تعلق

      تحریر ۔ نادر علی شاہ ایک انسان کے بنیادی طور پر انفرادی حیثیت میں چار تعلقات ہوتے ہیں ۔ تعلق کے معنوں میں رشتہ، ناتا، واسطہ یا سروکار وغیرہ آتا ہے ۔ ایک اچھی، خوشحال اور پائدار زندگی گزارنے کے لیے آپ کا چار لوگوں یا چیزوں سے مضبوط تعلق ہونا بہت ضروری ہے ۔ جو انسان ان چار چیزوں سے اپنا تعلق مضبوط کر لے گا، اس کی مشکلات آسان ، اندھیروں میں اجالا ، ناکامیوں میں کامیابی ، تنگدستی میں خوشحالی ، بے چینی میں سکون اور نفرتیں محبت میں بدل جائیں گیں ۔ ایسا انسان پھر زندگی گزارے گا نہیں بلکہ جیئے گا اسے مایوسی میں بھی امید دکھائی دے گی ۔ اب بات کرتے ہیں کہ ان چار تعلقات کی جو ہمیں مندرجہ بالا تبدیلیوں کے قابل بناتے ہیں ۔ نمبر ایک: اپنے آپ سے تعلق ۔ یعنی اپنے آپ کو جاننا ، خود کی پہچان ، کہ میں کون ہوں ، کیوں ہوں اور کس لیے ہوں۔ خود کو پہچاننے کے اس عمل کو خودی کہتے ہیں۔ اقبال نے بھی فرمایا ہے: ا خودی کی جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی زمین و آسمان و کرسی و عرش خودی کی زد میں ہے ساری خدائی جب ایک انسان خود کے اندر جھانک کر خود کو جانتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ وہ کیا ہے اور اس کی پیدائش کا کیا مقصد ہے اور اسے اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے تو پھر اس پر قدرت کی طرف سے راز کھلتے ہیں اور سارا جہاں اس کی مٹھی میں ہوتا ہے۔ دوسرا تعلق ۔ کائنات سے تعلق ۔ ایک انسان جب خود کو پہچان لیتا ہے پھر اسے چاروں اطراف پھیلی ہوئی قدرت اور کائنات کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔پھر وہ انسان چاند ستاروں ، وسیع آسمان، سورج، سیاروں ، کہکشاؤں ، جنت ،دوزخ، فرشتوں ، پہاڑوں ، ریگستانوں ، میدانوں ، سمندروں ، دریاؤں ، پہاڑوں ، کھلیانوں ، ہواؤں ، جانوروں پرندوں ، انسانوں ، پانی، اناج، سبزیوں پھلوں اور معدنیات کو دیکھتا ہے اور ان سے تعلق جوڑنے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر عیاں ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی ایسی ہستی ہے جو یہ سارے نظام چلا رہی ہے ۔ اس طرح اس فرد کا اس ذات پر یقین اور قوی ہو جاتا ہے ۔ تیسرا تعلق: لوگوں سے تعلق ۔لوگوں سے تعلقات میں ہمارا اپنے پورے خاندان، دوستوں، رشتہ داروں، کولیگز، محلے داروں، اساتذہ کرام، مذہبی پیشواؤں کے ساتھ تعلق شامل ہے۔ لوگوں سے تعلق کو بھی کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس دنیا میں براہ راست ہمارا جن سے تعلق ہوتا ہے وہ بالآخر لوگ یا انسان ہی ہوتے ہیں ۔ اگر ہمارا لوگوں سے اچھا تعلق نہیں ہوگا تو ہم بے شمار ذہنی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ تارک الدنیا یا مجاوروں کی زندگی میں بھی بہت سے مسائل کا خدشہ ہے ۔ کسی بھی انسان کے لیے اس دنیا میں ایک خوشگوار اور پر سکون زندگی گزارنے کے لیے لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ چوتھا تعلق: اللّٰہ تعالیٰ سے تعلق ۔ چوتھا تعلق اپنی اہمیت کے حوالے سے بہت ضروری ہے جس کے بغیر انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ سے دوری بندے کو بندے سے دور کر دیتی ہے ۔ انسان جب اللہ کو یاد کرتا ہے، صوم و صلاۃ کا پابند ہوتا ہے، اپنی زندگی کو شریعت کے مطابق ڈھالتا ہے، تو براہ راست اس کا تعلق اللہ سے مضبوط ہوجاتا ہے۔ وہ تنہائی میں ہو یا محفل میں ہر لمحہ اللہ کی یاد اُس کے دل میں موجود رہتی ہے، اُس کے خوف سے اُس کا دل لرزاں رہتا ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی واضح ہے کہ جو لوگ پہلے تین تعلقات کو بڑے احسن طریقے سے قائم رکھتے ہیں انہیں اللّٰہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے میں کسی مشکل کا سامنا کرنا نہیں پڑتا ۔ بلکہ اللّٰہ عزوجل خود ایسے لوگوں کو اپنا دوست قرار دیتا ہے ۔ آج ہم جن پریشانیوں ، معاشی مسائل اور ذہنی خلفشاروں کا شکار ہیں اس کا یہی حل کہ ہمیں اپنے آپ سے ، کائنات سے، لوگوں سے اور اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ خود کو جوڑنے کی ضرورت ہے ۔