تحریر: کامریڈ عرفان علی

   امریکہ و اسرائیل نے ویسے تو دنیا بھرکے عوام کو مگر خصوصاً مسلم ممالک کے عوام کو ڈس انفارمیشن کے جال میں اسی طرح پھنسا رکھا ہے جس طرح مسلم ممالک کی معیشت و سیاست کو۔

ابھی تازہ ترین کاروائیوں میں شام کی صورتحال اس کی ایک زندہ مثال ہے۔کہ اسرائیل نے فلسطین کی حمایتی شامی بشار الاسد کی حکومت کو گرایا،شام کی فوجی قوت کو تباہ کیا،شامی سماج میں انارکی پیدا کی اور ہمارے دائیں بازو کے دانشور و مذہبی رجیم کی اکثریت خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں ،،ہا ہا بشار الاسد کی آمریت تمام ہوئی اسی طرح جس طرح کل صدام حسین و قذافی حکومتوں کے خاتمے پہ بغلیں بجا رہے تھے،،۔

    جب کہ حقیقت میں فلسطینی کاز،فلسطین کی آزادی کی جدوجھد تاریخ میں اتنی کبھی کمزور نھیں ہوئی جس قدر آج ہوئی ہے۔حماس و حزب اللہ کو ایک طرح سے بے یارو مددگار کردیا گیاہے ۔ایران کا گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔دنیا کے کم و بیش 58 اسلامی ممالک منہ تک رہے ہیں۔مگر اسرائیل دندناتا پھر رہا ہے۔کسی مست ہاتھی کی طرح مظلوم فلسطینیوں و شامیوں کو روندتا جارہاہے ۔اور ہماری فرقہ پرست سوچ کہہ رہی ہے کہ چلو وہ تو شعیہ تھا وہ تو فلاں تھا ۔مسلمانوں کی طبقاتی تقسیم کے ساتھ ساتھ اس فرقہ وارانہ تقسیم،سایئنس و ٹیکنالوجی میں پسماندگی نے انھیں کہیں کا نھیں چھوڑا ۔اس ساری تباہی کےذمہ دار مسلم حکمران اور ان کے اتحادی مذہبی پیشوا و مذہبی سیاسی تنظیمیں ہیں۔دراصل وہ طبقہ ذمہ دار ہے جو اقتدار میں ہے جن کے مفادات کی سانجھ آمریکہ یورپ و اسرائیلی کمپنیوں سے ہے۔اور وہ قدر مشترک ہے سرمایہ داری نظام ۔ جو جو ملک بھی امریکی سامراج کے مخالف کیمپ میں تھوڑا سا ہوا یا سامراج مخالف پالیسی بنائی امریکی و اسرائیلی سامراج نے اس کے خلاف میڈیا کے طاقتور ہتھیار کو استعمال کیا،مسلمانوں سے ہی زرخرید مجاہدین کو خریدا ،فرقہ واریت کو ہوا دی اور مستحکم حکومتوں کو کمزور کیا اور خوفناک اٹیک کرتے ہوے پوری پوری سوسائٹی کو تباہ و برباد کردیا۔عراق افغانستان ،لیبیا،فلسطین کتنی لمبی لسٹ ہے امریکی و اسرائیلی بدمعاشیوں کی اور ان کے اتحادیوں کے مظالم کی ۔مگر ہمارے حکمران خصوصاً اور عوام عمومی طور پرابھی تک ان کی چالوں کو سمجھنے کے قابل نھیں ہو سکے۔

ضروری ہے کہ عوام کو سامراج مخالف بیانیہ تک محدود رکھنے کی بجائے حقیقی سامراج مخالف لڑائی و جدوجھد کے لیے تیار کیا جائے ۔جس کے لیے پھر لازم ہے کہ عوام کو انقلابی نظریات سے لیس کیا جاے،طبقاتی بنیادوں پہ منظم کیا جائے اور سامراج مخالف تحریک کو عالمی لیول پہ استوار کیا جاے۔جو اس وقت روس،چین،ایران ،شمالی کوریا وغیرہ کے مضبوط اتحاد سے ممکن ہے۔جو دانشور اس سادہ سی حقیقت کو سادگی سے سمجھنے کی بجائے خواہ مخواہ کی علمی موشگافیوں میں پڑکر لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں وہ بھی دراصل چاہتے یا نہ چاہتے ہوے سامراج کی ہی مدد کر رہے ہیں

کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے