تحریر: کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی
سرمایہ دارانہ نظامِ میں سرمایہ داروں کے پاس تقریباً سب کچھ اور محنت کشوں کے پاس تقریباً کچھ نھیں ہوتا۔گھر، گاڑی تعلیم علاج معاشرے میں جئے جئے کار یہ سب زرداروں کی رسائی بلکہ اجارہ داری میں ہوتا ہے۔زردار مصیبت زدہ علاقوں کو پل بھر میں چھوڑ سکتے ہیں ،دوسرے ممالک جا سکتے ہیں جب کے محنت کشوں کا مقدر وہیں مصیبت و ابتلا گھرے رہ کرمرنا ہے۔محنت کش کودو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوتے ہیں وہ دیگر حفاظتی لوازمات کہاں سے پورے کرے۔
ابھی آپ اس سموگ کو دیکھیں اس صورت احوال کی بڑی ذمہ داری بہرحال طبقہ اشرافیہ پہ بنتی ہے مگر اس سےمتاثر کروڑوں غریب ہوتے ہیں ۔سموگ و زہریلی ہوا سے بچنے کے لیے امراء اپنے گھروں میں چار چھ ہفتے بند ہو کر گزار سکتے ہیں،بیرون ممالک جا سکتے ہیں جیسے ہماری وزیر اعلیٰ اور سابق وزیر اعظم غیر ملکی دورے پہ ہیں۔بہت سے ریٹائرڈ آفیسرز یورپ میں ہی سیٹل ہو جاتے ہیں کیونکہ اس ملک کو تو اس قابل چھوڑا نھیں کہ یہاں مستقل سکونت اختیار کی جاسکے۔اور جس پیڑھی نے اس ملک کے خزانوں پہ ابھی مزید ہاتھ صاف کرنے ہیں اور یہاں کہ محنت کشوں کی محنت کو لوٹنا ہے حکمرانی و عیش کے مزے لوٹنے ہیں وہ گھروں میں ایئر کلینر ٹائپ ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں جب کہ غریب مر رہے ہیں۔یہ طبقاتی نظام ہے جو کچھ لوگوں کو جدید ترین آسائشیں،سہولیات و ٹیکنالوجی تک رسائی دیتا ہے اور کروڑوں انسانوں کو ان نعمتوں سے محروم رکھتا ہے،وہ کیا ایئر کلینر لے جس کا گھر ہی نھیں گھر ہے تو کھڑکیاں دروازے نھیں ۔کھڑکیاں دروازے ہوں تو جیب اجازت نہیں دیتی کہ روزگار نھیں ہے۔ایک تو تنگدستی ہے اوپر سے کم علمی ۔لہذا اس نظام کی جگہ ایک منصفانہ ،ایک منصوبہ بند معیشت پہ بنیاد رکھنے والا نظام چاہیے جو خلق خدا کو بلا تفریق ڈیلیور کرے۔اور اس اس نظام کو اشتراکیت (سوشلزم) کہتے ہیں۔یعنی تمام وسائل و ذرائع پیداوار ریاست کی ملکیت اور ریاست محنت کش عوام کے کنٹرول میں ہو۔ہر بالغ و صحت مندشخص اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرے اور کام کے مطابق معاوضہ لے جب کہ تعلیم ،ریہائش،علاج،روزگار ریاست کی اولیں ذمہ داری ہو گی ۔