تحریر:قیوم نظامی

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی محاذ آرائی سیاسی جنگ کی صورت اختیار کر چکی ہے ـ وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں نے تحریک انصاف کی 24 نومبر کے احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے جس انداز سے اسلام اباد اور بڑے شہروں کے راستے بند کیے ہیں اس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی ـ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو کم و بیش 30 جگہوں سے کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا ہےـ اسلام آباد سے نہ کوئی باہر جا سکتا ہے نہ کوئی باہر سے اندر آ سکتا ہے ـ اسی طرح راولپنڈی اور لاہور کی سڑکوں کو بھی کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا ہے انٹرنیٹ اور موبائل سروس کو بند کیا گیاـ اپوزیشن کے لیڈروں اور تحریک انصاف کے سرگرم کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ان کو گرفتار کیا گیا ـ بڑے شہروں کے اندر آمد و رفت کو بند کیا گیا جس سے پاکستان کے عوام کو انتہائی اذیت کا سامنا کرنا پڑا ـ اشیائے ضروریہ کی سپلائی رک گئی ایمبولنسیں ہسپتالوں تک نہیں پہنچ سکیں ـ اس نوعیت کی غیر معمولی حفاظتی تدابیر سے یہ حقیقت ظاہر اور باہر ہو جاتی ہے کی حکومت بہت خوف زدہ ہے اور اسے اپنا اقتدار خطرے میں نظر آ رہا ہے ـ حکومت کے پاس کوئی سیاسی حل نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ریاستی طاقت کو استعمال کر کے اپوزیشن کی مزاحمتی تحریک کو کچل دینا چاہتی ہے ـ حکومت نے اسلام آباد اور دوسرے بڑے شہروں میں جس انداز سے لاک ڈاؤن کیا ہے اس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو بہت نقصان پہنچا ہے ـ بیرونی سرمایہ کار اس اندیشے میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ پاکستان کے اندر شدید سیاسی عدم استحکام ہے اور ماحول سرمایہ کاری کے لیے سازگار نہیں ہے ـ پاکستانی اور عالمی رائے عامہ یہ تسلیم کرتی ہے کہ عمران خان پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں ـ ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ـ عدالتیں جب ان کو مقدمات سے بری کر دیتی ہیں اور ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات صادر کرتی ہیں تو حکومت ان کے خلاف کوئی اور بے بنیاد مقدمہ درج کرا دیتی ہے ـ یہ رویہ کسی طور بھی جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق کے مطابق نہیں ہے ـ احتجاجی تحریک کی وجہ سے قومی خزانے کا اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے مگر حکومت جس کے پاس تمام اختیارات موجود ہیں ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہیں ہےـ تحریک انصاف کے کارکنوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم سے ایک پولیس کانسٹیبل شہید ہوگیا اور درجنوں سیکورٹی اہل کا زخمی ہوگئےـ تحریک انصاف کا یہ موقف درست ہے کہ ان کے لیڈر عمران خان کو حبس بے جا میں رکھا گیا ہے ـ اگر حکومت خوف میں مبتلا نہ ہوتی تو وہ پاکستان کے قومی مفاد میں عمران خان کو جیل سے بنی گالہ ضرور منتقل کر دیتی اور اس طرح تحریک انصاف کے نوجوانوں میں پایا جانا والا غصہ کم ہو جاتا ـ ملک میں جمہوری نظام کے تحت حکومت اور اپوزیشن دونوں کے کردار اہم ہیں لیکن اکثر یہ تعلقات تصادم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سب سے بڑی وجہ اقتدار کی جدوجہد ہے۔ اپوزیشن حکومت کو ناکام ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ عوام کا اعتماد حکومت سے ہٹایا جا سکے، جبکہ حکومت اپنی پوزیشن مضبوط رکھنے کے لیے اپوزیشن کو دبانے کی کوشش کرتی ہےـ سیاست دان اکثر ایک دوسرے کے خلاف ذاتی الزامات لگاتے ہیں جس سے تنازعات مزید شدت اختیار کر لیتے ہیں۔ سیاسی مباحثے عوامی مسائل کے بجائے ذاتی حملوں پر مرکوز ہو جاتے ہیں ـ پاکستانی سیاست میں برداشت کا فقدان عام ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کی رائے کو قبول کرنے یا اختلاف کو جمہوری انداز میں حل کرنے کے بجائے تنازعہ کو بڑھاوا دیتی ہیں۔پاکستان میں بعض اوقات ریاستی ادارے سیاست میں مداخلت کرتے ہیں جس سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ یہ مداخلت تنازعات کو مزید پیچیدہ کر دیتی ہےـ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں۔ حکومت اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے احتساب کے عمل کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے جبکہ اپوزیشن اسے انتقامی کارروائی قرار دیتی ہے۔حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوامی مسائل نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ دونوں فریق مل کر عوام کی بہتری کے لیے کام کریں وہ ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان حالیہ محاذ آرائی 8 فروری 2024 کے انتخابات کے بعد شروع ہوئی تھی جب دن دہاڑے تحریک انصاف کا انتخابی عوامی مینڈیٹ چوری کر لیا گیا ـ پاکستان مقروض غریب اور پسماندہ ملک ہے وہ اس نوعیت کی شدت پر مبنی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتاـ

حالات کو نارمل بنانے کے لیے قومی مفاد کا تقاضہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں سنجیدہ مذاکرات کرنے پر آمادہ ہو جائیں ـ دونوں فریق جمہوری اقدار کا احترام کریں آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں ـ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی پہلی ترجیح عوام کے بنیادی مسائل ہونے چاہیں جو روز بروز تشویش ناک ہوتے جا رہے ہیں ـ عوام کے لیے عزت کے ساتھ زندگی گزارنا ہی ناممکن ہوتا جا رہا ہے ـ غیر معمولی دہشت گردی نے پاکستان کے مستقبل کو ہی داؤ پر لگا رکھا ہے گزشتہ چند ماہ کے دوران سینکڑوں معصوم شہری شہید ہو چکے ہیں ـ علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کی قیادت میں خیبر پختون خواہ سے آنے والے قافلے اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں ـ قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کو ڈی چوک اسلام اباد میں پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں ہے ـ اس بیان سے تحریک انصاف کے عزائم کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے ـ اگر ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکن خیبر پختون خواہ اور پنجاب کی سرحد پر چند دن ڈیرے ڈالے رکھیں تو حکومت کو ان کے خوف کی وجہ سے اسلام آباد کو مزید چند دن تک بند رکھنا پڑے گا ـ اس ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کا سیاسی نقصان ہوگا ـ پاکستان کے جو عوام سیاسی احتجاج کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں ان کے دلوں میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے خلاف نفرت اور غصہ پیدا ہوگا ـ پاکستان کے غیر جانبدار اور خاموش عوام کی اکثریت حکومت اور اپوزیشن دونوں سے یہ توانا مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے اپنے اختلافات حل کریں ـ حکومت خیبر پختون خواہ سے آنے والے قافلوں کو اسلام آباد میں ایسی جگہ پر آنے کی اجازت دے جہاں پر امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے کا احتمال نہ ہو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان دھرنے کی جگہ کے لیے مزاکرات جاری ہیں ـ وفاق اور صوبے کے درمیان خلیج پیدا کرنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے ـ خیبر پختون خواہ پہلے ہی حالت جنگ میں ہے ـ قومی مفاد اور معروضی حالات کا تقاضہ ہے کہ حکومت عمران خان کی عدالت سے ضمانت کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے اور اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کی وجہ سے انتشار پیدا ہو سکتا ہے تو ان کو حفاظتی تدابیر کے تحت بنی گالہ میں نظربند کر دیا جائے تاکہ پاکستان بھر میں نفرت اور غصے کے جذبات کو کم کیا جا سکے ـ پاکستان کے مقتدر ادارے کا یہ قومی فرض ہے کہ وہ قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پل کا کردار ادا کرے ـ جمہوری اصولوں کو پامال کرنے چادر اور چار دیواری کے وقار کو مجروح کرنے آئین اور قانون کی حکمرانی کو نظر انداز کرنے لوگوں کی آمد و رفت کے راستے بند کرنے اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کرنے سے یہ بہتر ہے کہ ملک پر نام نہاد جمہوریت کی بجائے آمریت نافز کر دی جائے تاکہ سینٹ کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہونے والے اربوں روپے بچائے جا سکیں ـ پاکستان کے غیر جانبدار اور محب الوطن دانشور اور تبصرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے بلکہ عملی طور پر آمریت ہی نافذ ہے ـ عالمی سطح پر پاکستان کا مذاق اڑانے سے اور وقار مجروح کرنے سے بہتر ہے کہ مقتدر شخصیت براہ راست ریاست کا اقتدار سنبھال لےـ راقم کا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ تعلق نہیں ہے ـ میری حب الوطنی پر مبنی غیر جانبدارانہ رائے پاکستان اور 25 کروڑ عوام کے وسیع تر مفاد میں ہے ـ اگر تحریک انصاف کے سیاسی اسیروں کو رہا کر دیا جائے تو حالات سازگار ہو سکتے ہیں اور گرینڈ پولیٹیکل ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع کیا جا سکتا ہے ـ دکھ اور اذیت کی بات یہ ہے کہ قومی مفاد کسی کو بھی عزیز نہیں ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا بحران روز بروز پیچیدہ سنگین اور تشویش ناک ہوتا جا رہا ہے ـ پاکستان کے بے بس عوام ہاتھ اٹھا کر دعائیں کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائےـ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے