کیا چین ایک سامراجی ملک ہے؟

           آج کل کچھ دانشور اٹھتے بیٹھتے ،سوتے جاگتے ایک ہی ورد کرتے ہیں کہ ہآااااااہ چین میں سرمایہ دارانہ نظام عود آیا ہے بعض تو کہتے ہیں چین میں کبھی سوشلزم قائم ہی نھیں ہو سکا ۔الغرض جتنے منہ اتنی باتیں!

اب چینی کمیونسٹ پارٹی کو کون بتائے کہ پاکستانی کمیونسٹوں کے پاس چین کی رہنمائی کے لیےنادر نسخے و نقش موجود ہیں! مگر حیرت ہے کہ وہ ہمارے سرخ تعویذوں سے فائدہ ہی نھیں اٹھا رہے۔ہمارے سرخ علم کے ماہر جادوگروں کو کوئی گھاس ہی نھیں ڈال رہے ۔

    اگر ہم اس صورت حال کا بغور جائزہ لیں توایک تلخ حقیقت یہ بھی نظر آتی ہے کہ سرمایہ داری نظام و سامراج کی خدمت اس طرح بھی کی جاتی ہے کہ لوگوں سے امید چھین لو۔ثابت کرو کہ دنیا میں ہر طرف ظلم ہی ظلم ہے استحصال ہی استحصال ہے۔مثال کے طور پہ دور کی کوڑی لاؤ کہ چین میں ریاستی سرمایہ داری نظام رائج ہے ساتھ ہی یہ بھی بتاؤ کہ چین میں جمہوری آزادیاں نھیں ہیں،ٹریڈ یونینز نھیں ہیں،بے بس محنت کشوں کو کوئ حقوق حاصل نھیں ہیں،تنخواہیں بہت کم ہیں،جھوٹ بولو کہ چین میں صرف کیمونسٹ پارٹی ہے اور اس کے علاؤہ کوئی پارٹی سیاست میں حصہ نھیں لے سکتی،سرمایہ داروں کی جنت ہے چین جہاں بلینرز بستے ہیں،لوگوں کو یہ باور کرواؤ بلکہ یقین دلاؤ کہ امریکہ یورپ سے لیکرچین تک سب ایک ہیں ،سب سامراجی ہیں ۔بلکہ امریکہ یورپ کو بھی کسی حد تک معافی مل سکتی ہے مگر چین، چین کو پکڑو بچنے نہ پاے۔ماوزے تنگ کی دانش کا قائدانہ صلاحیتوں کا تجزیہ نھیں بلکہ اس کے افکار و شخصیت کا پوسٹ مارٹم کرو ،مذاق اڑاؤ ،ایڑی چوٹی کا زور لگا دو یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ماؤ ایک موقع پرست و بیکار لیڈر تھا جس نے چین میں ایک ایسا انقلاب برپا کرتے عوام کی قیادت کی جنھیں بیوقوف چینی آج بھی اتنا احترام دیتے ہیں اور فخر کرتے ہیں آؤ ان چینیوں کو سمجھائیں کے تمہارے لیڈر کل بھی غلط تھے اور آج بھی غلط ہیں۔کیونکہ وہ پاکستانی لال بجھکڑوں سے مشورہ ہی نھیں لیتے!وہ دانائے دنیا جو کہتے ہیں

کہ چینی نظام میں اچھائیوں کو چھوڑو خورد بین لگا کر ڈھونڈ ڈھونڈ کے ان کی کمزوریاں سامنے لاو کوئ ایئڈل کوئی رول ماڈل ،کوئ اچیومنٹ،کوئ کامیابی بھلے وہ چھوٹی ہو یا بڑی اسے اگنور کرو،ناکامیاں اور اندھیرا ہی اندھیرا دیکھاؤ یہاں اس کام پہ معمور ہیں کچھ نام نہاد انقلابی اور اپنے آپ کو ترقی پسند کہنے والے لبرلز ،ٹراٹسکایئٹس و سٹالنسٹس جو آپ کو محنت کشوں کی صفوں سے کہیں دور سوشل میڈیا پہ صاف ستھری متنازع دانش بگھارتے عام ملیں گے۔جنہیں محنت کش طبقے کے مصائب و آلام کی بجائے فکری مبالغہ آرائ کےدنگل جیتنے سےدلچسپی ہوتی ہے۔انھیں کیا لگے یہاں بجلی کے بلز اور عوامی مسائل کیسے محنت کشوں پہ نت نیئ قیامت ڈھاتے ہیں،آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی پالیسیوں کو ظالمانہ انداز میں نافذ کرتے ہوئے حکمران ٹولا کیسے اپنے کمیشن و حصہ پتی وصول کرنے کے لیے عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں۔

جن کو فلسطین کی تباہی سمیت دنیا بھر میں دندناتا ہوا امریکی سامراج تو سامراج نظر نھیں آتا لیکن چین انھیں ہر پل سامراج دیکھائی دیتا ہے۔ان کی نیندیں آڑی ہوئ ہیں کہ ہآااااااہ چین سامراج ہوگیا ۔چین میں سرمایہ دارانہ جبر انھیں ستاتا ہے۔انھیں ایک پسماندہ قوم کو ترقی کی راہ پہ ڈالنے والی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت دیکھائی نھیں دیتی ایک ارب تیس کروڑ والے ملک سے بھکاریوں کا خاتمہ ،عورتوں کے استحصال کا خاتمہ نظر نھیں آتا ،بیروزگاری،لاعلاجی،بے گھری سے نجات نظر نھیں آتی،سرمایہ داری نے جو ترقی صدیوں میں کی وہ ترقی دھائیوں میں کرنے والے چین کا کوئی کمال نظر نھیں آتا نظر آتا ہے تو چین سامراج کے روپ میں نظر آتا ہے۔،،بندہ پچھے عقل دے انھیںو چین نے کیہڑے ملک تے جنگ لائی اے ؟کتھے جنگاں لوا کے اسلحہ ویچیا اے؟کس ملک تے پابندیاں لایئاں نے؟کس ملک دے بجٹ ڈکٹیٹ کر کے بنواے نے؟کیہڑے ملک دی صنعت نوں روکیا اے ؟سامراج تے امبر ولاں وانگوں کجھ وی پھٹن نھیں دیندا،چین نے کیہڑی پالیسی دتی اے وئی تسی اپنی خودمختاری چھڈو؟تسی اپنے حاکماں دیاں بیہودگیاں روکو بجاے ایس دے کہ چین نوں ذمے دار ٹھہراؤ،، ۔مانا چین میں سب ٹھیک نھیں مگر سب خراب بھی نھیں ہے لہذا ہوش کے ناخن لو۔

محنت کش طبقے کی مدد نھیں کرسکتے ،انھیں امید و سہارا نھیں دے سکتے ،انھیں منظم ہونے میں مدد نھیں دے سکتے تو کم از کم انھیں مایوسی کے اندھیروں میں مت دھکیلو ۔سامراج کے ماوتھ پیس تو نہ بنو!لوگ تب ہی لڑتے ہیں جب انھیں جیتنے کی امید ہو،کوئ رول ماڈل ہو۔چینیوں نے معجزہ نما ترقی کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر میں جٹے ہوے ہیں۔اور اس میں وہ بلاشبہ کامیاب ہوں گے۔ہمیں ان سے زیادہ اپنی فکر کرنی چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے اور چین سے سیکھنا چاہیے ۔چینی ماڈل کو چھومنتر کے ذریعے یہاں فٹ نھیں کیا جاسکتا مگر اس سے بہت بہت سیکھا جا سکتا ہے۔انقلاب زندہ باد ۔

دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!

کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے