تحریر ۔ نادر علی شاہ

پاکستان کے موجودہ حالات جو پچھلے پانچ سال سے چل رہے ہیں، جس میں سب سے سنجیدہ اور المناک حالت معیشت کی ہے اور کسی کی نہیں۔ گزشتہ حکومت نے انتخابات سے قبل عوام کو جو حسین خواب دیکھائے ان میں سے کسی کا بھی پورا نہ ہونا گزشتہ حکومت کی ناکامی اور نا اہلی میں شمار ہوتا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بلند وبالا دعوے کیے گئے اور لوگوں میں ایک امید پیدا کی گئی لیکن جب ان دعووں اور وعدوں کو پورا کرنے کا وقت آیا تو مختلف بہانوں سے اپنی کارکردگی پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوششیں کی گئیں۔2018 کے الیکشن کے بعد نئی آنے والی انتظامیہ انتہائی درجے کی لاپرواہ، نااہل، نا تجربہ کار اور ناکارہ ثابت ہوئی ۔

گزشتہ حکومت کی نااہلی اور بروقت فیصلے نہ لینے کی وجہ سے ملکی معاشی معاملات بد سے بدترین ہوتے چلے گئے ساتھ ہی ساتھ آئی ایم ایف سے معاہدے میں بھی دیر کر دی گئی جس سے ملکی معیشت کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی ہوئی اور سرمایہ کاری کو بھی دھچکا لگا۔ پاکستان کی اسٹاک ایکسچینج میں بھی مسلسل مندی کا رجحان شروع ہوگیا اور ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا جس سے مہنگائی میں ہوشربا اضافے کے ریکارڈ قائم ہو گئے۔ اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرنے لگیں ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بہت اضافہ دیکھنے کو ملا اور بجلی کی قیمتوں میں بھی آئے روز اضافہ ہونا شروع ہو گیا ۔ بجٹ خسارہ، بیرونی ادائیگیوں کو پورا کرنے کے لیے بے شمار ٹیکسز لگائے گئے دوسری طرف آئی ایم ایف بھی مہنگائی اور بڑھتے ہوئے ٹیکسوں کی بڑی وجہ تھا۔

ایک طرف مہنگائی نے لوگوں کا جینا مشکل کیا ہوا تھا تو دوسری طرف روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے، بلکہ بہت سی انڈسٹری بند ہونے کی وجہ سے مزید بیروزگاری میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ اس ساری صورتحال کے دوران سیاسی دھینگا مشتی جاری رہی اور سیاسی طور پر ملک میں استحکام نہ آ سکا۔ سیاسی جماعتیں اس اثناء میں اپنی سیاست چمکانے اور کرسی کی لالچ میں پڑیں رہیں۔ ملک ڈوبتا رہا اور ہمارے پیارے ملک کے سیاسی نیرو اپنی بانسری بجا رہے تھے اور انہیں اس بات کی ذرا بھر فکر نہیں تھی کہ ملک جل رہا ہے ۔

یہاں آپ کو میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس صورتحال کا صرف سیاستدانوں کو قصوروار ٹھہرانا بھی درست نہیں۔ اس موجودہ صورت حال میں ہماری اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے آنے والے فیصلے ، اسٹیبلشمنٹ یعنی جنرلز کی بے جا سیاسی معاملات میں مداخلت ، بیوروکریسی کی بدعنوانیاں بھی شامل حال رہی ہیں ۔

ابھی عام آدمی کے زخموں کی مرہم پٹی بھی نہیں ہوئی تھی کہ عمران انتظامیہ کی بساط تحریک عدم اعتماد کے ذریعے لپیٹ دی گئی اور شہباز شریف انتظامیہ تیرہ جماعتوں کی زیر نگرانی میں مسند اقتدار پر براجمان ہوگئی۔ اقتدار سے الگ ہوتے ہی عمران خان نے بھی تہیہ کرلیا کہ شہباز شریف انتظامیہ کو کسی صورت چلنے نہیں دیا جائے گا۔ تو پھر کیا تھا کہیں جلسے ہو رہےہیں تو کہیں دھرنے ہو رہےہیں۔ تیمور جھگڑا اور شوکت ترین نے تو باقاعدہ آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات کو ہی ثبوتاز کرنے کی مذموم کوشش کی۔ لیکن جو بھی ہے حکومت اور اپوزیشن کی اس دھینگا مشتی میں فٹبال تو عوام ہی بنی ہوئی تھی۔ اس فٹبال کو کبھی تو حکومت سے ٹھڈے پڑ رہے تھے اور کبھی اپوزیشن کی جانب سے۔ اس سارے کھیل میں کسی کا فالودہ بنا یا کچومر نکلا ہے وہ عوام ہے ۔

شہباز شریف انتظامیہ کو لے کر آنے کا مقصد یہ تھا کہ بگڑے ہوئے معاملات کو بہتر کیا جائے اور لوگوں کو بھی سہولت دی جائے لیکن جہاں یہ فیصلے ہوتے ہیں ان سے ایک بار پھر حساب کتاب میں گڑبڑ ہو گئی تھی کیونکہ ملکی معاشی معاملات دن بہ دن بد سے بدتر ہوتے چلے گئے اور عوام کے پہلے زخم مندمل بھی نہ ہوئے تھے کہ پھر مہنگائی اور بے روزگاری کے زخم زیادہ شدت سے لگا دیئے گئے ۔ ملک پاکستان کو دنیا کے تیسرے مہنگے ترین ملکوں کی فہرست میں شامل کردیا ۔ 14 فیصد مہنگائی 40 فیصد تک پہنچ گئی ، اور عام لوگ مرتے کیا نہ کرتے، اس مہنگائی میں خاموشی کے ساتھ پس رھے ھیں ۔

آئی ایم ایف سے معاہدے ہونے کے بعد حکومت کی جانب سے مزید ٹیکسز لگائے جا چکے ہیں جس سے مزید مہنگائی ہوگی۔ اللّٰہ اللّٰہ کرکے کُچھ معاشی اشاریے مثبت آنے شروع ہوئے ، جس میں مہنگائی کی شرح میں کمی ، آئی ایم ایف قرضہ کی منظوری ، ڈالر کا استحکام ، پٹرولنگ مصنوعات کی قیمتوں میں استحکام ، اسٹاک ایکسچینج میں تاریخی ریکارڈ اضافے کا رجحان ، کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ شامل ہیں ۔ رواں ہفتے اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کی کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ کا 23واں اجلاس ہو رہا ہے، جس کی سربراہی وزیرِاعظم شہباز شریف کریں گے۔

اس اجلاس میں چین، روس، بیلاروس، قازقستان، کرغزستان، اور تاجکستان کے وزرائے اعظم شرکت کریں گے، جبکہ ایران کے نائب صدر اور انڈیا کے وزیر خارجہ بھی شریک ہوں گے۔ منگولیا کے وزیر اعظم بطور مبصر اور ترکمانستان کے وزیر خارجہ خصوصی مہمان ہوں گے۔ ایک طرف تو شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہے تو دوسری طرف عمران خان صاحب کے حواری نے انہیں تواریخ میں احتجاج کا اعلان کیا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت شہباز شریف کے مہمان ہیں؟ نہیں! بلکہ وہ سب پاکستان کے مہمان ہیں۔ ان کی آمد پر احتجاج حکومت کے خلاف نہیں ہے بلکہ پاکستان کے خلاف ان جیسے عناصر کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ خدارا اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر ایسے ہتھکنڈوں سے اجتناب کریں کیونکہ ملکی ترقی صرف اور صرف سیاسی استحکام کے ساتھ پیوند ہے۔ سیاسی اختلافات کو سڑک کے بجائے افہام وتفہیم کے ساتھ مذاکرات کی میز پر حل کیا جائے۔ کیونکہ

جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا تب تک ملک میں معاشی استحکام بھی ممکن نہیں ۔ لہذا تمام سیاسی جماعتوں ، اسٹیک ہولڈرز ، اور اداروں کو مل بیٹھ کر باہمی مشاورت سے ملکی مسائل کے حل کی بات کرنی چاہیے ۔ اس صورتحال کے زمہ دار بھی سب ہیں تو حل بھی سب مل کر نکالیں ۔

آخر میں شہباز شریف صاحب کیا آپ نے منتوں ترلوں سے جو پیسے لیے ہیں ان کا مقصد اسٹنٹ کمشنر اور ایڈیشنل کمشنر کے لیے لگژری گاڑیاں خریدنا درکار تھا؟ کان کھول کر سن لو عام لوگوں کے پیسوں پہ پلنے والے سیاستدانوں ، جرنیلوں ، ججوں بیوروکریٹس اپنا قبلہ درست کر لیں عوام سے قربانی مانگنے سے پہلے خود بھی کوئی مثال قائم کرو۔ پرتعیش زندگی سے نکل کر میانہ روی اختیار کریں تاکہ عام لوگوں کو بھی احساس ہو کہ ہمارے لیڈر ہمارے ساتھ کھڑے ہیں ۔

انقلاب فرانس بھی زائد ٹیکسز سے شروع ہوا تھا اور پھر ہر نرم ہاتھ اور صاف کالر والے کی گردن زنی پر اختتام پذیر ہوا تھا ۔ چالیس ہزار امراء اور حکومتی نمائندے اس انقلاب میں سر بازار لٹکائے گئے تھے عام لوگوں کے ہاتھوں ۔

روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا ۔ اہل اقتدار سے گزارش ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ملک جل رہا ہو اور تم بانسری بجاتے رہ جاؤ۔

اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا

جب تاج گرائے جائیں گے ، جب تخت اچھالے جائیں گے

اب ٹوٹ گریں گیں زنجیریں ، زندانوں کی خیر نہیں

جو دریا جھوم کر اٹھیں ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے