تحریر: کامریڈ عرفان علی
سرمایہ دارانہ نظام میں اشرافیہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی کس قدر مہارت رکھتی ہے اس کو سمجھنے کے لیے پنجاب کالج میں طالبہ ریپ کیس کافی ہے۔کہ کیسے اس واقعے کو چھپانے ،دھندلانے،حقائق کو جھٹلانے کی کوشش کی گیئ۔چند دن مکمل خاموشی کے بعد جب کالج فیلوز کا پیمانہ صبر لبریز ہوا تو انھوں نے احتجاج کی راہ اپنائی جس پہ کالج انتظامیہ اور پولیس ٹوٹ پڑی اور حیران کن ردعمل دیا۔اس وحشیانہ ردعمل نے بچوں کے غصے کو مزید بڑھایا اور اس ریپ کیس کو زمانے پہ آشکار کردیا۔،،یعنی مٹی پاؤ پروگرام کا ستیاناس کردیا،،۔
اب پنجاب گورنمنٹ سمیت ،پنجاب پولیس اور کن ٹٹے خم ٹھونک کر میدان میں مجرموں کو بچانے میدان میں ایسے اترے کہ تمام اخلاقی ،قانوںی حدیں پار کرگئے ۔سب طبقاتی جذبے سے ایک دوسرے کی ڈھال بننا شروع ہوے۔
پولیس کی معیت میں لڑکی کے والدین کو پبلک بیان کے لیے دو دن پہلے سوشل میڈیا پہ لا کر یہ بیان دلوایا کہ یہ تو واقعہ جھوٹ کا پلندہ ہے بچی تو گھر میں سیڑھیوں سے گر کر زخمی ہوئی ہے۔پھر کل یہ بیان آیا کہ بچی بیڈ سے گر کر زخمی ہوئی ہے یہ بیان آج کے اخبار میں بھی چھپا ہے۔ایک پولس بیان احتجاج سے ایک دن پہلے لاہور گلبرگ میں ملزم چوکیدار کی گرفتاری کا بھی آیا ،تیسرا پولیس بیان سرگودھا تھانے میں ایک ملزم کی گرفتاری کا آیا ۔سوال یہ کہ یہ سارے مختلف بیانات سرکاری ہرکاروں اور کالج انتظامیہ کی بوکھلاہٹ کا ثبوت،اور اعتراف جرم نھیں ہے کیا؟کیونکہ ملزم بااثر ہیں اس لیے ان کی عزت بچانا ضروری ہے۔
آج مورخہ 16 اکتوبر 2024کے اخبار کے مطابق پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں جب رانا شہباز نے کہا کہ پنجاب کالج واقعے کی رپورٹ پیش کی جائے تو نون لیگ کی عظمیٰ بخآری نے کہا کہ والدین نے کہا ہے کہ کوئی واقعہ نھیں ہوا جس پہ تلخ کلامی بھی ہوئی ۔
اس کیس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس جرم کو ایک چوکیدار پہ ڈالنے کی کوشش کی گیئ تا کہ بڑے مگر مچھ کو بچایا جا سکے۔اگر یہ جرم کسی چوکیدار یا چھوٹے ملازم سے سرزد ہوا ہوتا تو کالج انتظامیہ نے اس کی ایسی کی تیسی کر کے نمبر بنانے اور اسے عبرت کا نشان بنا کر نیک نامی حاصل کرنے کی کوشش کرناتھی۔اور کسی صورت ایک معمولی ملازم کے لیے اس طرح کا رسک نھیں لینا تھا ۔یہ کاروائی کسی بڑے مگر مچھ کی ہے ۔
وزیر اعلیٰ مریم نواز صاحبہ بچی کے والدین سے کیوں نھیں ملیں؟ساری نون لیگ اور سرکاری کرتا دھرتا پنجاب کالج کی حمایت میں سینہ ٹھوک کے کیوں اترے ہیں۔طلبا و طالبات کے ساتھ کیوں کھڑے نھیں ہوے؟قانونی تقاضے پورے کیوں نھیں کیے گیے؟ازادانہ انکوائری کیوں نھیں ہونے دی گیئ؟
میڈیا میں اپنی مرضی سے کیس کو توڑا مروڑا جا رہا ہے۔الٹا عدالت کا سہارا لینے جارہے ہیں ۔اگر تم سچے ہو تو متاثرہ خاندان کو اغوا کی صورت عوام سے چھپایا کیوں جارہا ہے؟میڈیا کو کیوں رسائی نھیں دی جارہی ؟کیا پولیس کا کام میڈیا رپورٹنگ رہ گیا ہے؟ کیا پولیس کا کام ملزمان کو بیگناہ ثابت کرنے کے لیے ویڈیوز پیغامات جاری کرنا رہ گیا ہے۔جو پولیس کی افسر اچھرہ واقعے سے شہرت پانے والی افسر کے ذریعے بھی کروایا گیا تاکہ عوام میں اشتعال نہ پھیلے۔
جس برے طریقے سے احتجاجی طلبہ و طالبات کو مارا گیا ہے یہ بھی ایک ثبوت ہے اندھیر نگری کا۔کہ بچوں کو تشدد اور تادیبی کارروائیوں سے نشان عبرت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ایک اچھا اشارہ یہ ہے کہ جب سماج خصوصاً پنجاب بزدلی کا سمبل بنتا جارہا تھا،جب موقع پرستی حق گوئی پہ غالب تھی،جب بڑے بزرگوں کو آواز اٹھانے کی توفیق نہ ہورہی تھی ایسے میں نوجوان اٹھے ہیں جنھوں نے انسانیت کا بھرم رکھا ہے۔پنجاب کے مختلف اداروں میں اس ظلم کے خلاف آواز بلند ہوئ ہے اور وہ دبنگ آواز طلباء کی ہے۔جسے جھوٹ کی یلغار اور عہدے ،اقتدار اور دولت و طبقاتی قوت کے زور پہ دبانے کی ناپاک کوششیں جاری ہیں۔مگر پنجاب کالج کے طلباء جس بہادری کا مظاہرہ کر چکے ہیں وہ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔اب بڑوں کا بھی فرض ہے کہ وہ طلباء کا ساتھ دیں انھیں تادیبی کاروائیوں اور جبر سے ٹوٹنے نہ دیا جائے انھیں تنہا نہ چھوڑا جائے۔یہ ڈیمانڈ بھی کی جاے کہ اس وقوعے کی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پہ مشتمل کمیشن سے انکوائری کروائی جائے ۔ویسے تو یہاں حمودالرحمن کمیشن سے لیکر،فنانس کارپوریشن اور پتہ نھیں کیا کیا ان انکوائریوں کے دامن میں پڑا ہے مگر چلو ایک کیس اور سہی۔
اس وقوعے کے ذمہ دار بیشک قانون سے بچ جایئں گے مگر عوام کی عدالت میں وہ مجرم ثابت ہو چکے ہیں۔جب بھی عوام کے پاس قوت ہوگی اختیار ہوگا تو وہ ضرور انصاف کریں گے اور وہی انصاف انصاف ہوگا جس میں فیصلہ عوام کے ہاتھوں ہوگا۔اس کیس نے اس نظام کے سبھی کل پرزوں کو ننگا کرکے رکھ دیا ہے۔اور یہ ہر پل ہر روز ننگے اور کمزور ہوتے جایئں گے جب عوام مضبوط سے مضبوط ہونگے
،،گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نھیں،،(فیض)
کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی