کے مالک نہیں ؟ ان حالات میں یہ سوال تو بنتا ہے کہ سو فیصد قومی دولت پیدا کرنے والا 90 فیصد محنت کش طبقہ جو خود غربت، جہالت اور غلاظت میں رہتے ہوئے بھی کسی معمولی سی ٹیکس چوری میں ملوث نہیں جبکہ یہی ہمارا حکمران طبقہ جو قومی دولت میں ایک روپیہ کا اضافہ تو نہیں کرتا الٹا وائٹ کالر جرائم کا بے تاج بادشاہ روزانہ اربوں کی وارداتیں کرتا ہے اور ہمارے تمام قومی اداروں کی پہلے مرحلے میں تباہی کرتا ہے اور پھر غیر محسوس طریقوں سے اپنے خفیہ شراکت داروں کے ہاتھوں کوڑیوں کے بھاؤ بیچ کر اپنے غیر ملکی اثاثوں میں لامحدود اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے۔ کیا وطن عزیز پاکستان اسی طبقاتی جبر و استحصال کے لیے بنایا گیا تھا ؟کیا وطن عزیز پاکستان اسی طرح آہستہ آہستہ اپنے اداروں کی تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ کر زمین دوز ہونے کے لیے آخری مراحل میں نہیں آ گیا ؟کیا ان مقامی معاشی ضرب کاروں کو ان کے بین الاقوامی معاشی ضرب کاروں کے ساتھ کھلم کھلا کھیل جاری رکھنے کی مزید آزادی دی جا سکتی ہے ؟کیا ان اشرافیائی خانوادوں کی موجودگی میں عام لوگوں کو بھی کبھی زندگی کی بنیادی سہولیات اور سماجی تحفظ حاصل ہو پائے گا ؟