تحریر: کامریڈ عرفان علی

بہ زور بندوق سیاسی ایجنڈا کی تکمیل کے لیے ،پرامن شہریوں پہ خودکش حملے کرنےوالے ،رجعت پسندوں،اقتدار پہ قبضے کی شدید خواہش لیے پرتشدد و دہشتگردانہ کارروائیاں کرنے والے طالبانوں کیلیے ،،فتنہ الخوارج،،کی اصطلاح استعمال کر کے کنفیوژن پھیلائی جارہی ہے یوں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کیا ضرورت ہے؟لوگوں کو کیوں نھیں بتایا جارہا ہے کہ یہ سارا کیا دھرا کن پالیسیوں کا نتیجہ ہے؟۔ذمہ داران کون کون ہیں؟،کیاکیا مقاصد تھے جن کے پورا کرنے کو یہ لازم تھا کہ یہ دہشت گردی،فرقہ واریت کی فصل کاشت کی جاۓ؟یہ سٹریٹیجک اثاثے کب تک محفوظ رکھتے ہوے بڑھاے جایئں گے؟کیا بین القوامی ضرورتیں تھیں کیا مقامی حالات کے تقاضے ہیں جن کی بنا پہ انھیں ہر بارصرف کانٹ چھانٹ کر کے محفوظ رکھ لیا جاتا ہے؟

یہ آپریشن نما عارضی کاروائیاں یعنی ،،ڈنگ ٹپاؤ ،،پالیسی اپنانے سے حالات مزید الجھیں گے۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہماری مقتدرہ ابھی بھی انھیں جڑ سے اکھاڑنا نھیں چاہتی،ان کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے مگر ان کا مکمل خاتمہ شاید نھیں چاہتی۔

جب کہ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے خلاف منظم بھرپور جدوجھد کی جاے ایسی جدوجھد جس میں عوام کو بھی ان کے کرتوتوں کے خلاف آگاہی دیتے ہوے منظم کیا جائے ۔لیکن یہ رجعتی تو عوام کے خلاف مقتدرہ کے پرانے اتحادی ہیں۔ان کے لیے نرم گوشے کہاں کہاں پاے جاتے ہیں یہ ایک غور طلب سوال ہے۔مگر حالات کا ضروری تقاضا بن چکا ہے کہ ان کو مکمل طور پہ ختم کیا جائے۔،،گڈ اور بیڈ ،،کی نظر سے دیکھنا بند کیا جاے۔انھیں بھی ریاست مخالف سمجھ کر کاروائی کی جائے ،نصاب اور میڈیا میں انھیں قاتل و باطل ثابت کیا جاے جو کہ یہ ہیں۔اداروں میں بیٹھے ان کے ہمدرد اداروں سے فارغ کرتے ہوئے پابند سلاسل کیے جایئں۔ان کے فنڈز کے سورس بند کیے جایئں ۔ہمارے تعلیمی اداروں کو رجعت پرستوں کی آماجگاہ کی بجائے تعلیمی ادارے بنایا جاے،سایئنسی تعلیم کو فروغ دیا جاے،مذہب و فرقہ کے نام پہ سیاست ختم کی جائے۔آیئن و قانون سے متعصب شقوں کا خاتمہ کیا جاے،ریاست کو صحیح معنوں میں جمہوری و سیکیولر ریاست بنایا جائے۔اگر یہ سب نھیں ہوتا تو پھر یہاں نہ تو سرمایہ کاری آے گی،نہ کارخانے چلیں گےنہ روزگار ہوگا،نہ ترقی نہ ترقی پسندی ہوگی۔بس وحشت ہوگی،بیروزگاری محتاجی و غربت ہو گی جو بس بڑھتی جاۓ گی۔اور آپ ساری توانائیاں امن و امان قائم رکھنے کے نام پہ ضائع کرتے رہے گے۔اندرون ملک سے لیکر دنیا بھر سے بھیک مانگتے پھریں گے،قرض مانگتے پھریں اور عالمی قوتوں کی کاسہ لیسی پہ مجبور ہوں گے۔جس سے اشرافیہ تو شاید مستفید ہوتی رہے گی مگر عوام ظلم و استحصال کی چکی میں پستے رہے ہیں دہشت گردوں کا شکار بنتے رہیں گے۔

کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے