قلم نگار: نادر علی شاہ
جب ہم ریاست کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ہمیشہ یہی بتایا جاتا ہے کہ ریاست کا وہی کردار ہے جو ایک ماں کا اپنے بچوں کی پرورش اور نشوونما میں ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم ریاست کو عام لوگوں کے ساتھ ناانصافیوں، ظلم وجبر، حق تلفیوں کو دیکھتے ہیں اور دوسری جانب ایک مخصوص طبقے کے مفادات کی حفاظت پر معمور دیکھتے ہیں تو ریاست کا کردار مشکوک ہو جاتا ہے۔ ریاست جب سرمایہ کاروں، جاگیر داروں، مفاد پرست سیاست دانوں، اشرافیہ اور ایک مخصوص ادارے کی بغل بچہ بن جائے اور عام محکوم لوگوں کے لیے ایک ڈائن نما ماں بن جائے تو پھر ان محکوم اور استحصال زدہ لوگوں کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے زبان بلند میں نعرہ حق لگانا لازم و ملزوم ہو جاتا ہے۔ ایک ریاست جو کہ سڑک کے کنارے لیٹے ہوئے آدمی، جھونپڑی میں بسنے والے خاندان، کھیت کھلیانوں میں جانوروں کے ساتھ مٹی میں لتھڑے ہوئے کسان، کوئلے کی کانوں میں کام کرتے ہوئے مزدور اور سکولوں، ہسپتالوں فیکٹریوں، دفتروں اور ملک کے کونے کونے میں رہنے والے اور کام کرنے والوں سے ہر چیز اور خدمت کی خریدوفروخت پر بلا واسطہ ٹیکس کی صورت میں ایک ایک پیسہ وصول کر رہی ہے۔ ٹیکس وہ معاوضہ ہے جو ریاست عوام کو دی جانے والی سہولیات یا ذمہ داریوں کے عوض وصول کرتی ہے۔ اب سہولیات کی بات کی جائے تو تعلیم ، صحت ، روزگار ، رہائش ، معاشرتی انصاف، پانی، انفراسٹرکچر اور عزت نفس اس میں شامل ہوتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ریاست اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے سر انجام دے رہی یا نہیں۔ اس حوالے سے ہم سب سے پہلے تعلیم پر بات کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے گے کہ آیا ریاست اس بنیادی ستون کو مضبوط کرنے اور اس کی فراہمی میں کس قدر سرگرم ہے۔ کسی بھی ریاست کی ترقی و خوشحالی میں تعلیم یافتہ افراد کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ تعلیم ہی وہ واحد شعبہ ہے جس سے باقی تمام شعبے معرضِ وجود میں آتے ہیں اس لیے اس شعبہ کی اہمیت وافادیت سے انکاری معاشرے اور ریاستیں ترقی و خوشحالی کی خوشبو سے بھی ناواقف ہی رہیں گے۔
سب سے پہلے ہم پاکستان کے تعلیمی انحطاط کے شکار تعلیمی نظام سے منسلک کچھ حقیقی اعداد و شمار پر بات کر لیں، اس وقت اڑھائی کروڑ بچہ جو کہ سکول جانے اور تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہے وہ سکولوں سے باہر، کسی نہ کسی ورکشاپ، قحبہ خانے، ہوٹلوں، بھٹوں،زمینوں اور گدا گری کرتے ہوئے اپنی اور اپنے خاندان کے لیے روزی روٹی کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ تین کروڑ بچہ سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جا رہا ہے جس میں سے دو کروڑ بچے نجی تعلیمی اداروں میں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ایک کروڑ بچے انتہائی کم سہولیات کے ساتھ سرکاری سکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں ۔
ان اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ اڑھائی کروڑ بچہ جو سکولوں سے باہر ہے، ریاست کا ان کے ساتھ کیا بیر ہے، کیا ریاست ان کی ماں نہیں؟ دوسرا سوال ریاست نے ان اڑھائی کروڑ بچوں کے والدین کے لیے اتنا روزگار پیدا کیوں نہیں کیا جس سے ان کے والدین آسانی سے تعلیمی معاملات کو سر انجام دے پاتے؟ تیسرا سوال جو پہلے دونوں سے بھی اہم ہے اگر یہ اڑھائی کروڑ بچہ بھی سکولوں میں آ جاتا ہے تو کیا ریاست کے پاس اتنے وسائل اور کیپاسٹی ہے کہ ان کی تعلیمی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ جواب ہے نہیں۔ نہیں کیوں؟ کیوں کہ ریاست بالعموم پچھلی دو دہائیوں اور بالخصوص حالیہ دو برسوں سے پہلے سے موجود سکولوں کو نجی ملکیت میں شفٹ کرنے کے لیے دن رات کوشاں ہیں تاکہ جو ایک کروڑ بچہ سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہا ہے وہ بھی اس حق سے محروم ہو جائے۔ حالیہ کچھ مہینوں میں اکیس ہزار سرکاری سکولوں کو پرائیویٹ کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ آپ سوچیں تو سہی ذرا، اڑھائی کروڑ بچہ جو سکولوں سے باہر ہے بنیادی تعلیم سے محروم ہے ریاست ان کی تعلیم کا انتظام و انصرام کرنے کے بجائے جو ایک کروڑ بچہ سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہا ہے ان کے تعلیمی عمل کو بھی نجی مالکان کے سپرد کر کے داؤ پر لگا رہا ہے۔ صرف پنجاب میں سوا لاکھ سیٹیں خالی پڑی ہیں جن پر فوری بھرتی کی ضرورت ہے۔ کچھ دوست جو اس ریاستی جبر کو غیر سنجیدگی سے لے رہیں ہیں وہ خواب غفلت میں سے نکلیں کیوں کہ پہلے پہل تو ریاست اور اس پالیسی بنانے والے سرکاری سکولوں کو نجی ملکیت میں دیتے ہوئے ہر بچے کی ایک مخصوص رقم پرائیویٹ مالکان کو ادا کرے گی لیکن کچھ عرصہ کے بعد ریاست اس کو اپنے بجٹ کی بحثوں میں قومی خزانے پر بوجھ ثابت کرکے اس ادائیگی کو بھی ختم کر دے گی۔ دوستوں اگر آج اس پرائیویٹائزیشن کے عمل کے آگے بند نا باندھا گیا تو سرکاری ملازمین کے ساتھ عام لوگ اپنے بچوں کی مفت تعلیم سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ سرکاری کا مطلب ہے پبلک کی مطلب عام لوگوں کی سب کی۔ جب کہ پرائیویٹ کا مطلب ہے نجی یا ذاتی مطلب کسی ایک فرد کی۔ تو آپ فیصلہ کر لو بنیادی حقوق کو جس میں تعلیم بھی ہے اس کو پبلک رکھنا ہے یا کسی کی ذاتی جاگیر بنتے دیکھتے رہنا ہے۔ اب آپ لوگ بتائیں ریاست سب کا جو ہے اسے کسی ایک کو دینے جا رہی ہے، تو اب ریاست ماں ہوئی یا ڈائن؟
اب دوسرے پہلو کی جانب چلتے ہیں ایک طرف تو بچوں کے تعلیمی مستقبل کو مکمل طور پر داؤ پر لگا دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ سرکاری ملازمین کی بھرتیوں پر مکمل طور پر پابندی ہے۔ پنجاب میں تقریباً سوا لاکھ کے قریب سیٹیں خالی پڑی ہیں جن پر بھرتی کی اشد ضرورت ہے۔ پینشن ترامیم کر کے پنجاب میں ملازم کی بیوہ کو دس سال تک پینشن دی جائے گی جو اس سے پہلے تا حیات تھی۔ بیوہ بیٹی کی پینشن ختم، معذور بچے کی پینشن ختم۔ ساٹھ سال سے پہلے ریٹائرمنٹ پر پینشن میں ایک سال پہلے پر دو فیصد ، دو سال پہلے پر چار فیصد، تین سال پہلے پر چھے فیصد، چار سال پہلے پر آٹھ فیصد اور پانچ سال پہلے پر دس فیصد کٹوتی ہوگی۔ پینشن کمیوٹیشن کو پینتیس فیصد سے کم کر کے پچیس فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاؤہ پینشن کی کیلکولیشن موجودہ تنخواہ کے بجائے گزشتہ تین سال کی اوسط بنیادی تنخواہ کے مطابق ہوگی۔ملازم کی دوران ملازمت موت پر کسی ایک فرد کی ملازمت کا خاتمہ۔ لیو ان کیشمنٹ کا خاتمہ۔ میڈیکل الاؤنس وہی، رہائش الاؤنس وہی اور سفری الاؤنس وہی کا وہی۔ اب بتائیں کیا ریاست ماں ہے یا ڈائن؟
ایک اور اعداد و شمار دیکھ لیں جس کی منظوری ہو گئی ہے۔
بارہ گھنٹے مسلسل کام کرنے والے مزدور کی کم از کم تنخواہ 39 ہزار روپے مقرر جبکہ دوسری طرف دیکھیں: ہمارے
صدر کی تنخواہ 10 لاکھ سے بڑھا کر 22 لاکھ کردی ۔۔۔کام کوئی نہیں
چیف جسٹس 16 لاکھ سے بڑھا کر 25 لاکھ۔۔۔۔۔ انصاف کوئی نہیں
وفاقی وزیر 3 لاکھ 50 ہزار سے 10 لاکھ ۔۔۔۔ کرنا کچھ نہیں۔۔۔
پارلیمانی سیکرٹری کی 85 ہزار سے بڑھاکر 4 لاکھ۔
اسپکیر اسمبلی 3 لاکھ کی بجاۓ 9 لاکھ وصول کرینگے۔
اس کے علاؤہ تعلیم، صحت، رہائش ، پانی، بجلی، گیس، پیٹرول، اندرونِ و بیرون ملک فری ٹیکٹس، موبائل بیلنس سب کچھ فری۔
اور دوسری جانب جن سے ووٹ لینا ہے اُن کے لئے تعلیم، صحت، رہائش، خوراک، بجلی ،پانی، گیس سب کچھ پیسے دے کر۔ ایسا کیوں ہے کہ ریاست کے خزانوں کے منہ ہمیشہ ایک مخصوص طبقے کی طرف کھلے رہتے ہیں اور جب عام لوگوں اور ملازمین کے حقوق کی بات ہوتی ہے تو خزانوں میں کمی کا رونا دھونا ملتا ہے۔
میرا یہاں سوال یہ ہے کہ ریاست اپنا یہ دوغلہ پن کب چھوڑے گی؟ ریاست تو ماں ہے، تو پھر یہ کیسی ماں ہے جو اپنی ایک اولاد کو سب کچھ عطا کر رہی ہے جبکہ دوسری اولاد کو اپنی جان بچانے کے لالے پڑے ہیں۔
اگر ریاست اپنے منصبی فریضہ سے جان بُوجھ کر غافل ہو گئی ہے تو متاثرین کو اپنے حقوق کی جنگ کو زور بازو سے جیتنے کی ہر کوشش کو بروئے کار لانا ہوگا۔
آخر میں پاکستان کا وجود بھی ایک مٹھی بھر تعلیم یافتہ جماعت کا مرہون منت ہے جو کہ قائدِ اعظم کی رہنمائی میں انگریزوں اور ہندوؤں سے برسر پیکار تھی۔ قائدِ اعظم کا قول ہے علم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہے جس قوم کے پاس علم ہے اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ لیکن وطن عزیز میں علم دوشمن کاروائیاں جاری ہیں جو ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو غلامی، محکومی، ذلت اور رسوائی کے دھانے پر لا کھڑا کریں گی۔ آج ہی سے ایک تحریک شروع کریں جس تحریک کا ایک ہی نعرہ ہو: ” تعلیم بچاؤ – پاکستان بچاؤ”. شکریہ