آج مورخہ 21 جنوری 2025لاہور میں ایک تھانیدار ایک موٹر مکینک کے ہاتھوں قتل ہو گیا سوشل میڈیا پہ ملزم کا جو بیان وائرل ہوا کے مطابق تھانیدار ،،ماں بہن کی گندی گالیاں دیتا تھا لہذا طیش میں اسی کی سرکاری پستول سے تھانیدار کو قتل کر دیا۔ تفتیش کے بعد شایدکوئی اور بات سامنے آئے۔ وہ بھی اگر اس ملزم کو پولیس مقابلے میں نہ مار دیا گیا۔سوشل میڈیا پہ اس واقعے کو ہیرو ازم کی صورت پیش کیا جارہا ہے ۔
یہ حقیقت بہرحال دوستوں کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس انفرادی ری ایکشن سے اس ظالمانہ سسٹم کو کچھ فرق نھیں پڑے گا جو ایسے بھیڑیا نما افسروں کو عوام کو کنٹرول کرنے ،دبانے کچلنے کے لیے ٹرینڈ اور پیدا کرتاہے۔
یہ انفرادی ردعمل غصے کا غیر شعوری شاید غیر انقلابی اظہار ہے۔اس سے جبر کے نظام کو مزید تقویت اور بہادر مظلوموں ،غریبوں کو عبرت کا نشان بنایا جاتاہے۔
اس انفرادی ردعمل کو اجتماعی صورت دینے کی ضرورت ہے جو صرف اور صرف انقلابی خیالات سے ہی ممکن ہے۔ظلم سے نفرت کو انقلابی سیاسی دھارے میں بدلنے کی ضرورت ہے جو ظلم و ستم اور استحصال کی ہر شکل کا خاتمہ کردے۔سماج میں غصہ اور عدم برداشت اپنی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں جو تیزی سےانارکی کی طرف پیش قدمی کا واضح اظہار ہیں۔بھوک ننگ غربت بڑھتی مہنگائی مایوسی و بیروزگاری ،اور اظہار خیال پہ پابندیاں جلتی پہ تیل کا کام کررہی ہیں۔
انقلابی دانشور کارل مارکس نے سچ کہا تھا کہ سماج کے پاس دو ہی راستے ہیں سوشلزم یا انارکزم (تباہی) ۔پیدوار کا نراج اور پونجی اداروں کی آمریت(جبر) لوگوں کو ایسے ناگزیر نتائج والے تخریبی اسباب و کردار کی طرف دھکیلتا ہے۔جبکہ سوشلزم مظلوم طبقات کو ،محنت کشوں کو تعمیری و ترقی پسندانہ کردار کی ترغیب دیتا ہے۔انھیں طبقاتی بنیادوں پر منظم کرتا ہے ،ذرائع پیدوار کی ترقی کو سماجی ترقی سے ہم آہنگ کرتا ہے۔چند سرمایہ داروں کے انفرادی منافعوں کی بجائے کروڑوں انسانوں کی ضروریات زندگی اور اجتماعی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوے پالیسیوں کو پروان چڑھاتا ہے۔ہمارے جیسے پسماندہ ممالک میں محنت کش طبقے کی ترقی محنت کش طبقے کے اقتدار (سوشلزم)کے بغیر ممکن نھیں۔لہذا ایسی کاروائیاں سماج میں کوئی ترقی پسندانہ کردار ادا نہیں کرسکتیں ۔
کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی