جنرل فیض حمید کا منطقی انجام
![](https://awamietihad.org/wp-content/uploads/2024/09/Screenshot_20240916_070854-modified-1024x1024.png)
تحریر:قیوم نظامی ڈی جی آئی ایس پی آر کی تازہ پریس ریلیز کے مطابق جنرل فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ با ضابطہ طور پر عائد کر دی گئی ہےـ اس چارج شیٹ میں جنرل فیض پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے طاقتور خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کی حیثیت سے ریاست کے مفاد کو نقصان پہنچایا وہ کھلم کھلا سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے رہے اور اختیارات کا غلط استعمال کیا انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی اور ریاست کے مفاد کو داؤ پر لگا دیا ـ انہوں نے اپنے اختیارات کو غلط استعمال کر کے متعدد افراد کو نقصان بھی پہنچایاـ پریس ریلیز کے مطابق ان الزامات کے علاوہ ان کے خلاف نو مئی کے واقعات میں مزموم سیاسی عناصر سے ملی بھگت کی بھی تفتیش ہو رہی ہے ـ آئی ایس پی آر کے مطابق کورٹ مارشل کے دوران جنرل فیض حمید کو قانون کے مطابق تمام حقوق حاصل ہوں گے ـ جنرل فیض حمید کے خلاف چار ماہ قبل 12 اگست کو فیلڈ کورٹ مارشل کی کاروائی کا اغاز کیا گیا تھا ـ اس کاروائی کے لیے ان کو باضابطہ طور پر فوج کی حراست میں لے لیا گیا تھاـ یہ خبر پاکستانیوں اور دنیا کے لیے دھماکے سے کم نہیں تھی ـ عسکری تاریخ میں پہلی بار پریمئر ایجنسی کے سربراہ کے خلاف کاروائی کرنے کا فیصلہ دلیرانہ تھا جس کے لیے ادارہ جاتی مشاورت کی گئی ـ جنرل فیض حمید کے خلاف سپریم کورٹ کی میں دائر کی گئی ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے سنگین اور حساس الزامات پر مبنی ایک درخواست محکمانہ کارروائی کے لیے وزارت دفاع کو ارسال کی گئی تھی ـ اطلاعات کے مطابق جنرل فیض حمید نے میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ کو اپنا وکیل مقرر کر دیا ہے تاکہ وہ ان کا قانونی دفاع کر سکے ـ جب جنرل فیض حمید کو فوجی حراست میں لیا گیا تھا تو اس وقت تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عمران خان نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ فیض حمید کو میرے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مجھے فوجی عدالت میں لے جانے کے لیے یہ ڈرامہ رچایا جا رہا ہے ـ جنرل فیض حمید کی تفتیش کے دوران تین سابق فوجی افسران کو بھی عسکری تحویل میں لیا گیا جن پر فوج کے نظم و ضبط کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا ـ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے فیض حمید کا نام لے کر عدالت پر دباؤ ڈالنے کا الزام عائد کیا گیا تھا ـ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پی پی پی پی دونوں سیاسی جماعتیں جنرل فیض حمید پر الزامات لگاتی رہی ہیں کہ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے پی ٹی ائی کی حکومت کو سپورٹ کرتے رہے ہیں ـ ان جماعتوں کا یہ الزام بھی رہا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں جنرل فیض حمید اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کی تھی ـ جنرل فیض حمید اپنے قریبی ذرائع کے ذریعے ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں ـ آرمی ایکٹ کے قوانین کے ماہر محترم کرنل عبدا لرحیم ایڈووکیٹ کا یہ خیال ہے کہ جنرل فیض حمید کو ریاست کے راز افشاں کرنے پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت عمر قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے اور ٹھوس شہادتوں کی بنا پر جنرل فیض حمید کے خلاف مقدمہ اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا جسے عسکری تاریخ میں ایک سینیئر جرنیل کے احتساب کی روشن مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور آئیندہ کسی فوجی آفیسر کو یہ جرات نہیں ہوگی کہ وہ فوجی نظم و ضبط اور نظم و نسق کو پامال کرےـ کرنل صاحب نے کہا کہ جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کا فیصلہ کسی فرد واحد کا نہیں بلکہ پورے عسکری ادارے کا ہے ـ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی ائی ایس ائی جنرل فیض حمید نے جس افسوسناک اور شرمناک انداز سے ریاست اور حکومت کو چلایا وہ عسکری تاریخ کا ایک افسوناک باب ہے ـ ان کی کھلم کھلا سیاسی سرگرمیوں نے نہ صرف سیاست جمہوریت حکومت کو نقصان پہنچایا بلکہ ریاست کے وقار کو بھی پوری دنیا میں مجروح کر دیا ـ شاندار نظم و ضبط اور معیاری کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کی وجہ سے پاک فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں کیا جاتا ہے ـ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ سابق آرمی چیف اور سابق ڈی جی ائی ایس ائی نے پاکستان کے وقار کا ذرہ بھر بھی خیال نہ رکھا ـ پاک فوج کے اندر خود احتسابی کی روایت کو قائم رکھنے کے لیے لازم ہو گیا تھا کہ جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کیا جائے ـ پاک فوج کا یہ ادارہ جاتی فیصلہ ہے کہ کسی سابق آرمی چیف کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی ـ بعض دفاعی مبصرین کے مطابق پاکستان کے آرمی چیف کی حیثیت وائسرائے کی ہوتی ہے جو آئین و قانون اور احتساب سے ماوراء ہوتا ہے اور اسے خصوصی استثناء حاصل ہوتا ہےـ الیکٹرانک سوشل اور پرنٹ میڈیا میں جنرل فیض حمید کے خلاف کاروائی کا فیصلہ ہارٹ ایشو بن چکا ہے جس کے بارے میں مختلف نوعیت کے تبصرے کیے جا رہے ہیں ـ اس سلسلے میں مختلف نوعیت کے امکانات اور خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے ـ بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ جنرل فیض حمید کے خلاف کاروائی محض ایک ڈرامہ ہے اور اس کا نشانہ صرف عمران خان ہے ـ میرے خیال میں یہ تاثر درست نہیں ہے ـ جنرل فیض حمید کے خلاف سنجیدہ سوچ بچار کے بعد اور اتفاق رائے کے ساتھ کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہےـ پاکستان مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما اور صدر میاں نواز شریف آج کل ذاتی اور سیاسی مصلحتوں کی بنا پر خاموش ہیں مگر باخبر صحافیوں کے مطابق جنرل فیض حمید کے خلاف کاروائی میں ان کی صدر پاکستان آصف زرداری کی آشیر باد بھی شامل ہے کیونکہ میاں نواز شریف