تحریر : قیوم نظامی

پی ٹی آئی کا احتجاج کامیاب یا ناکام ؟

پاکستان کے حالات روز بروز تشویش ناک ہوتے جا رہے ہیں – ایک جانب دہشت گردی کی نئی لہر اٹھ کھڑی ہوئی ہے جبکہ دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے- اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تشویش ناک حالات نے بزرگ شہریوں کو اذیت میں مبتلا کر دیا ہے- انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں اس نوعیت کے افسوسناک اور الم ناک حالات بھی دیکھیں گے- بزرگ شہریوں کے اضطراب اور بے چینی پر اسد اللہ غالب کا یہ شعر صادق اتا ہے –

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے قائد اعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے تو کراچی کے عوام نے اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کیا- احتجاجی عوام گورنر جنرل ہاؤس کے گیٹ کے سامنے پہنچ گئے-انگریز کے تربیت یافتہ سٹاف نے قائد اعظم سے کہا کہ ہمیں عوام پر لاٹھی چارج کرنا پڑے گا-قائد اعظم نے اپنے سٹاف سے کہا کہ تم پاکستان کے مالک عوام پر لاٹھی چارج کیوں کرنا چاہتے ہو- قائد اعظم گورنر جنرل ہاؤس کی بالکنی پر گئے اور عوام سے کہا کہ آپ کیوں احتجاج کر رہے ہیں آپ کے مطالبات کیا ہیں آپ کے پانچ نمائندے کل دس بجے میرے دفتر میں آ جائیں میں آپ کا مسئلہ حل کر دوں گا- قائد اعظم کی یہ بات سن کر احتجاجی عوام منتشر ہو گئے- عوام کے ہمدرد اور دوست لیڈر عوام پر لاٹھی چارج کرنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں- پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ غیر مقبول حکومتیں ہی عوام پر تشدد کرتی ہیں لاٹھی چارج کرتی ہیں اور بے دریغ آنسو گیس کا استعمال کرتی ہیں- اگر مینار پاکستان کو جانے والے راستے بند نہ کیے جاتے اور تحریک انصاف کے کارکن مینار پاکستان میں پہنچ جاتے تو کچھ بھی نہ ہوتا وہ احتجاج کرتے اپنا غصہ نکالتے اور اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے- احتجاج پوری دنیا میں ہوتے ہیں مگر پاکستان میں جب بھی احتجاج کی کال دی جاتی ہے احتجاج سے پہلے پولیس گردی شروع ہو جاتی ہے لوگوں کو خوف زدہ کیا جاتا ہے فعال اور متحرک کارکنوں کی گرفتاریوں کے لیے ان کے گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں- چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے- فون سروس بند کر دی جاتی ہے کنٹینر لگا کر راستے روک دیے جاتے ہیں احتجاج کی کال دینے والی سیاسی جماعت حکومت کی ان افسوسناک کاروائیوں سے سیاسی فائدہ اٹھا لیتی ہےاور حکومت ہار جاتی ہے -حکومت چونکہ کمزور ہے اسے عوام کا اعتماد حاصل نہیں ہے لہذا عمران خان کی کال کے بعد اس کے اوسان ہی خطا ہو گئے اور اس نے مینار پاکستان جانے والے تمام راستوں کو بند کر دیا-تحریک انصاف کے کارکنان تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اور آنسو گیس سے متاثر ہوتے ہوئے مینار پاکستان کے قرب و جوار میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیا-حکومت نے سیکورٹی کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کر دیے اور ہر ممکن ہتھکنڈہ استعمال کرنے کے باوجود ہار گئی اور عوام جیت گئے- انسانی تاریخ کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ عوامی طاقت کے سامنے کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی-

ڈی چوک اسلام اباد کی صورتحال اس قدر کشیدہ ہو گئی کہ حکومت کو پولیس کے علاوہ رینجرز اور فوج کو طلب کرنا پڑا تاکہ وہ امن و امان کے فرائض انجام دے سکے-اگر علی امین گنڈا پور کی قیادت میں خیبرپختونخوا سے آنے والے قافلے کو برہان انٹرچینج پر نہ روکا جاتا اور خندقیں نہ کھودی جاتیں اور کارکنوں پر بلا جواز شیلنگ نہ کی جاتی تو صورتحال اس قدر کشیدہ نہیں ہو سکتی تھی- پاکستان کے عوام ڈی چوک اسلام اباد پر سینکڑوں احتجاجی جلسے اور دھرنے دیکھ چکے ہیں-عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے 2014 میں ڈی چوک اسلام اباد میں 126 دن کا طویل ترین دھرنا دیا تھا-اس تاریخی دھرنے میں 60 سے 70 ہزار افراد شریک ہوئے تھے- ایک معتبر رپورٹ کے مطابق علی امین گنڈا پور کے ساتھ صرف دو تین ہزار کارکن موجود تھے وہ اگر اسلام اباد میں داخل ہو بھی جاتے تو پولیس اور سیکیورٹی فورسز ان کو آسانی سے مینیج کر سکتی تھیں- مگر افسوس حکومت نے بوکھلاہٹ اور عجلت میں غلط فیصلے کر کے اشتعال انگیزی کی جس کا سیاسی نقصان خود حکومت کو ہی برداشت کرنا پڑا- وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت دونوں احتجاجی کال کو مناسب طریقے سے ڈیل کرنے سے قاصر رہیں-علی امین گنڈا پور صوبہ خیبر پختون خواہ کے منتخب وزیراعلی ہیں ان پر کچھ آئینی اور قانونی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے گریز کرتے ہیں-ان کا قافلہ جب برہان انٹرچینج پر پہنچا تو اس قافلے میں سادہ کپڑوں میں پولیس کے لوگ شامل تھے- ایک رپورٹ کے مطابق اس قافلے میں درجنوں ایمبولینس اور ہیوی مشینری موجود تھی جبکہ ایک سو سے زیادہ افغانی شہری بھی اس قافلے کا حصہ تھے- علی امین گنڈاپور اکثر اوقات اشتعال انگیز گفتگو بھی کرتے رہتے ہیں-وہ ایک گمنام راستے سے اسلام اباد پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور چائنہ چوک پر چند منٹ موجود رہے تاکہ احتجاجی کارکنوں کی حوصلہ افزائی کر سکیں اس کے بعد وہ کے پی ہاؤس میں چلے گئے-وہاں سے وہ پراسرار طور پر لاپتہ ہو گئے جس کی وجہ سے پورے ملک میں افواہوں کا سلسلہ شروع ہو گیا-خیبر پختون خواہ اسمبلی کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا-علی امین گنڈاپور کی رو پوشی کے سلسلے میں مختلف قسم کی افوائیں گردش کرتی رہیں- آخر کار 24 گھنٹے کے بعد وہ خیبر پختون خواہ کی اسمبلی کے اجلاس میں پہنچ گئے اور انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ کے پی ہاؤس میں موجود تھے اور چند افراد کے ساتھ مشکل راستوں کا سفر کرتے ہوئے پشاور پہنچ گئے- علی امین گنڈا پور کی ڈرامائی کہانی پر کوئی یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے-حکومت کی جائز پریشانی یہ ہے کہ 15 اکتوبر کو اسلام آباد میں دو روزہ شنگھائی کانفرنس ہو رہی ہے حکومت کا خیال ہے کہ عمران خان اس شنگھائی کانفرنس کو ملتوی کرانا چاہتے ہیں- جیسے انہوں نے 2014 میں جو دھرنا دیا اس کی وجہ سے چین کے صدر کا دورہ ملتوی کرنا پڑا تھا-پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہم ایک ہی طرح کے تجربات کرتے رہتے ہیں-اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ احتجاجی سرگرمیوں سے امن و امان قائم نہیں رہتا اور سیکیورٹی کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر ایسی قانون سازی کرے جس کے نتیجے میں کسی بھی سیاسی مذہبی جماعت کو ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہ ہو جن سے لوگوں کی آمد و رفت میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہو اور سکیورٹی کے خدشات لاحق ہو سکتے ہوں-پاکستان میں سٹیٹس کو اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ تبدیلی کی کوشش کرنے والے اکثر اوقات ناکام ہی رہتے ہیں- تاریخ کا فیصلہ یہ ہے کہ پاکستان کے عوام بیدار باشعور اور منظم ہو کر ایک انقلابی تحریک چلائیں جس کے نتیجے میں پاکستان کی سیاست معیشت اور سماجیت کا قبلہ درست کیا جا سکے-سٹیٹس کو کی حامی طاقتور قوتوں کو بے بس بنایا جا سکے-عوامی انقلاب کے بغیر پاکستان کو بچانے اس کی سلامتی اور ازادی کو محفوظ رکھنے کا اور کوئی آپشن باقی نہیں بچا- یہ بات جتنی جلدی پاکستان کے بڑے لکھے افراد سمجھ جائیں گے اتنا ہی پاکستان اور عوام کے لیے بہتر ہوگا-ملکی حالات کے سلسلے میں خاموش تماشائی بنے رہنا اج سب سے بڑا جرم ہے جس کی سزا نہ صرف پاکستان بلکہ عوام کو بھی مل رہی ہے-

حالیہ احتجاج کے دوران پی ٹی آئی کے کارکنوں کو لاوارث چھوڑ دیا گیا تحریک انصاف کے لیڈر کسی جگہ نظر نہ آئے- لیڈروں کے اس شرمناک روپے سے کارکنوں میں مایوسی اور بداعتمادی کی لہر دوڑ گئی ہے- جو سیاسی جماعتیں منظم نہیں ہوتیں انہیں ہمیشہ بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے