دولت سے امن
تحریر: نادر علی شاہ آج کی تحریر میں دولت کی فراوانی اور غربت کے خاتمے کے ایک معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں کو زیر بحث لایا جائے گا ۔ ” غربت، انقلاب اور جرم کی ماں ہے”۔ کسی بھی ملک کا عدم استحکام ، معاشی ابتری، نظام کی خستہ حالی، جرائم کی شرح میں اضافہ، سیاسی نفرتیں اور عام لوگوں کی معاشی مشکلات کا صرف ایک ہی سبب ہے اور وہ ملک و قوم کی غربت ہے ۔ غربت ہی کسی ملک میں خوشحالی اور ترقی کی راہ کو ہموار کرتی ہے کیونکہ ضرورت ہی ایجاد کی ماں ہے۔ غربت ہی عام لوگوں میں بغاوت کے جذبات کو ہوا دیتی ہے۔ جب عام لوگ حکمران طبقے کو عیاشیاں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ ایسے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں جس میں رعایا بھوک اور مفلسی میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں تو دوسری جانب امرا، اشرافیہ ، سرمایہ کار ، بیوروکریسی اور فریبی سیاست دان انہی غرباء کا خون چوس کر عیاشیوں میں مگن ہوتے ہیں ۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ دولت کا ارتکاز صرف چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ جب تک دولت کا ارتکاز کچھ لوگوں اور طبقات میں رہے گا تب تک امیر اور غریب کے درمیان موجود خلیج میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اس لیے ارتکاز دولت کو توڑنا ہوگا اور دولت کی تقسیم کو منصفانہ انداز سے عمل میں لانا ہوگا۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں امیروں کے لیے نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جن کا اختتام پھر انقلاب فرانس ، چین، ایران اور جنوبی افریقہ پر ہوتا ہے۔ دوسری جانب یہی غربت کسی بھی معاشرے میں جرائم کی شرح بڑھنے کی بنیاد بنتی ہے۔ لہذا جب ہم ترقی پذیر ممالک کے مسائل کا مشاہدہ کرتے ہیں تو کُچھ باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کا سیاسی نظام بہت کمزور اور بدعنوانیوں پر مبنی ہوتا ہے اور اسی بد عنوان نظام کے نیچے کام کرنے والے ادارے بھی بدعنوانیوں میں برابر کے شریک ہوتے ہیں جس کا الٹی میٹ نقصان صرف عام لوگوں کو اٹھانا پڑتا ہے ۔ ملک قرضوں کے سہارے چلایا جاتا ہے اور ان قرضوں کا بوجھ عام لوگوں کو ٹیکس کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے ۔ ایسے ملکوں میں حکمران اپنی شہہ خرچیوں میں ذرا برابر کمی نہیں کرتے اور نہ ہی میانہ روی اختیار کرتے ہیں ۔ اس طرح ان عیاش حکمرانوں کا بوجھ بھی عام لوگوں کو اٹھانا پڑتا ہے ۔ ان ملکوں میں بے روزگاری عام ہوتی ہے جس کی وجہ سے شرحِ جرائم میں بہت اضافہ ہوتا ہے اور آئے دن احتجاج اور مظاہرے عام سی بات ہے ۔ سیاسی حکومتیں بھی بے یقینی کی صورتحال میں رہتیں ہیں کسی بھی وقت کوئی غیر جمہوری قوت حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار حاصل کر سکتی ہے۔ ایسے تمام ترقی پذیر ممالک کو بنگلہ دیش سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس نے پچھلے بیس سال سے ملک میں معاشی ایمرجنسی نافذ کی ہوئی ہے جس کے تحت ملک میں رہنے والا ہر فرد کام کرے گا اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالے گا ۔ بنگلہ دیش کی حکومت کو ترقی کا پروگرام دینے والے مسیحا کا نام ہے ڈاکٹر محمد یونس ۔ جس نے حکومت کو مائیکرو فنانس کا مشورہ دیا ، جس کے تحت لوگوں میں چھوٹے لیول پر بغیر سکیورٹی قرضہ جات دئیے جائیں جس سے لوگ کاروبار کریں ، اس عمل میں ڈاکٹر محمد یونس کا گرامین بنک بھی حکومت کے ساتھ تھا۔ حکومت نے اس پروگرام کو منظور کرکے لوگوں کو قرضہ جات کی فراہمی شروع کر دی ۔ جس کے بہت جلد ثمرات آنا شروع ہو گئے اور بنگلہ دیش جیسا غریب ملک ترقی پذیر ممالک کی صف میں سے ہوتا ہوا اب ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کودنے کو تیار کھڑا ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر اسی ارب ڈالرز سے زائد ہیں ۔ اب یہاں آپ کو ڈاکٹر محمد یونس کا چھوٹا سا تعارف کرواتا چلوں جن کی سوچ سے بنگلہ دیش میں اتنی بڑی معاشی تبدیلی آئی اور ملک غربت سے نکل کر خوشحالی کی جانب گامزن ہوا، انہیں اس کارنامے پر نوبل امن پرائز سے بھی نوازا گیا تو آئیں جانتے ہیں معیشت دان ڈاکٹر محمد یونس کے بارے میں ۔ ڈاکٹر محمد یونس (پیدائش 28جون 1940 ) ایک بنگلہ دیشی سماجی کاروباری بینکر، ماہرِ اقتصادیات اور سول سوسائٹی کے رہنما ہیں ۔ جنہیں گرامین بنک کی بنیاد رکھنے اور مائیکرو کریڈٹ اور مائیکرو فنانس کے تصورات کو آگے بڑھانے پر امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا ۔ یہ قرضے ایسے کاروباری حضرات کو دئیے جاتے ہیں جو روایتی بنک کے قرضوں کے لیے اہل نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر محمد یونس اور گرامین بنک کو مشترکہ طور پر نوبل امن انعام سے نوازا گیا ۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بنگلہ دیش جیسا ملک اپنے نظام میں ایک چھوٹی سی معاشی تبدیلی کرکے اس قدر وسیع معاشی فوائد اٹھا سکتا ہے تو ہم ایسے معاشی نظام کی حوصلہ افزائی کیوں نہیں کرتے جس سے ارتکاز دولت کا یہ منحوس دائرہ ٹوٹ سکے۔ عوامی اتحاد پارٹی بھی پاکستان میں ایسا معاشی نظام چاہتی ہے جس میں عام لوگوں کو مائیکرو فنانسنگ کی جائے تاکہ سمال سکیل انڈسٹری کو بوسٹ دیا جا سکے ۔ جب سمال سکیل انڈسٹری کو بوسٹ ملے گا تو ذاتی کاروبار کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر لوگوں کو روزگار مل سکے گا، اس طرح دولت بھی چند ہاتھوں میں نہیں رہ سکے گی، جب دولت کی تقسیم چند ہاتھوں سے نکل کر تمام سماج میں مساوی تقسیم ہونا شروع ہو جائے گی تو معاشرے میں معاشی طبقاتی فرق کم ہوتا جائے گا جس کا یہ فائدہ ہوگا کہ نفرت اور احساس کمتری کا احساس ختم ہو جائے گا ۔ دولت کی یہی مساوی تقسیم سماج میں امن و آشتی لائے گی۔