تعمیر وطن کی راہیں
کالم : قیوم نظامی تعمیر وطن کی راہیں پاکستان میں وہ نظام رائج ہونا چاہیے تھا جس میں عوام کی رائے کا احترام کیا جاتا اور عوام کو فیصلہ سازی میں کلیدی اختیار دیا جاتا – بصد افسوس قائد اعظم کی رحلت کے بعد مفاد پرست ٹولہ ریاست پر براجمان ہو گیا – بیرونی آقاؤں کی جگہ دیسی آقاؤں نے سنبھال لی-پوری قوم ان مفاد پرست حکمرانوں اور بیوروکریٹس کے قبضے میں ہے جو صرف اپنے مفاد کے مطابق فیصلے کرتے ہیں- عوام کے دکھ درد اور مسائل سے ان کو کوئی سروکار نہیں ان کو صرف اپنا مفاد عزیز ہے- یہ اقتباس ممتاز کاروباری سماجی رفاہی شخصیت محترم ایس ایم اشفاق کی لاجواب کتاب "تعمیر وطن کی راہیں” کے دیباچے سے لیا گیا ہے- پاکستان میں یہ روایت تسلسل کے ساتھ جاری ہے کہ مسائل کی نشاندہی تو کی جاتی ہے مگر مسائل کا حل پیش نہیں کیا جاتا- یہ کتاب پہلی سنجیدہ کاوش ہے جس میں پاکستان کے تمام مسائل کو اجاگر کرنے کے بعد ان کا قابل عمل حل بھی پیش کیا گیا ہے- تعمیر پاکستان فورم کے اراکین خراج تحسین اور مبارکباد کے مستحق ہیں جن کی حب الوطنی پر مبنی مشترکہ کاوشوں سے یہ کتاب تخلیق ہو سکی ہے- اس فورم کے اجلاس میں ہر شعبے کے ماہرین کو گیسٹ سپیکر کے طور پر بلایا جاتا اور ان کے لیکچر کے نوٹس تیار کیے جاتے جن کو کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے-اپنی نوعیت کی اس منفرد کتاب کا سہرا محترم ایس ایم اشفاق کے سر پر ہے جنہوں نے بڑی محنت خلوص اور محبت کے ساتھ اس کتاب کو مرتب کیا ہے-اس کتاب کے چھ ابواب ہیں باب اول نظام حکومت باب دوم معیشت باب سوم نظام تعلیم و تربیت باب چہارم نظام عدل و انصاف باپ پنجم زراعت باب ششم کرپشن- ان ابواب سے کتاب کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے-مرتب نے اس کتاب کو دلچسپ بنانے کی پوری کوشش کی ہے تاکہ قارئین کسی قسم کی بوریت محسوس نہ کریں اور پوری کتاب پڑھ سکیں – اس کتاب میں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں آرٹیکل شامل کیے گئے ہیں تاکہ انگریزی بولنے اور سمجھنے والے افراد بھی اس کتاب کا مطالعہ کر سکیں-یہ کتاب موٹیویشنل نوعیت کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے نوجوان پاکستان کے مسائل کو سمجھ سکیں اور ان کے حل کا ادراک بھی کر سکیں- کسی شاعر نے کہا تھا ہے شوق سفر ایسا ایک عمر سے یاروں نے منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلا پاکستان کی بدقسمت تاریخ کا اگر سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ پاکستان کا سفر ایک دائرے کا سفر ہے-یہ کتاب اس دائرے کے سفر کو توڑ کر ایک ایسی سمت کی نشاندہی کرتی ہے جس کے نتیجے میں عوام کو خوشحالی نصیب ہو سکتی ہے-اس کتاب میں سنگاپور کے عظیم لیڈر لیکوان یو کا قبر سے ایک فرضی خط شامل کیا گیا ہے جو انتہائی دلچسپ اور سبق آموز ہے-پاکستان میں عام تاثر یہ ہے کہ جس طرح کی قوم ہوگی اسی طرح کے لیڈر بھی ہوں گے-لیکوان یو اس تصور سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ جیسے لیڈر ہوں گے ویسے ہی قوم بن سکتی ہے- ان کا کہنا ہے کہ اگر بس کا ڈرائیور ہی نااہل اور نا تجربہ کار ہو تو سفر کی مشکلات اور حادثے کی ذمہ داری مسافروں پر نہیں ڈالی جا سکتی -لیکوان یو نے عملی طور پر یہ ثابت کر دکھایا اور سنگاپور کے عوام کو ایک مضبوط مستحکم بیدار اور باشعور قوم میں تبدیل کر دیا- سنگاپور کے کامیاب تجربے اور رول ماڈل کو "ایک لیڈر کی تلاش” کے عنوان سے ایک باب میں شامل کیا گیا ہے-جس سے پاکستان کے نوجوان ترقی اور خوشحالی کے راز جان سکتے ہیں-مرتب نے اپنی کتاب میں علامہ اقبال کی لازوال الہامی نظمیں شکوہ اور جواب شکوہ بھی شامل کی ہیں اور ان کا پس منظر بھی بیان کیا ہے-سوشل میڈیا کی مقبول عام اور سبق اموز پوسٹیں بھی کتاب میں شامل کی گئی ہیں- جن میں سے چند نزر قارئین ہیں- A bad system will beat a good person every time چین کے پانچ صدور اور سنگاپور کے تین وزرائے اعظم نے اپنے بہترین نظام اور حب الوطنی کے جذبے سے اپنے ملکوں کو عظیم ملک بنا دیا پاکستان انگریزوں کا نظام چلا رہا ہے اور لیڈر محب الوطن نہیں ہیں اس لیے پاکستان مقروض اور غریب ملک ہے- ” ہر سول مقدمے کا فیصلہ تین ماہ میں اور فوجداری مقدمے کا فیصلہ چھ ماہ میں ہونا چاہیے جو حتمی ہو اور اس کے خلاف اپیل کی گنجائش نہ ہو- چین میں کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس ہے آڈٹ افس نے انکشاف کیا کہ ایس او ای ریاستی کارپوریشن میں آٹھ ارب ڈالر غائب ہیں چین کی حکومت نے ملازمین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا 8370 ملزمان چین سے فرار ہو گئے 6538 روپوش ہو گئے 1253 نے خودکشیاں کر لیں – پاکستان میں کرپٹ ملزمان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتی ہیں اور ان سے وی ائی پی سلوک کیا جاتا ہے- ہمیں اپنی سوچ کو اور نظام کو بدلنا ہوگا ( پاکستان جاگو تحریک) جب چوروں کے ہاتھ کاٹے جاتے تھے تب مسلمانوں کا عروج تھا اب چوروں کا استقبال کیا جاتا ہے یہ مسلمانوں کا زوال ہے- یہ کتاب قومی امراض کے لیے نسخہ کیمیا ہے- مختلف شعبوں کے ماہرین نے ہمارے سیاسی معاشی سماجی تعلیمی اور دیگر مسائل کا جو حل پیش کیا ہے وہ قابل عمل ہے مگر جب تک یہ سٹیٹس کو کا نظام چل رہا ہے اس وقت تک بلی کے گلے میں گھنٹی کوئی نہیں باندھ سکے گا البتہ اگر پاکستان کے نوجوان منظم بیدار اور باشعور ہو جائیں اور ایک پرزور تحریک چلائیں تو وہ سٹیٹس کو کا خاتمہ کر کے پاکستان میں قران اور سنت کے سنہری آفاقی اصولوں اور قائد اعظم علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق نیا پاکستانی نظام نافذ کر کے پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتے ہیں- حکیم الامت شاعر مشرق مفسر قران علامہ