تحریر: عمر وارث
ایک سیاسی کارکن کے لیے یہ بہت ہی ضروری ہے کہ وہ سماج کی اس سب سے بنیادی تفریق کو سمجھے جس کی بنیاد پر اس کا ہر لمحہ استحصال کیا جاتا ہے۔ اس سماجی تفریق کے ایک جانب قدرتی کردار ہے تو دوسری طرف خودساختہ سماجی ناانصافی کار فرما یعنی معاشی ناہمواریاں۔
قدرت کی طرف سے رنگ و نسل، علاقہ، زبان، مذہبی اعتقادات ہر انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی متعین کر دئیے جاتے ہیں اور ماسوائے مزہبی اعتقادات جو انسان اپنی ذہنی بلوغت اور میلان طبع کے مطابق اختیار کرنے کا حق بھی رکھتا ہے۔
دوسری جانب حکمران طبقے کی خود ساختہ ذاتی مفادات کی بنیاد پر پیدا کردہ معاشی ناہمواری کا سماجی نظام کہ جس میں محنت کش طبقہ اور حکمران طبقے کی ماہانہ آمدنیوں یا ان کی جائیدادوں میں زمین و آسمان کے فرق سے بھی زیادہ کا درد ناک فرق۔
وطن عزیز پاکستان چونکہ ایک نیم قبائلی نیم جاگیردارانہ اور نیم سرمایہ دارانہ بنیادوں پر استوار ملک ہے اور یہ تینوں بنیادیں اندر سے کھوکھلی اور کمزور ترین۔ لہذا پاکستان بطور ایک ریاست، سول بیوروکریسی، عسکری اداروں اور بعض اوقات غیر جمہوری سیاسی اشرافیہ جن کا پس منظر خالصتاً جاگیردارانہ سرمایہ دارانہ یا قبائلی تھا، کے زیر حکمرانی رہا۔
یہ حکمران طبقے اکثر اوقات آپس میں بھی ذاتی مفادات کے لیے الجھتے رہتے ہیں اور کبھی کبھار عوامی دباؤ کے پیش نظر یہ آپسی اتحاد بھی بنا لیتے ہیں۔ یہ حکمران طبقے ہمیشہ بین الاقوامی طاقتوں کے مرہون منت رہتے ہیں کیونکہ ان کی اپنی جڑیں ملک کے اندر عوام میں نہیں ہوتی لہذا عوام اور ان کے درمیان ہمیشہ ایک خلیج واقع رہتی ہے جس کی وجہ سے یہ مجبوراً اپنے بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر ناچتے ہیں اور عوام کے مفادات کا سودا کرتے ہیں۔ یہی وہ سیاسی و غیر سیاسی، ریاستی و غیر ریاستی اشرافیہ یا سٹیٹس کو کے لوگ ہیں جو عام لوگوں کو بڑے ہی سادہ طریقے سے بار بار بے وقوف بناتے ہیں کہ ہر پاکستانی کو پاکستان میں سیاسی برابری کا درجہ حاصل ہے یعنی تمام پاکستانیوں کا ووٹ ایک برابر ہے، یہاں پر ایک مزدور کا ووٹ اپنے کارخانہ کے مالک کے برابر ہوتا ہے یا کسی بھی ریاستی ادارے کے کلرک کا ووٹ اس ادارے کے سربراہ کے ووٹ کے برابر۔ دوسری جانب ان ہی دو لوگوں کی ماہانہ آمدنی و مراعات یا ذاتی جائیدادوں میں زمین اور آسمان سے بھی زیادہ کا فرق موجود ہوتا ہے، جس پر قومی دھارے کے تمام سٹیک ہولڈرز یعنی سرکاری ادارے اور دانشور، ریاستی میڈیا وغیرہ بلکل بات نہیں کرتے۔ کیوں؟ کیوں کہ گودھی میڈیا جیسے کہ بحریہ ٹاؤن کے کھرب پتی مالک؛ ملک ریاض نے تمام ضمیر فروش ملکی نامور صحافیوں کی فہرست جاری کردی۔ یہ وہ قومی مجرم اور بکاؤ صحافی ہیں کہ جن کو پیسے دے کر کچھ بھی عوام دشمن نجی ملکیت کے حق میں تحریریں اور تقریریں لکھوا لیں۔
سرکاری و ذاتی مراعات یافتہ دانشوروں کو بھاری بھرکم ظاہراً و باطناً ادائیگیوں کی چھتر چھایا سے نجی ملکیت کے حق میں بڑے بڑے اخباری مضامین اور نام نہاد زر خرید معاشی ماہرین کے مقالہ جات سے کتب، اخبارات، سرکاری اشتہارات اور ریاستی مشینری کے اشاروں پر چلنے والے ٹی وی اور سوشل میڈیا چینلز کی بھرمار کردی گئی ہے تاکہ عام سادہ لوح عوام معاشی ناہمواری کو خدا کی طرف سے نازل کی گئی آفت سمجھ کر قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
کیا ہم عام آدمی کے رنگ و نسل زبان علاقہ برادری یا اس کے ذاتی اعتقادات کی بنیاد پر سماجی فرق یا درجہ بندی کو بنیاد بنا سکتے ہیں! بالکل بھی نہیں؛ یہ قدرتی فرق تو ظاہر ہے کسی بھی فرد کو قدرت کی طرف سے عطا کردہ ہے اور اس کی اپنی سمجھ بوجھ یا جذبہ کی بنیاد پر اختیار کیا جانے والا اس کا ایمان بھی اس کا ایک سماجی حق تصور کیا جاتا ہے اور یہ تو خاص طور پر اس فرد کے اور اس کے خالق کے درمیان ایک تعلق بھی ہے جس کو دوسرے کسی فرد یا ریاست کے اثر و رسوخ یا چھیڑ چھاڑ سے مکمل ازادی ہونی چاہیے۔
ہم چاہتے ہیں کہ ان تمام معاملات سے ہٹ کر انسانوں کی درجہ بندی یا تقسیم ان کے اس سماجی معیار پر کرنی چاہیے کہ جس کی بنیاد پر وہ زندگی کی بنیادی ضروریات سے ہم کنار ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو یا آسان الفاظ میں وہ ان سماجی سہولیات تک رسائی رکھتے ہوں۔
وہ بنیادی ضروریات جیسے کہ معیاری اور مفت ہر سطح کی تعلیم حاصل کرنے کا بنیادی حق، بیماری کی صورت میں صحت حاصل کرنے کا معیاری اور مفت بنیادی حق، ذاتی رہائش رکھنے کا بنیادی حق، روزگار حاصل کرنے کا بنیادی حق اور اسی طرح دیگر سماجی حقوق اور تحفظ وغیرہ۔
اب اگر ذرا غور سے دیکھیں تو یہ سب چیزیں اج کے اس سماجی تناظر میں باقاعدہ پیسوں سے خریدی جاتی ہیں اخر کیوں؟ کیونکہ ریاست کے سرمایہ دار اور موروثی حکمرانوں یعنی سیاست دانوں نے ریاستی اداروں کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے ناکارہ کر دیا اور قوم میں یہ تاثر بنانے میں کامیاب ہو گئے کہ کاروبار میں ریاست کا کردار نہیں ہونا چاہیے جبکہ یہی ریاست اپنے لوگوں سے وہ تمام ٹیکسز سمیٹتی ہے کہ جن کا بنیادی مقصد عوام کو معیاری اور مفت تعلیم، صحت، روزگار، رہائش اور سماجی تحفظ جیسی سہولیات دینا ریاست کا اولین مقصد ہونا ہوتا ہے۔
یہاں پھر ریاستی اداروں نے عام آدمی کو اس کی جیب کے مطابق نجی شعبہ سے اپنے لیے سہولیات خریدنے پر مجبور کر دیا۔ اگر اپ کی جیب میں ایک ہزار روپیہ ہے تو اپ اپنے بچوں کو اسی ایک ہزار کے مناسبت سے موجود سکول جو کسی بھی گلی محلے میں ایک یا دو کمروں کی عمارت پر مشتمل ہوگا جس کا سٹاف بھی غیر تربیت یافتہ ہی ہو گا، وہاں پر اپ اپنے بچوں کو بھجوانے پر مجبور ہوں گے جبکہ اگر اپ کی جیب ماہانہ ایک لاکھ روپیہ ادا کرنے کی قوت رکھتی ہے تو اپ اسی تناسب سے اپنے بچوں کو ایک بہترین صاف ستھرا سردیوں میں گرم، گرمیوں میں ٹھنڈا ماحول والے سکول میں جہاں کھیلوں کے میدان، جہاں باقاعدہ تربیت یافتہ اساتذہ کی موجودگی وغیرہ وغیرہ جیسی معیاری سہولتوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے بھجوا سکتے ہیں۔
اب ایک ہزار روپیہ ماہانہ والا سماجی طبقہ تمام رنگ و نسل زبان مذاہب اور علاقائی لوگوں سے مزین ہوگا تو دوسری طرف ایک لاکھ روپیہ کی صلاحیت والا طبقہ بھی ان تمام سماجی رنگوں پر ہی مشتمل ہوگا یعنی امیر اور غریب طبقات میں سماج کے یہ تمام رنگ دونوں طرف دستیاب ہوں گی۔
یہاں ہم نے اب اصل سماج کے فرق کو سمجھنا ہے کہ اخر وہ بنیادی کیا فرق ہے جو ان دو طبقات کو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے تو جناب وہ ہے ماہانہ امدنی یا جائیداد کا فرق اور صرف اسی ایک سماجی خود ساختہ فرق کے اگے باقی تمام رنگ و نسل برادری علاقائی لسانی یا ذاتی اعتقادات کے تفرقات بے معنی ہو جاتے ہیں لیکن آفرین ہے ہماری اشرافیہ یا سٹیٹس کو کے ماہرین پر، جو عام لوگوں کے دماغوں میں قدرتی فرق کو زیادہ گہرا کر دیتے ہیں اور ان کو باہمی نفرت کے لیے استعمال میں لاتے ہیں جو خالصتاً قدرت کی دین ہوتی ہے اور دوسری طرف جو اشرافیہ کی اپنی پیدا کردہ سماجی لکیر یعنی ماہانہ آمدنیوں یا جائیدادوں کا مصنوعی فرق ہوتا ہے، کو بڑی مکاری و عیاری سے عوام کی نظروں سے اوجھل کر دیا جاتا ہے اور افسوس کہ سماج مجموعی طور پر اس ظلمت و ذلالت کو دل کی گہرائیوں سے قبول بھی کر لیتا ہے۔
دوستو!! یہ سماجی فرق یعنی آزاد منڈی کی طاقتوں کا پیدا کردہ مصنوعی فرق جو سماج میں ظلم و بربریت کی بنیاد بنتا ہے ۔۔۔ ہم محنت کش طبقے کے دماغوں سے اوجھل کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہ ظالمانہ زمین و آسمان کے باہمی فرق سے بھی زیادہ کا کر دیا جاتا ہے جو اصولاً ایک اور پانچ کی شرح سے کسی بھی صورت زیادہ نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔ یعنی کسی بھی شعبہ میں سب سے کم درجہ کا ملازم اگر دس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کر رہا ہے تو اسی ادارہ کا سربراہ اپنی تمام تر ذاتی قابلیت اور استعداد کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار روپے ماہانہ تک تنخواہ لے سکتا ہو۔ اگر ریاست اس فرق کو قائم رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے تو اس کو عوامی جمہوری ریاست کہلانے کا حق حاصل ہے وگرنہ ایسی ریاست جو اس فرق کو قائم رکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی تو نہ وہ عوامی ہو سکتی ہے اور نہ ہی جمہوری ۔۔ ہاں وہ چند اشرافیائی گروہوں کا قبضہ گروپ ضرور کہلا سکتی ہے۔ کیوں ؟؟؟ کیوں کہ ایسی ریاست عوام میں خوف و بربریت کا ماحول ختم نہیں کر سکتی اور ریاست کو لامحالہ ہر صورت استحصال کا راستہ اپنانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ پھر ایسی ریاست میں عام آدمی کا اعتماد اپنی ریاست پر کیسے قائم رہ سکتا ہے ؟؟؟ یہ بہرحال ایک تاریخی نوعیت کا سوال ہے ۔۔ جو ہمیں تاریخ کے ہر دور میں باآسانی دیکھنے کو ملتا ہے اور پھر طبقاتی کشمکش کا ایک دور شروع ہو جاتا ہے۔ ایسے سماج کو آج ہم پولیس سٹیٹ یا آمرانہ حکومتوں کے نام سے ہر روز سنتے ہیں جہاں مدہوش اشرافیہ کا اقلیتی طبقہ محنت کش طبقے کے غربت، غلاظت، جہالت کے وسیع وعریض سمندروں کے عین وسط میں چھوٹے چھوٹے سر سبز و شاداب جزیروں میں اپنی زندگی کی رعنائیوں میں مگن مست حال جی رہا ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ واقعتاً محفوظ ہے۔
یہی وہ سماجی فرق ہے یعنی دولت و ثروت کے پہاڑوں جیسا فرق کہ آج ملک کی نامور سیاسی جماعتوں کے قائدین بنی گالا، جاتی امراء بلاول ہاؤس کے محلوں میں سخت ترین حفاظتی حسار میں زندگی کی تمام تر رعنائیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں تو ملک عزیز پاکستان کے ساٹھ فیصد خاندان ایک مرلہ کے مکان سے بھی محروم غلاظت کے ڈھیروں پر اپنے پیاروں سمیت زندگی کے دن گن رہے ہوتے ہیں۔
ہمیں اپنے سماج میں اپنے طبقاتی دوست اور دشمن میں واضح فرق معلوم ہونا چاہیے اور وہ یہی سماجی فرق ہے کہ جس کو دبانے، چھپانے کے لیے ہر ممکن ریاستی و سماجی کوشش کی جاتی ہے۔