تحریر: کامریڈ عرفان علی

ابھی کل روا داری مارچ پہ سندھ پولیس کا بہیمانہ تشدد فیس بُک پہ رپورٹ ہورہا تھا جو الیکٹرانک میڈیا پہ ندارد رہا اور آج پنجاب کالج میں طلباء و طالبات جو ایک طالبہ کے ریپ کے خلاف احتجاج کررہے تھے ان پر جو شرمناک تشدد کیا گیا اسے بھی کسی چینل نے کوئی خاص اہمیت نھیں دی۔

آج پنجاب کالج کے سیکیورٹی سٹاف(پرائیویٹ غنڈوں ) نےجس بری طرح بچوں کو مارا اور پھر پولیس کا خوفناک رویہ جس کی مہذب دنیا میں کوئی مثال نھیں ملتی وہ دیکھنے کو ملا۔بچوں کو دھمکایا جارہاہے ،پرچے کیے جارہے ہیں۔

یہ ایک ایسا خود رو احتجاج ہے جو بچوں نے اجتماعی رد عمل کی صورت دیا ہے وہ سماج و سسٹم کے ٹھیکے داروں سے برداشت نھیں ہورہا۔اس ام الجرائم سسٹم کے سبھی رکھوالے اپنی خونخوار و وحشیانہ قوت ان بچوں کو چپ کرانے ،ڈرانے لگی ہوئی ہے۔جب کہ ابھی تک کسی بڑی سیاسی جماعت یا سوسائٹی کے کسی بڑے حصے کی طرف سے ردعمل نھیں آیا ۔ابھی تک وزیر اعلیٰ کے نوٹس لینے یا کسی اور بااختیار ادارے کی طرف سے کوئ توجہ ظاہر نھیں ہوئ۔ابھی تک چادر اور چار دیواری کے تقدس اور حیا ڈے منانے والے بھی خاموش ہیں۔

بلاشبہ ہمارا معاشرہ ایک جنگل کا روپ دھار چکا ہے جہاں ہر لمحہ ہر جگہ طاقتور کمزوروں کو درندگی کا نشانہ بناتے ہیں۔

پہلے عوام کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غیر سیاسی بنایا گیاہے،بےشعور بنایا ہے ،انھیں ایک بھیڑ کی صورت دی،پھر خوفناک تشدد کہ جو زبان بولے گی کاٹ دی جاے گی جو ہاتھ علم بغاوت بلند کرے کاٹ دیا جاے گا۔

اس تمام جبر و تشدد کے باوجود ظلم کے خلاف آواز اٹھنا ایک فطری عمل ہے جسے روکا نھیں جا سکتا ۔

ہم پنجاب کالج میں ہونے والے واقعات کی مذمّت کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نظام ہی ظالمانہ ہے۔اس نظام کی موجودگی میں ظلم و استحصال ختم نھیں ہو سکتا ۔اس نظام کے کسی ایک شاخ کسی ایک واقعہ کو الگ تھلگ کر کے نھیں دیکھا جا سکتا ۔اس نظام کو مکمل طور پہ ختم کرنا پڑے گا۔تعلیم و صحت کا پرائیویٹ ہاتھوں میں منافع کی صورت رہنا ،پرایویٹ بنکوں ،ملوں،جاگیروں کے خاتمے کی ضرورت ہے۔جب تک طاقت کا توازن نھیں ہو گا سوسائٹی میں اون نیچ رہے گی تو ظلم اور استحصال بھی رہے گا۔

لہذا ایک ایسی انقلابی سیاسی جدوجھد کی ضرورت ہے جو اس استحصالی نظام کا خاتمہ کرتے ہوے ایک منصفانہ سماجی و سیاسی نظام قائم کرے جسے سوشلزم بولتے ہیں جہاں تمام وسائل و ادارے ریاستی ملکیت میں ہوں اور ریاست محنت کشوں کے اجتماعی کنٹرول میں ہو۔جہاں تعلیم ،علاج،روزگار،ریہائش و تفریح مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہو۔جہاں طبقاتی جبر،نسلی،صوبائ،لسانی،و صنفی بنیاد پہ تعصبات وامتیازات کا خاتمہ ہو۔

کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے