سیاسی و آئینی انجینئرنگ
تحریر: قیوم نظامی سیاسی و آئینی انجینئرنگپاکستان کی تاریخ میں ملٹری اور بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے سیاسی و آئینی انجینیئرنگ کا سلسلہ جاری رہا-سیاسی انجینیرنگ سے سیاسی جماعتوں سیاسی اتحادوں اور سیاسی حکومتوں کو کمزور کیا جاتا رہا- اس مقصد کی خاطر لیڈروں اور سیاسی جماعتوں کی کمزوریوں اور سیاسی جماعتوں کی آپس میں محاذ آرائی کی وجہ سے فائدہ اٹھایا جاتا رہا-ملٹری اور بیوروکریسی کی مقتدرہ نے سیاسی انجینئرنگ کے لیے” چھڑی اور گاجر "کے اصول پر عمل کیا-سیاست دانوں کو لالچ بھی دیا گیا انہیں خوفزدہ بھی کیا گیا اور مختلف حربے اور ہتھکنڈے استعمال کر کے سیاست کو کمزور رکھا گیا جبکہ ملٹری اور بیورکریسی کی طاقت میں اضافہ ہوتا رہا- سیاسی میدان میں اتارنے کے لیے اپنے پسندیدہ لیڈروں کا انتخاب کیا گیا-ایم کیو ایم کے الطاف حسین اور مسلم لیگ نون کے میاں نواز شریف اس سیاسی کھیل کی واضح مثالیں ہیں- بالا دست مقتدرہ نے اپنے عزائم کی خاطر آئینی انجینرنگ سے بھی کام لیا- آ مرجرنیل اقتدار پر قبضہ کرتے رہے اور پاکستان کے آئین میں من پسند ترامیم کرتے رہے-سیاسی اور آئینی انجینیرنگ کو کبھی علیحدہ اور کبھی مشترکہ طور پر استعمال کیا گیا-سابق بیوروکریٹ گورنر جنرل غلام محمد اور سابق فوجی سکندر مرزا سینیئر بیوروکریسی سے ساز باز کر کے سول حکومتیں بناتے اور توڑتے رہے-دونوں کو آرمی چیف جنرل ایوب خان کی تائید اور حمایت حاصل تھی-تینوں با اثر شخصیات نے 1953 سے 1958 تک سیاسی اور آئینی انجینئرنگ کی-گورنر جنرل غلام محمد نے اپریل 1953 میں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو ختم کر دیا اور ان کی جگہ محمد علی بوگرا کو وزیراعظم نامزد کر دیا جو کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے-بوگرا کو مسلم لیگ کا صدر بھی نامزد کر لیا گیا-جنرل غلام محمد نے 1954 میں سول ملٹری آشیر باد سے دستور ساز اسمبلی کو ہی توڑ دیا-1955 میں سکندر مرزا نے گورنر جنرل غلام محمد کو ان کے منصب سے ہٹا دیا-اپریل 1956 میں ریپبلیکن پارٹی قائم کی گئی-1955 سے 1958 تک چار وزیراعظم تبدیل کیے گئے جو سیاسی اور آئینی انجینئرنگ کی واضح مثالیں ہیں-جنرل ایوب خان نے 1958 میں سکندر مرزا کو ان کے منصب سے ہٹا کر اقتدار خود سنبھال لیا اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے-جنرل ایوب خان نے 1962 میں پاکستان پر آئین نافذ کیا جو صدارتی اور آمرانہ تھا-پاکستان کی تاریخ میں سول اور فوجی حکمران 1973 کے آئین میں اپنے سیاسی عزائم کی خاطر ترامیم کرتے رہے جن کو سیاسی اور آئینی انجینئرنگ قرار دیا جا سکتا ہے- قیام پاکستان کے بعد 1935 کے ایکٹ کو عبوری آئین کے طور پر تسلیم کر لیا گیا-قائد اعظم نے آزادی کے تقاضوں کے مطابق 1935 کے ایکٹ میں کچھ ترامیم بھی کروائیں-پاکستان کا پہلا آئین 23 مارچ 1956 کو جاری کیا گیا-دوسرا آئین جنرل ایوب خان نے 1962 میں نافذ کیا-1970 میں جنرل یحیٰی خان نے حکومت چلانے کے لیے پی سی او نافذ کیا-اس پی سی او کے تحت 1970 کے انتخابات بھی کرائے گئے-1971 میں جنرل یحیی خان نے ایک آئین تیار کرایا مگر مشرقی پاکستان میں سقوط ڈھاکہ کے بعد یہ آئین جاری نہ کیا جا سکا- ذوالفقار علی بھٹو نے 1971 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک عبوری آئین نافذ کیا جو صدارتی نوعیت کا تھا-14 اگست 1973 کو پاکستان کا پہلا متفقہ جمہوری آئین نافذ کیا گیا-یہ آئین 1977 تک چلتا رہا- پانچ جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر کے 1973 کے آئین کو معطل کر دیا-جنرل ضیاء الحق نے آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے 1973 کے آئین میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کیں جو اس کے ذاتی اقتدار اور اختیار کے بارے میں تھیں- اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سترویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کر لیا ـ سیاسی حکمران جمہوریت کے عالمی اصولوں پر عمل درامد نہ کر سکے اور نہ ہی پاکستان کے عوام کو گڈ گورننس دے سکے-سیاسی حکمرانوں کی ذاتی اور جماعتی کمزوریوں کی وجہ سے ملٹری اور بیوروکریسی فائدہ اٹھاتی رہی-سیاسی لیڈروں نے اپنی سیاسی جماعتوں کو یونین کونسل کی سطح پر منظم اور متحرک نہ کیا جس کی وجہ سے وہ آسان شکار بنتے رہے-قائد اعظم گورنر جنرل پاکستان اور لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے سول ملٹری بیوروکریسی کو اپنے زیر اثر رکھنے میں کامیاب رہے-ان دونوں عظیم لیڈروں کی رحلت کے بعد کوئی سیاسی حکمران ملٹری اور بیوروکریسی کی مداخلت کو نہ روک سکا-1947 سے لے کر 1958 تک پاکستان میں سات وزرائے اعظم نامزد ہوئے-پاکستان کی بدقسمت تاریخ میں عدلیہ بھی جمہوری حکمرانوں کے بجائے ملٹری اور بیوروکریسی کی سہولت کار بنی رہی- ملٹری اور بیوروکریسی کی مقتدرہ کو عدلیہ کی حمایت بھی حاصل رہی-چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں سیاسی و آئینی انجینئرنگ کے علاوہ عدالتی سہولت کاری بھی شامل رہی جس کی وجہ سے پاکستان کے اندر سیاسی جمہوری نظام مضبوط اور مستحکم نہ ہو سکا-ملٹری اور بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ نے جمہوریت کو پنپنے کا موقع ہی نہ دیا- آئی جے آئی اور پی این اے کے سیاسی محاذ ملٹری اور بیوروکریسی کی آشیر باد سے ہی تشکیل دیے گئے-سیاسی و آئینی انجینئرنگ تا حال جاری ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے اندر سیاسی اور معاشی استحکام نظر نہیں آتا ـ 26ویں آئینی ترمیم سیاسی و آئینی انجینئرنگ کا شاہکار ہے ـ جب تک سیاسی اور آئینی انجینئرنگ کا خاتمہ نہیں ہو جاتا پاکستان ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکے گا- یہ کالم پاکستان کے نامور مورخ دانشور اور غیر جانبدار مبصر پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کی نئی منفرد اور جامع کتاب” پاکستان پولیٹیکل اینڈ کانسٹیٹیوشنل انجینئرنگ” مطبوعہ سنگ میل پبلشرز لاہور سے ماخوذ ہےـ پروفیسر حسن عسکری کے مضامین پاکستانی اور عالمی جریدوں میں شائع ہوتے رہے ہیں وہ عالمی یونیورسٹیوں کے تحقیق و تدریس کے شعبوں سے بھی وابستہ رہے ہیں انہوں نے 2018 کی پنجاب میں بننے والی نگران حکومت کے وزیراعلی کے طور پر بھی فرائض انجام دیےـ یہ کتاب 1947 سے 2024 تک سیاسی و آئینی واقعات کا معتبر