تحریر: نادر علی شاہ

اگر ہم کسی بھی چیز کی اہمیت کے حوالے سے مشاہدہ کریں تو ایک بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ اس کائنات میں انسانی زندگی سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں۔ جس کا حوالہ قرآن مجید میں بھی اس مفہوم کے ساتھ ملتا ہے کہ جس نے ایک بے گناہ انسان کا قتل کیاگویا اس نے ساری انسانیت کا قتل کیا اور جس کسی نے ایک انسان کی زندگی بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کی زندگی بچائی ۔ انسانی زندگی کی اہمیت جاننے کے باوجود دنیا کے بہت بڑے بڑے تنازعات بھی کسی نہ کسی انسانی جان کے ضیاع کے بعد شروع ہوئے اور جس نے تاریخ کا مکمل طور پر رخ ہی بدل دیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ جن قوموں ، گروہوں ، قبیلوں اور خاندانوں نے درگزر کیا، انسانی جانوں کو اہم سمجھا انہوں نے انتقام کو دبایا اور اپنے تنازعات کے حل کی بات کی اور تاریخ نے ثابت کیا ایسے قبیلوں اور قوموں نے تعمیر وترقی اور خوشحالی کی دنیا میں مثالیں قائم کیں اور آج بھی ان کا دنیا میں طوطی بولتا ہے ۔ اب میں یہاں اپنے موقف کو تقویت دینے کے لیے کچھ مثالیں پیش کروں گا ۔ ہمارے قریبی گاؤں میں آج سے پچاس سال پہلے دو خاندانوں، جو کہ صاحب حیثیت جاگیر دار بھی تھے میں بچوں کی لڑائی سے شروع ہونے والا تنازع اس قدر شدید ہوا کہ ایک فریق کا ایک فرد لڑائی کے دوران جانبحق ہوگیا۔ مقتول فریق اب کہاں صبر اور برداشت کرنے والا تھا ان میں تو انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ اگلے ہی دن انہوں نے بھی مخالف فریق کا ایک فرد قتل کر دیا اور اس طرح دونوں خاندان پولیس اور عدالتی کارروائی سے بچنے کے لیے مفرور ہوگئے جس سے ان کی خواتین اور بچے رل گئے۔ زمینیں بنجر ہو گئیں اور مال مویشی کوڑی کے بھاؤ بک گئے ۔ تیس سال تک دونوں خاندان ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں ملوث رہے اور ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے۔ ایک خاندان کے آٹھ اور دوسرے کے دس افراد اس انتقامی آگ کا ایندھن بنے۔ اتنا جانی نقصان دیکھ کر ایک خاندان کے دل میں انسانی زندگی کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور انہوں نے دوسرے خاندان کو صلح کی پیشکش کی ۔ دوسرا خاندان بھی اتنی لمبی دشمنی اور جانی نقصان سے تھک چکا تھا لہذا انہوں نے بھی اس پیشکش کو قبول کرلیا ۔ یقین مانیے اب گزشتہ بیس سال سے دونوں خاندان خوشحال بھی ہو گئے ہیں ، ان کے بچے تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں اور ان کی زندگی میں سکون بھی آگیا ہے ۔

اب یہاں میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی مثال دوں گا۔ پہلی جنگ عظیم 1914 سے شروع ہو کر 1918 تک جاری رہی اور دوسری جنگ عظیم ستمبر 1939 سے شروع ہو کر ستمبر 1945 تک جاری رہی ۔ میں یہاں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا بس آپ کو اتنا بتا دوں کہ جنگ عظیم اول آسٹریا ہنگری کے تخت نشین ہونے والے شہزادے آرچ ڈیوک فرانز فرڈیننڈ کے قتل سے شروع ہو کر 2 کروڑ لوگوں کی اموات اور 2 کروڑ دس لاکھ کے شدید زخمی ہونے پر ختم ہوئی۔ اسی طرح جنگ عظیم دوم کے شروع ہونے میں بھی زیادہ تر وجوہات جنگ عظیم اول، ورسلز معاہدہ کی شرائط ، لیگز آف نیشنز کی ناکامی، معاشی معاملات اور ایڈولف ہٹلر تھا۔ جنگ عظیم دوم جرمنی کے پولینڈ پر حملے سے شروع ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا یورپ ، افریقہ ، مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ بھی اس میں شامل ہوگئے ۔ امریکہ پہلے پہل تو اتحادیوں کی بلا واسطہ فوجی امداد کر رہا تھا لیکن جاپانی ہوائی فورس کے امریکی ساحلی علاقے پرل ہاربر پر حملے کے بعد امریکہ بھی جنگ میں عملی طور پر 1941 میں شامل ہو گیا جس سے اتحادیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا ۔ جنگ عظیم دوم میں ایک طرف جرمنی، ترکی، اٹلی اور جاپان تھا تو دوسری طرف اتحادی جس میں انگلینڈ، فرانس، روس اور امریکہ شامل تھے ۔ جنگ عظیم دوم میں 7 کروڑ سے لیکر 8.5 کروڑ لوگوں کی اموات کا اندازہ لگایا جاتا ہے ۔ جنگ عظیم دوم کا خاتمہ ، جاپان کے دو شہروں ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹمی بم گرانے کے بعد ہوتا ہے۔ جرمنی، ترکی، اٹلی پہلے ہی شکست مان چکے تھے صرف جاپان اپنی شکست ماننے کو تیار نہیں تھا ۔ اس ایٹمی حملے کے بعد جاپان نے بھی اپنی شکست تسلیم کر لی ۔ اس قدر وسیع پیمانے پر انسانیت کے قتل، معاشی نقصانات ، انتقام اور نفرت سے بھرے ہوئے، اور ہر طرف پھیلی ہوئی مایوسی کے باوجود جیتنے والے بھی اور ہارنے والے بھی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اکٹھے بیٹھے اور تنازعات کے حل پر بات چیت شروع ہوئی ۔ انسانیت کی بقاء کی خاطر سب کچھ بھلا کر ، انتقام کی آگ کو بجھا کر اور ہاتھ سے ہاتھ ملا کر ، آگے بڑھنے کا اعادہ کیا گیا اور آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سب کچھ برباد ہونے کے باوجود انہوں نے دل صاف کیے اور مل کر کام کرنے کو ترجیح دی تو آج وہ قومیں ہر میدان میں کہاں سے کہاں پہنچ گئیں ۔ یہ مثالیں دے کر میں جس نقطہ پر آپ کو لانا چاہ رہا تھا وہ ہے پاک بھارت تنازعات ۔ ہماری تہذیب، تمدن ، نسل، رہن سہن ، رسم و رواج، سب مشترک ہے۔ صرف 1947 کا ایک واقعہ پیش آیا جس میں دو ملک علیحدہ علیحدہ شناخت کے ساتھ دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے اس کے نتیجے میں فسادات بھی ہوئے، قتل و غارتگری بھی ہوئی لیکن اس سب کے باوجود جانی و معاشی نقصان کی شرح وہ نہیں تھی جو جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم میں تھی۔ سوال یہ ہے کہ یورپ جنگ عظیم اول اور دوم میں کروڑوں انسانی جانوں کے ضیاع اور کھربوں کے معاشی نقصانات اور انفراسٹرکچر کی مکمل تباہی کے باوجود دوبارا سے یہ ممالک ترقی کی منازل طے کر سکتی ہیں اور اپنے لوگوں کی زندگی میں خوشحالی لا سکتے ہیں تو یہی سب کچھ پاکستان اور بھارت میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ شائد یورپ کے سیاستدانوں نے اپنی سیاسی بصیرت سے بھانپ لیا تھا کہ ہماری بقا اسی بات میں ہے کہ ہم باہمی اشتراک سے رہیں تو سب کا فائدہ ہے۔ اگر ہم نے اپنے لوگوں کو نفرت اور انتقام کے پیچھے لگا دیا تو پھر ہماری ریاستوں کا قائم رہنا بھی خطرے میں چلا جائے گا۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے دونوں ملکوں کے سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ عوام کے اذہان میں نفرت اور انتقام کو کم نہیں ہونے دیتے، شائد ان کو لگتا ہے جتنی ہم نفرت اور انتقام کو ہوا دیں گے اتنی ہماری سیاست چمکے گی اور اتنی ہی اسٹیبلشمنٹ کی عزت ہوگی ۔ اس کی تازہ ترین مثال کرکٹ کی ہے۔ انڈیا پاکستان میں آکر کرکٹ نہیں کھیلنا چاہتا اور ایسا صرف انڈین حکومتی پارٹی کی پاکستان مخالف ایجنڈے کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ دوسری طرف پاکستان بھی انڈیا میں ہونے والے کسی بھی ایونٹ میں شامل ہونے سے انکاری ہے ۔ ان سب نفرتوں کا سب سے زیادہ نقصان عام لوگوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ دونوں ملک اپنے بجٹ کا زیادہ تر حصہ اپنی سرحدوں کی حفاظت اور فوجی صلاحیتوں میں اضافے پر لگا دیتے ہیں جس پر عوام کی فلاح وبہبود کا زیادہ حق بنتا ہے ۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم بھی اوپر بیان کردہ خاندانوں کی طرح صلح صفائی سے رہیں اور پرانی نفرتوں سے درگزر کریں۔ کیا ہم یورپ کی طرح مذاکرات نہیں کر سکتے ؟ جس سے ہمیشہ کے لیے دونوں ملکوں میں امن و امان قائم ہو جائے اور دونوں

ملکوں کے لوگ آزادانہ ایک دوسرے کی طرف آ جا سکیں۔ ہمارے دونوں ملکوں کے سیاسی اکابرین کو فرسودہ سوچ سے پیچھا چھڑانا ہوگا، نفرت اور انتقام کے خاتمے کی سوچ کو پروان چڑھانا ہوگا اور آپس میں محبت ، امن اور باہمی تعاون کی فضا کو قائم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ ایسا کرنے سے دونوں ملکوں کا دفاع پر خرچ ہونے والا پیسا لوگوں کی فلاح وبہبود پر لگے گا جس سے عوام فلاح وبہبود کو فروغ ملے گا اور عوامی خوشحالی میں اضافہ ہوگا۔

آگے کسی کو تو آنا ہوگا

سب کو اکٹھے بٹھانا ہوگا

شعلہ جلاؤ گے تبھی تو

بجھے دئیے میں اجالا ہوگا

اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہمیں نفرتوں کو ختم کرنے والا اور محبت کا پیغام پھیلانے والا بنائے آمین یا رب العالمین ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے