تحریر: قیوم نظامی

جدیدیت، صنعتی انقلاب، اور جمہوریت
تاریخ کے تناظر میں اگر ہم مغربی ممالک کا مطالعہ کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ آج کا مغربی سماج جدیدیت صنعتی انقلاب سے گزر کر ہی موجودہ جمہوری معاشرے میں تبدیل ہوا ہے ـ چرچ کی بالادستی کے خلاف مختلف تحریکوں نے جنم لیا اور آخرکار چرچ کو حکومتی اور ریاستی امور سے علیحدہ کر دیا گیاـ برطانیہ کی ترقی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے ـ جدیدیت صنعتی انقلاب اور جمہوریت ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ ان تینوں عناصر نے انسانی معاشروں کو گہرے اور وسیع پیمانے پر متاثر کیا ہے، خاص طور پر یورپ اور مغربی دنیا میں، اور بعد میں دنیا کے دیگر حصوں میں بھی اس مرحلہ وار ترقی کے اثرات مرتب ہوئے ہیں ـ جدیدیت سے مراد وہ دور یا تحریک ہے جو روایتی سماجی سیاسی اور فکری ڈھانچوں سے انحراف کرتے ہوئے جدید سائنسی عقلی اور تکنیکی اصولوں پر مبنی معاشرتی تبدیلیوں کو اپنانے کی وکالت کرتی ہے ـ یہ تحریک خاص طور پر 18ویں اور 19 ویں صدی میں سامنے آئی جسے نشاہ ثانیہ یعنی روشنی کا دور بھی قرار دیا جاتا ہے ـ جدیدیت نے انسانی حقوق، عقل کی بالادستی، اور آزادی جیسے نظریات کو فروغ دیا، جو جمہوریت کی بنیاد بنے۔ صنعتی انقلاب جدیدیت کا ایک اہم پہلو تھا جس میں پیداوار کے روایتی طریقے صنعتی مشینری اور فیکٹری سسٹم سے تبدیل ہو گئے ـ گویا سماج زراعت کے دور سے نکل کر صنعت کے دور میں داخل ہو گیا ـ شہروں کی ترقی ہوئی اور طبقات کا فرق واضح ہواـ
عوام کی تعلیم میں اضافہ ہوا، متوسط طبقہ ابھرا اور افراد کو حقوق اور سیاسی آواز ملی۔ مزدوروں کے حقوق اور سوشل ازم جیسے نظریات نے جنم لیا، جو جمہوری جدوجہد کا حصہ بنے ـ جمہوریت کا عروج جدیدیت اور صنعتی انقلاب کے بعد ہوا صنعتی انقلاب نے تعلیمی اداروں کی ضرورت بڑھائی جس نے عوام کو باشعور بنایا اور انہیں سیاست میں شرکت کے قابل
بنایا۔ جدیدیت اور جمہوریت نے فرد کی اہمیت پر زور دیا جس نے بادشاہت اور آمرانہ حکومتوں کو چیلنج کیا ـ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں مزدور طبقے نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی جس نے جمہوری حکومتوں کے قیام میں اہم کردار ادا کیا ـ جدیدیت نے انفرادی حقوق اور عقل پر زور دیا صنعتی انقلاب نے معیشت کو بدل کر سماجی تبدیلیاں لائیں اور جمہوریت نے تمام اثرات کو سیاست میں ڈھال کر عوام کو حکومت میں شامل کیا یہ تینوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور انسانی ترقی کی تاریخ میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ـ علامہ اقبال کی فکر اور فلسفہ کے مطابق مغرب نے مسلمانوں کے عروج کے زمانے کی خوبیوں سے سیکھ کر ترقی کی جبکہ مسلمان خود اپنی خوبیوں کو ترک کرکے زوال کا شکار ہوگئےـ
چین کی ترقی کا ماڈل، جسے "چینی ماڈل” (Chinese Model) کہا جاتا ہے، گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا کے لیے ایک منفرد مثال بن چکا ہے۔ یہ ماڈل معاشی ترقی، حکومتی کنٹرول، اور سماجی استحکام کو متوازن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کا قیام 1921 میں عمل میں آیا ـ ماؤزے تنگ جو ایک دیہات میں اسکول ٹیچر تھے وہ کیمونسٹ پارٹی کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں ـ ماؤزے تنگ کی قیادت میں چین کی پیپلز آرمی نے چیانگ کائی شیک کی فوجوں کے خلاف 362 روز کا لانگ مارچ کیا جسے انسانی تاریخ کا منفرد اور انوکھا لانگ مارچ قرار دیا جاتا ہے ـ ماؤزے تنگ نے یکم اکتوبر 1949 کو اپنی مخالف فوجوں کو شکست دے کر چین کو آزاد کرا لیا اور پیپلز ریپبلک آف چائنہ کی بنیاد رکھی ـ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے سب سے پہلے زرعی اصلاحات نافذ کیں ان اصلاحات کے دوران مزاحمت کی بناء پر 10 لاکھ بڑے زمیندار قتل کر دیے گئے ـ ماؤزے تنگ نے 1958 میں گریٹ لیپ فارورڈ منصوبے کا اعلان کیا جس کا مقصد تیز رفتار ترقی تھا اسی دوران چین قحط سالی کا شکار ہو گیا ـ تین کروڑ چینی باشندے بھوک کی وجہ سے مر گئے ـ ماؤزے تنگ نے ثقافتی انقلاب کے ذریعے چین کی پرانی فیوڈل ذہنیت روایات ثقافت اور رسومات کو ختم کرنے کی کوشش کی تاکہ نیا انقلابی سماج وجود میں آ سکے اور جاگیر دارانہ ذہنیت کا قلع قمع کیا جا سکے ـ یہ ثقافتی انقلاب بھی چین کے لیے بڑا مہنگا ثابت ہوا اور اس کے دوران لاکھوں لوگ مارے گئے ـ ثقافتی انقلاب کے دور میں چین کے عظیم لیڈر ڈینگ زیاو پنگ سامنے آئے اور انہوں نے چین کی پرانی پالیسی کو تبدیل کر دیا اور کہا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بلی کالی ہو یا سفید ہو جب تک کہ وہ چوہے کھا رہی ہو ـ چین کی قیادت نے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق سوشلزم کے تصور کو تبدیل کر دیا اور اعلان کیا کہ چین میں سوشلزم چین کی خصوصیات کے مطابق ہوگا ـ چین نے تنہائی کو ختم کرتے ہوئے دنیا سے اپنے تعلقات قائم کیے اور سرمایہ کاری کے لیے چین کے دروازے کھول دیے ـ ڈینگ زیاو پنگ نے ایک جانب چین کو جدید ملک بنا دیا مختلف نوعیت کی پابندیاں ختم کر دی گئیں ـ انفراسٹرکچر پر زور دیا آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جب چین کے اندر حالات سازگار ہو گئے تو دنیا کی مختلف کمپنیوں نے چین کا رخ کیا اور سرمایہ کاری شروع کر دی اس طرح چین میں ایک نوعیت کا صنعتی انقلاب آگیا ـ چین میں جمہوری نظام نہیں ہے ـ ایک موقع پر چین کے طالب علموں اور دانشوروں نے امریکہ اور مغرب کی آشیر باد سے چین میں زبردست احتجاجی مظاہرے کیے اور جمہوریت اور کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ کیاـ چین کی قیادت نے اس تحریک کو کچل دیا ـ چین میں مقامی سطح پر ڈیموکریسی ہے اور عوام کو اپنے مقامی نمائندے منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا ہے جبکہ اس کے اوپر کا سارا نظام میرٹ و کریسی پر مبنی ہےـ چین جدیدیت صنعت سازی اور مضبوط اور مستحکم سیاسی نظام کی وجہ سے دنیا کی دوسری معاشی طاقت بن چکا ہے اگر وہ اسی طرح ترقی کی منازل طے کرتا رہا تو ایک دہائی کے بعد وہ دنیا کی پہلی معاشی طاقت بننے کی اہلیت رکھتا ہے ـ دنیا کے جو ترقی پذیر ممالک ترقی کے خواب دیکھ رہے ہیں ان کو تاریخ سے سبق سیکھنا ہوگا اور جدیدیت صنعت سازی اور جمہوریت کے عالمی تاریخی اصول پر عمل درامد کرنا ہوگا ـ پاکستان کو بھی اگر ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہونا ہے تو اسے تقلید اور جمود سے باہر نکلتے ہوئے عقل اور سائنس کی بنیاد پر جدید سماج کی تشکیل کرنی ہوگی ـ صنعت کاری پر پوری توجہ دینی پڑے گی اور پھر اس کے بعد حقیقی عوامی جمہوریت کا مرحلہ شروع ہوگا ـ محترم سید سردار علی پاکستان کے معروف دانشور ہیں ان کی دنیا کی 5 ہزار سالہ تاریخ پر گہری نظر ہے ـ ان کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ جب تک پاکستان کا موجودہ سٹیٹس کو مکمل طور پر ختم نہ کر دیا جائے اور ریاست صنعتوں کا جال نہ بچھائے اس وقت تک پاکستان کا کلچر ماحول اور معروضی حالات حقیقی جمہوریت کے لیے سازگار نہیں ہو سکیں گے ـ محترم سید سردار علی اس سلسلے میں کئی فکری نشستوں سے خطاب کر چکے ہیں وہ چین کے ماڈل سے بہت متاثر ہیں اور چین کی دعوت پر چین کے کئی دورے کر چکے ہیں ـ کاش پاکستان کے نوجوان دنیا کے کامیاب تجربات سے سبق سیکھ کر قدامت پسندی سے جدیدیت کی جانب آنے کا فیصلہ کر لیں تو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا بند دروازہ کھل سکتا ہےـ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے